وہ واقعی بہت پریشان تھی - قاری صاحب کو اس پر بڑا ترس
آیا تھا مگر وہ اس کے مسئلے کا مستقل حل چاہتے تھے -اسے سوچوں میں غرق
دیکھا تو وہ مایوس ہونے لگی - جان گئی تھی کہ یہاں اس کی دال گلنے والی نہ
تھی -
اٹھ کر جانے لگی تو قاری صاحب نے روک لیا - کہا اس کا ایک ہی حل ہے میرے
پاس مگر اس کے لیے ضروری ہے شیر کی گدی کے چند بال مجھے لا دو - پھر دیکھو
تمھارا مسئلہ کیسے نہیں ہوتا -
وہ وعدہ کر کے اٹھی اور سیدھی چڑیا گھر پہنچی وہاں شیر کے پنجرے تک پہنچنے
میں اسے کچھ زیادہ مشکل پیش نہ آئی - شیر کے پاس جا کر اس نے گوشت کا بڑا
ٹکڑا نکال کر اس کے پنجرے میں ڈال دیا - شیر جلدی سے اسے چٹ کر گیا -
چند ہی دن میں وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی -
خوشی خوشی وہ بال لیے قاری صاحب کے پاس لائی -
" بڑا افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ شیر کو تم نے چند دن میں رام کر لیا اور
شوہر کے لیے تعویز لیتی پھرتی ہو -
جاؤ اور جو وہ چاہتا ہے کر ڈالو -
اس کے لیے ہر حال میں قابل حصول بن جاؤ ' اس کے آگے جھک جاؤ ' گھڑے کی
مچھلی بن جاؤ پھر دیکھنا کیسے تیرے آگے جھکتا ہے -
محبت کیسے اسے سحر زدہ کرتی ہے اور پھر چند دن بعد جب وہ اس کے پاس آئی تو
مٹھائی کا ڈبہ اس کے ہمراہ تھا اور چہرہ حقیقی روحانی خوشی سے عکس ریز تھا
۔۔۔۔۔
|