تحریر:ہما مختار احمد (سیالکوٹ)
دنیا اپنے انداز میں پور سکون چل رہی تھی۔ایک ملک دوسرے ملک سے ترقی کی دوڑ
میں آگے نکلنے کی تگ ودو میں تھا۔امریکہ سوپر پاور کے بل پہ دنیا پہ حکومت
کا خواہشمند تو دوسری طرف انڈیا مسلمانوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف
تھا۔کشمیر میں کھلے عام عورتوں کی عزتیں پامال کی جا رہی تھی کشمیری
مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے انہیں دنیا سے کاٹ کر کشمیر جیسی
خوبصورت جنت میں قید کیا جا رہا تھا۔کشمیر پر چھ ماہ سے لگے کرفیو سے اب
کشمیریوں کے لیے آوازیں اٹھنا بند ہو گئی تھی۔پاکستان واحد ملک جو کشمیریوں
کی بیبسی پر آواز اٹھا کر اقوام متحدہ تک چلا گیا تھا پر انسانیت کی
فرسودگی خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی تھی
چائنا اور انڈیا کے درمیان معاملات بگڑ رہے تھے۔ان سب میں ایک ترقی پذیر
ملک پاکستان کی معیشت جو کچھ بہتر ہو رہی تھی ملک کی پٹری نقل و حمل ہونا
شروع ہو رہی تھی۔اسی دوران چائنا کے شہر ووہان سے ایک وباء پھوٹی۔ شروع میں
لوگوں کا خیال تھا کہ یہ وباء بس چائنا تک محدود رہے گی۔وقت گزرتا گیا اور
دیکھتے دیکھتے اس وباء نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔کیا ترقی
یافتہ ممالک اور کیا ترقی پذیر ممالک سب کو بیماری نے اپنے احاطے میں لے
لیا۔امریکہ برطانیہ روس فرانس سعودی عرب متحدہ عرب امارات سمیت بہت سے
ممالک کو وباء نے جکڑ لیا۔ مسجدیں اور تمام مقدس مقامات پر پابندیاں عائد
کر دی گئی۔ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس مہلک وائرس سے لقمہ اجل بنتے گئے۔ہر
طرف خوف وہراس پھیل گیا اس سوگوار فضا نے دنیا کی رونقیں چھین لی۔ دنیا میں
نقل و حمل بند ہو گئی۔ مسلمانانِ عالم اسلام پر ایک اور قہر ٹوٹا کہ ہمارے
مقدس مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ کی رونقیں تک اس وبائی بیماری نے چھین
لی۔آنکھیں تھی کہ دکھ اور غم سے نڈھال تھی۔ایک جسم سے دوسرے جسم میں یہ
وائرس سانس لینے اور چھونے سے منتقل ہونے سے لوگ موت کے منہ میں جا رہے
تھے۔پاکستان میں اس بیماری کا کیا استقبال کیا گیا ہر چینل اس کی کوریج
کرنے میں نمبر ون بننے کی دوڑ میں تھا۔ہر طرف کرونا وائرس کا پہلا مریض
سامنے آگیا کی خبریں گردش کرنے لگی۔اس جاہل قوم نے چیخ چیخ کر پوری دنیا
میں ڈھنڈورا پیٹا کے ہم بی کسی سے کم نہیں ہم بھی سب ملکوں کی فہرست میں
شامل ہو گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سب ممالک نے پاکستان کی فضائی
پروازوں پر پابندی عائد کر دی۔معشیت جو بحال ہونے کو تھی اس کا پہیہ جام ہو
گیا۔خیر لوگوں کو احتیاط کرنے کا کہا جا رہا تھا اور لوگ جہالت کا مظاہرہ
کرتے ہوئے اس وائرس کو پورے ملک میں پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے
تھے۔ اور یوں اس کرونا وائرس نے پاکستان کو پاکستان کی جاہل عوام کے ساتھ
مل کر تباہی کے دہانے پہ لے آیا اور حکومت کو لاک ڈاؤن لگا کر سارے ملک کو
بند کرنا پڑا۔ نفسا نفسی کا عالم، خوف و ہراس نے لوگوں کو بتایا کہ یہ وباء
واقعی مہلک ثابت ہوتی جا رہی۔پاکستان میں آئے روز بڑھتے کیسس اور اموات
پاکستانیوں کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہاں لوگوں کو جس چیز سے روکا
جائے ہماری عوام وہی کرتی۔ جب وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن جو غریب طبقے کے
لیے ایک اور عذاب تھا۔دہاڑی دار مزدور جو روز کماتے اور اپنے بچوں کو
کھلاتے تھے ان کو بیماری سے زیادہ بھوک سے مرنے کا ڈر تھا۔اس قوم نے اپنی
جہالت کا ایسا ثبوت دیا جس پر انسانیت بھی بین کرتی ہو گی۔ذخیرہ اندوزوں نے
آٹے کا بحران پیدا کر دیا۔آٹے کو ذخیرہ کرکے آٹھ سو روپے آٹے کو دو ہزار
میں بیچ کا منافع خوروں نے مسلمان ہونے کا اچھا ثبوت دیا۔ حکومت نے بہر حال
عوام کے لیے سوچا اور احساس پروجیکٹ کے تحت عوام کی امداد کی۔غریب طبقے کو
ماہوار بارہ ہزار دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ حکومت اور افواج کے باہمی اشتراک
سے لوگوں کو احتیاط کرنے اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچانے کا ہر حربہ
استعمال کرتے رہے پر لوگ کہا سنتے تھے۔یوں یہ بیماری ہر گزرتے دن کے ساتھ
پھیلتی چلی گئی۔سو سے ہزار کی تعداد ہوئی اور پھر لاکھوں۔پوری دنیا میں
لاکھوں افراد اس مہلک وائرس سے لقمہ اجل بن گئے۔ہر ملک میں ایمرجنسی نافذ
کر دی گئی امریکہ اور اٹلی جیسے ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہلاک
ہونے لگے ترقی یافتہ ممالک میں وائرس اس تیزی سے پھیلا تھا کے وہاں لوگوں
کو دفنانے کی جگہ کم پڑ گئی تھی۔تمام ملکی اور غیر ملکی پروازوں پر پابندی
عائد کر دی گئی تعلیمی ادارے کاروبار ہر چیز بند ہو گئی۔یہ کہنا غلط نہیں
ہوگا کے ملک کے ملک بند کر دیے گئے۔یہ محض ایک بیماری نہیں میرے مطابق یہ
عذاب ہے اس رب کا۔بحثیت مسلمان قوموں پر عذاب تب ہی آتیں ہیں جب قومیں
سرکشی کریں۔نا فرمانیاں ہی قوموں کو بربادی کی طرف لے کر جاتی ہیں۔اور کیا
کچھ نہیں ہو رہا ہمارے ملک میں جس کی بنیاد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام
پر رکھی گئی تھی۔یہاں روز زینب جیسی کلیاں مسلی جاتی ہیں۔یہاں کا مرد بظاہر
انسان ہونے کا لبادہ اوڑھے درندوں کی طرح معصوم پھولوں کو پامال کرتا
ہے۔عورتیں فیشن کے نام پر تن سے لباس اترنے میں لگی ہوئی ہیں۔پہلے سر سے
دوپٹہ اترا پر وہ گلے کی زینت بنا اور آہستہ آہستہ دوپٹہ ہی نا پید ہو
گیا۔قمیصں گھٹنوں تک آئی اور اوپر پہنچتے پہنچتے وہ بھی برائے نام رہ
گئی۔ہم اس معاشرے کی نافرسودہ قوم ہیں جہاں پر تن سے لباس اتارنے والے امیر
اور مکمل لباس والے غریب کہلائے جاتے ہیں۔شراب نوشی، جوا، رشوت،سود چوری
قتل ہر حرام چیز پر عمل درآمد ہو رہا تو اس حال میں یہ بیماری عذاب کی صورت
میں ہی ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنی جہالت کو پس
پشت ڈال کر اپنے کرداروں پر غور کرنا چاہیے۔ہر چیز کا ملبا عوام نا حکومت
پہ ڈالے اور نہ حکومت عوام پہ۔مجھے ایوب خان کی وہ بات یاد آگئی جو جاتے
جاتے ہمارے منہ پہ جوتا مار کر گئے تھے کہ یہ قوم نہیں ہجوم ہے۔ہر انسان
اپنے کردار پر توجہ دے تو ہی شاید ہم ہر آنے والے عذاب سے محفوظ رہ سکتے
ہیں۔ اللّٰہ پاک ہمارے ملک سے اس وبائی بیماری کا جلد خاتمہ کر دے۔آمین
|