جڑوں سے جو اکھڑے․․․․․․

مرزاصفیرالدین ہجرت درہجرت کے کرب کوجھیلتے ہوئے ،اب سے دس سال قبل جب وہ یہاں آئے تھے ،تو انہیں ایسالگاتھا ’جیسے کڑی دھوپ کی تیز نو کیلی تمازت اورلوکے تھپیڑوں میں مسلسل چلتے ہوئے اچانک ایک ہرے بھرے باغ کی پر بہار فضا میں آگئے ۔ جہاں ہرطرف پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں ،طرح طرح کے رنگ برنگے خوشنما پھول اور ان پھولوں کی خوشبو سے معطر، پورا باغ۔ ان کے جسم کے رگ وپئے میں اترتی ہوئی سرد ہوائیں تھیں ۔وہ بہت دنوں تک اس گھنیری ٹھندی چھاؤں میں کھڑے ہوکر سردہوا ؤں کواپنے جسم کے پورپورمیں اتارتے رہے ۔مسلسل خاردار اوراندھے راستوں پر چلتے چلتے ان کاجسم لہولہان ہو چکا تھا اورپاؤں میں چھالے پڑگئے تھے۔ لیکن چنددنوں میں ہی بیٹا،بہو اوران کے دونوں بچوں کی بے پناہ محبت اورپیارنے ان کی ساری تکان اور پریشانیوں کودور کردیاتھا۔ دھیرے دھیرے زخم مندمل ہونے لگے تھے۔
مرزاصفیرالدین کوامریکہ میں ہرطرح کی آسائش اورآرام میسرتھا ۔ بیٹا ،بہواور دونوں بچے ہروقت ان کی دلجوئی کرتے رہتے ۔ گرچہ صبح سویرے ہی بیٹا،بہواپنے اپنے جاب پرنکل جاتے اوربچے اسکول کے لئے روانہ ہوجاتے ۔اس کے بعداچھا خاصہ وسیع و عریض سجا سجایا گھر ،فریز میں طرح طرح کے کھانے پینے کی چیزیں ،جوچاہوکھاؤ پیو،ٹی ۔وی دیکھو ، نِٹ پردوستوں ،عزیزوں سے باتیں کرو ،فیس بک پر سینکڑوں دوستوں کی بھیڑ تھی ،لیکن تنہائی کاعفریت پورے گھرپرقبضہ جمائے رہتا ۔ شروع کے دنوں میں مرزا صاحب نے ا س تنہائی کے عفریت سے بھی دوستی کرلی تھی اوروقت گذاری کے لئے ٹیلی ویژن پرخبریں، سیرئیل ،انٹرنِٹ پراپنی دلچسپی کے ویب سائٹس ،فون پر دوستوں اورعزیزوں سے گھنٹوں گفتگو۔ لیکن دھیرے دھیرے ان سب سے بھی دل اچاٹ ہوگیا اور تنہائی کاعفریت انہیں کاٹ کھانے کو دوڑنے لگا۔ اس سے بچنے کے لئے وہ مختلف کتابوں اور رسالوں میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ،لیکن انھیں یہاں بھی پناہ نہیں ملتی ۔ تھک ہار کروہ نیند کی پناہ میں جاناچاہتے ،لیکن نیندبھی کوسوں دورکھڑی ان کے حال پر مسکراتی رہتی ۔ کبھی ہلکی سی نیندآتی بھی تو بچپن کی یادیں ،جوانی کی پریشانیاں بند آنکھوں میں سپنا بن کر اترنے لگتیں اور کبھی انہیں ایسا محسوس ہوتا کہ ان کے سرہانے کبھی ان کے ابّا ،اماں ،بھائی جان ،باجی سب کے سب کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں ،اٹھو جاگو صفیر …………کتنا سووگے ․․․․․اور وہ ہڑبڑاکراٹھ کربیٹھ جاتے ،چاروں جانب بے چینی کے عالم میں نظریں دوڑاتے ․․․․․لیکن یہاں توکوئی نہیں ․․․․․․․ وہ ہیں اورتنہائی ہے۔ ہاں ان لوگوں کی یادیں ضرور ان کے دل ودماغ کوتڑپانے اورآنکھوں کوسمندر بنانے لگتیں ․․․․․․․․․
اب یہ زندگی انہیں بے کیف لگنے لگی تھی اوریہ محسوس کررہے تھے کہ وہ اب زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہیں گے ․․․․․کوئی انہیں بلارہاہے ، آجاؤ ،صفیر․․․․․․․زندگی میں تم نے بہت دکھ جھیلاہے ،لمحوں کی خطا نے کئی دہائیوں کی سزا دی ہے تمہیں ․․․․․ہمیں․․․․ہم سب کو․․․․․․آؤ ․․․․․․․․ اب تم بھی آرام کرو! زمانے کی گردشوں کی دھول میں بہت چل چکے ․․․․․․․اب آرام کرو․․․․․․․
ایک ویک اینڈ میں،جب سبھی ساتھ مل کر کھاناکھاکر بیٹھے ،خوش گپیوں میں مشغول تھے ،اس دوران ان کا بیٹامرزااسلم نے محسوس کیاکہ، بات کرتے کرتے ابّاکہیں گم ہوجارہے تھے ، اداس ،اداس سی ان کی آنکھیں خلاء میں کچھ ڈھونڈ ہ رہی ہیں ۔ مرزااسلم نے فکر مند ہوتے ہوئے پوچھا ․․․․․
’’کیابات ہے ابّا، آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں ؟‘‘
مرزاصفیر الدین ،بیٹے کے اچانک اس سوال پرچونک پڑے اورکہا․․․․․․․
’’پریشان ․․․․․․ہاں، ہاں․․․․بیٹا ،میں پریشان توہوں ۔ دراصل ان دنوں مجھے اپناملک بہت یادآرہاہے اورمیری دلی خواہش ہورہی ہے کہ کچھ دنوں کے لئے میں اپنے ملک جاؤں اور…………‘‘
مرزاصفیرالدین کی بات ابھی مکمل بھی نہیں ہوپائی تھی کہ بیٹامرزااسلم نے چونکتے اورپھرمسکراتے ہوئے پوچھا ․․․․․․․․
’’کون ساملک ابّا․․․․․ ‘‘؟
اس سوال پر مرزاصفیرالدین بھی چونک پڑے اورخودہی بڑبڑانے لگے ․․․․․․
’’ملک کون ساملک ․․․؟میراکون ساملک․․․؟ ، جسے میں اپناکہوں ․․․․․․وہ ،یہ یاوہ ․․․․․․․‘‘
اورپھراپنے بیٹے سے مخاطب ہوئے ۔
’’ہاں ،بیٹا ،میں تمہاری بات سمجھ رہاہوں․․․․․․․میں اس ملک کی بات کررہاہوں ،جہاں ہم اپنی جڑوں کوچھوڑ آئے ، شاندار مستقبل سجانے کے لئے ، لیکن شاندار مستقبل تو چھوڑو ، وہاں پناہ تک دینے کو کوئی تیار نہیں ہوا کہ ہم لوگوں کی وہاں آمد سے ،ان لوگوں کا روشن مستقبل ، اندھیرے میں ڈوب جانے کا خدشہ تھا اور ایک بارہم اپنی جڑوں سے جو اکھڑے ،تو پھر ہمیں کہیں پناہ نہیں ملی ․․․․․․․دراصل ادھر کئی دنوں سے مسلسل ا بّامیرے خوابوں میں آرہے ہیں،ان کا ہنستامسکراتا چہرہ ․․․․․․․․․مجھے ماضی کے دھندلکے میں لے جاتا ہے ․․․․․․․․․․میں ان کی گود میں طرح طرح کی شرارتیں کرتا․․․․․․․․کبھی وہ میرے گالوں کوچومتے ،توجواب میں،میں بھی ان کے گالوں اورپیشانی کوچومتا ․․․․․․․امّاں کی بھی بہت یاد آ رہی ہے ۔میں اپنے ابّا کی قبرپرجاکر فاتحہ پڑھنا چاہتاہوں اورقبر کے قریب بیٹھ کر ان سے بہت سی باتیں کرنا چاہتا ہوں ․․․․․․ میرے اباتو مجھے دس سال کی عمر میں ہی روتا بلکتا چھوڑ کرسفرآخرت پرروانہ ہوگئے تھے اوران کے گذرجانے کے دوسال بعدہی اماں اورماموں وغیرہ نے آخری باران کی قبرپر جاکر فاتحہ پڑھنے کی تاکید کی تھی ۔ اس وقت، ان کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی ․․․․․․․․اورمیں جس دن فاتحہ پڑھ کر گھرآیاتھا،اس کے دوسرے ہی دن تووہاں سے ہم لوگ ایک نئے اوراندھے سفرپر اپناسب کچھ چھوڑ کرنئی اورشاندار دنیابسانے کے لئے اس ٹرین سے روانہ ہوئے تھے،جس ٹرین میں لوگ بھیڑبکریوں کی طرح سوار تھے ۔ ہرکے چہرے سے پریشانیاں جھلک رہی تھیں ،لیکن آنکھوں میں سنہری خواب بسے تھے ․․․․․․․لگاتارکئی دنوں تک رُک رُک کر مسافت طئے کرنے کے بعد جب ہم بظاہر منزل پرپہنچے ․․․․․․․․تومنزل کاکہیں پتہ نہیں تھا ․․․․․․․․․آس پاس ہر چہار جانب اداسیاں اور ما یوسیاں چھائی ہوئی تھیں۔ سارے سنہری خواب کوبے دردوقت اورحالات اور ایک غلط فیصلے نے چکناچور کر دئے تھے ۔بے پناہی جیسے ہمارامقدر بن گیاتھا ․․․․․․برسہابرس تک ہم منزل کے متلاشی رہے ․․․․․میں نے بچپن سے جوانی کی دہلیز پرقدم رکھ دیاتھا ، اور اس وقت تک ہماری اپنی کوئی پہچان نہیں تھی ․․․․․․․اجنبیوں کی طرح ادھر سے ادھر بھٹکتے رہے ،منزل کی تلاش میں ․․․․․․․․بالکل بنجارہ بن گئے تھے ہم لوگ ، کبھی یہاں خیمہ ،کبھی وہاں خیمہ ․․․․․․․جسم زخموں سے چور اورروح لہولہان ․․․․․․․ایسے میں اپنی جڑیں بہت یادآتی تھیں ․․․․․․․․وہ کشادہ ساگھر ․․․․․․گھرکے اند بڑا سا آنگن ․․․․․․گھرکے باہر وسیع و عریض دالان ․․․․․․اوراس دالان کے آگے دانہ چگتی ہوئی مرغیاں ،چنَ چنَ ،چنَ چنَ کرتی ہوئی چینامرغیاں ․․․․․․․گھرکے سامنے کاتالاب ،تالاب میں طرح طرح کی اچھلتی تیرتی مچھلیاں، اٹھکھیلیاں کرتے ہنس بطخ اورچھوٹی بطخیں․․․․․․مچھلی کے شکار کے لئے تالاب کے کنارے اترتے ہوئے بگلوں کے غول ،تالاب کے اردگرد جھومتے گاتے طرح طرح کے پرندے ․․․․․․․․اورتالاب کے ارد گرد لہلہاتے کھیت ․․․․․․کھیتوں سے باسمتی چاول کی پھوٹتی بالیوں سے معطر کرنے والی خوشبو․․․․․․․اورپھرچند قدم کے فاصلے پر میرامکتب ․․․․․․․جہاں مولوی خیرالدین صاحب کے ہاتھ سے کھجورکی چھڑی شائد ہی الگ ہوتی اورہرایک غلطی پرایک چھڑی ،سڑاپ سے پیٹھ پر لگتی۔ اس وقت کی ،اس چھڑی کی وہ مار اوربعدمیں ماسٹر بدری نرائن جی کے خلوص ومحبت کے ساتھ دی گئی تعلیم نے زندگی کے بوجھ کوڈھونے میں بہت مدد کی ․․․․ان دونوں کی بھی بہت یادآتی ہے ․․․․․․․ماسٹر بدری نرائن جی کا بیٹا کشور میرابہت اچھا دوست تھا․․․․․․․․جب کبھی میں اس کے گھرجاتاتو اس کی ماں بڑے پیارسے مجھے کبھی ٹھیکوا ، کبھی بتاشہ اورکبھی اصل گھی کامیتھی کالڈوکھانے کودیتی تھیں ۔دیوالی کے روزان کے گھرپرجس طرح روایتی انداز میں چراغاں کیاجاتا تھا، اس سے نہ صرف ان کا گھر بلکہ آس پاس کے گھر بھی روشن ہوجاتے ،جس کی خوبصورتی دیکھنے لائق ہوتی اورہم سبھی مل کر پھُل جھڑیاں ،گھر نی ،اناروغیرہ کی روشنی سے لطف اٹھاتے ۔کھانے کو دیوالی کی مٹھائیاں بھی ملتیں،خاص طورپر جھرواکالڈو اور لکھ ٹھو کی لذت کومیں آج بھی نہیں بھولاہوں …………، عید بقر عید ، شب برات جیسے تہوار پر کشور ، اس کی سب بہنیں صبح سویر سے ہی میرے گھر آ جاتیں اور پورا گھر اس دن ایک الگ نظارہ پیش کرتا ، وہ سب جب گھر جانے لگتے تو انھیں پربیاں بھی اماں دیتیں ، اور وہ سب خوش خوش سبھوں کو سلام کرتے، ان کے پاؤں چھوتے واپس جاتے ․․․․․․․لیکن سب کچھ ختم ہوگیا ، سب بچھڑ گئے ،سب کچھ اجڑگیا․․․․․ایک بارجوہم اپنی جڑوں سے اکھڑے توکہیں امان نصیب نہیں ہوئی مسلسل سفر ․․․․․․․لمبا سفر ․․․․ہجرت ․․․․․․درہجرت․․․․․․ اباکی قبرہندوستان میں تواماں بنگلہ دیش میں آرام فرماہیں ،باجی، پاکستان میں اور بھائی جان جرمنی میں………… اور………… اور …………‘‘
یہ کہتے کہتے مرزاصفیر الدین سسکنے لگے ،ان کی آنکھوں سے یادیں آنسوبن کر نکلنے لگے ․․․․․․․․
اس طرح انھیں روتے ہوئے دیکھ کر ان کے بیٹا ،بہواور دونوں بچے سب حیران وپریشان ہوگئے تھے ․․․․․ان کی رقت آمیز باتیں سنتے ہوئے، ان کے بیٹا اوربہوکی آنکھوں میں بھی آنسوتیرنے لگے تھے۔ان کابڑا پوتا امجد بھی بہت تعجب سے اپنے داداکو روتے ہوئے دیکھ رہاتھا اورسوچ رہاتھا کہ آج ددّو اس طرح بچوں کی طرح روکیوں رہے ہیں ؟ وہ صوفہ سے اٹھا اوراپنے ددّوکے قریب آکر اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے ان کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو خاموشی سے پوچھنے لگااورفرط جذبات سے مغلوب ہوتے ہوئے ددّونے اپنے پوتا کواپنے سینے سے لگالیا اورسسکیاں بھرتے ہوئے بولے ․․․․․․․․
’’بیٹا تم اپنی جڑوں کوکبھی مت چھوڑنا ،خواہ کیساہی طوفان آئے ،آندھی آئے ،اپنی جڑوں پر ہمیشہ قائم رہنا ۔


٭٭٭٭٭
7 New karimganj, Gaya - 823001 (Biahar)

 

Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 106991 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More