خوف

"خوف"

جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوکیدار کی آواز سُن کر ثُریا اپنی قبر سے نکل کر اماں کی قبر میں آ بیٹھی۔

"اماں مجھے اِس آواز سے بہت ڈر لگتا ہے!"

"ارے تُو کیوں ڈرتی ہے؟ یہ تو شہر والوں کے لیے ہے!"

"پر اماں، شہر والے کب جاگتے ہیں!"

اماں بے اختیار مسکرا اٹھی، "کیا مطلب؟"

"دیکھ اُس رات تو کوئی نہیں جاگا۔۔۔"

"ششش!"، اماں نے ایک دم ثُریا کی بات کاٹ دی۔ نہر کے گدلے پانی اور اُس میں تیرتے خس و خاشاک کا ذائقہ اماں کے منہ میں اُبل اُٹھا۔ پر اُس رات ہُوا کیا تھا؟ اُسے شاید ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا۔ کچھ ٹوٹی پھوٹی جھلکیاں تھیں۔ درد کی۔ بے بسی کی۔ راحت کی۔ طویل قید سے رہائی کی۔ نشے میں دھت شوہر کی مارـ گاؤں میں ابا کا دائمی حکم "اب وہاں سے تیرا جنازہ اُٹّھے"ـ گٹھڑی میں جمع پونجی ـ شہر کی خوابیدہ گلیاں ـ کسی دارالامان مسکن یا معجزے کی تلاش ـ رات کا گہرا اندھیرا دھیرے دھیرے، انتہائی خاموشی سے، کونے کدھروں سے ماں بیٹی کے آر پار گزرتی نگاہوں میں اترتا ہواـ شاید گھبرا کر اُس نے دل ہی دل میں کسی مہربان کو آواز دی تھی ـ اور اگلے ہی موڑ پر اُبھرتی نہر نے انتہائی شفقت سے لبیک کہا تھا۔ اور پھر۔۔۔

جااااااااگ تے رہووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاااااااگ تے رہوووووووو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوکیدار کی آواز نہر کے کنارے اُن آخری لمحات کی طرح ایک بار پھر ماں بیٹی کے کانوں سے ٹکرائی۔ ثُریا کانپتے ہوئے اماں سے لپٹ گئی۔ اماں نے منہ سے تنکا نکالا اور ثریا کو مضبوطی سے اپنی آغوش میں لے لیا۔ نہ ڈر بیٹا، اب نہ ڈرـ شہر سوتا رہا۔
 

Ibnay Muneeb
About the Author: Ibnay Muneeb Read More Articles by Ibnay Muneeb: 54 Articles with 63485 views https://www.facebook.com/Ibnay.Muneeb.. View More