بیرونی ممالک میں عقائد یا مذہبی آزادی کی آزادی کے
تعین کے لئے امریکی کمیشن کی تشکیل کردہUSCIRFنے امریکی صدر، وزیر داخلہ
اور کانگریس کو سالانہ رپورٹ 2020میں سفارشات پیش کیں کہ حکومت پاکستان کے
ساتھ ایک واحب التعمیل معاہدہ کیا جائے ، جس کے مطابق مذہب یا عقیدے کی وجہ
سے جیل میں ڈالے گئے توہین رسالت (ﷺ) کے قیدیوں اور دیگر افراد کو رہا کیا
جائے اورجب تک ان کی تنسیخ کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا، توہین رسالت(ﷺ) کو
قابل ضمانت جرم بنانے کے، توہین رسالت(ﷺ) اور احمدی (قادیانی) مخالف قوانین
کو منسوخ کرکے اصلاحات کا قانون بنایا جائے او رشناختی دستاویزات سے مذہب
سے متعلق شخصی شناخت کو نکال دیا جائے۔
اسی چند واقعات کو بنیاد بنا ناپاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے سوا کچھ
نہیں کہا جاسکتا۔واضح رہے کہ اقلیت کی اصطلاح پاکستان میں عمومی طور پر غیر
مسلم کیمونٹی کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس پر غیر مسلم کمیونٹی،اقلیت کے
بجائے منارٹی کہلائے جانا زیادہ بہتر محسوس کرتی ہیں۔دراصل 17ویں اور 18ویں
صدی میں یورپی سیاسی نشیب و فراز کی پیدا کردہ ہے اس زمانے میں طاقتور جب
بھی کمزور پر فاتح ہوجاتا تو اپنی قوت کے سہارے محکوم قوم کو اقلیت شمار
کرتا۔عموماََ اقلیت کی اصطلاح ایسے نسلی، قومی، مذہبی، لسانی یا ثقافتی
گروپوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو تعداد میں باقی آبادی کے مقابلے میں
کم ہوں اور جو اپنی شناخت کو قائم رکھنا اور فروغ دینا چاہتے ہوں۔
1931ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران اقلیتوں کے مسئلے کا حل تلاش
کرنے کے لیے سکھوں کے علاوہ ہندوستان کی تمام اقلیتوں نے سر آغا خان کی
قیادت میں ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ پاک و ہند میں ’’اقلیتوں کا معاہدہ‘‘
کہلاتا ہے۔اس معاہدے میں مسلم لیگ کی طرف سے سر آغا خان، شیڈول کاسٹ کی
جانب سے ڈاکٹر بھیم راؤ میڈکر، ہندوستانی اینگلو کی طرف سے راؤ بہادر پاتیر
سلوان اور یورپین مسیحیوں کی طرف سے سر ہنری گڈنی اور سر ہربرٹ کار نے
دستخط کیے تھے۔اس معاہدے کو تحریک آزادی کے دوران اقلیتوں کی مشترکہ عملی
جدوجہد بھی قرار دیا جاتا ہے۔22دسمبر1939 میں جب اونچی ذات کے ہندو پالیسوں
کے احتجاج میں قائداعظم کی کال پر کانگریسی وزارتوں میں مسلمان نمایندوں کے
مستعفی ہونے پر ’’یوم نجات‘‘ منایا گیا تو کانگریس یہ دیکھ کر حیران ہوگئی
کہ ’’یوم نجات‘‘ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پارسی، مسیحیوں اور لاکھوں کی
تعداد میں شیڈول کاسٹ بھی شریک ہوئے۔ 23مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے مسلم لیگ
سالانہ اجلاس لاہور میں تاریخ ساز قرارداد پاکستان پیش کی تو اس اجلاس میں
ستیا پرکاش سنگھا، سی ای گبن، ایم ایل رلیا رام، جوشو افصل الدین، الفریڈ
پرشاد، ایف ای چوہدری، بہادر ایس پی سنگھا، آر اے گومز، ایس ایس البرٹ،
راجکماری امرت کور بھی شامل تھے۔ان کے علاوہ دیگر کئی شیڈول کاسٹ اور مسیحی
رہنما بطور مبصر مدعو تھے۔
مسیحی کیمونٹی اور ہندوشیڈول کاسٹ نے ہر قدم پر قائد اعظم کا ساتھ اس لیے
دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں ہی ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے
گا۔اسی وجہ سے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کی صدارت شیڈول کاسٹ راہنما
جوگندر ناتھ منڈل نے کی جو کہ پاکستان کے پہلے وزیر قانون بھی تھے۔ان کے
علاوہ کرن شنکر رائے، دھیریندر ناتھ دتہ، پریم ہری ورما، راج کمار چکرورتی،
سرس چٹو پادھینا، بھویندرکمار دتہ،چندر موجدار، بیروت چندرمنڈل، سری ڈی
رائے، نارائن سانیال، پریندر کار،گنگا سرن، لال اوتار، نارائن گجرال، بھیم
سین، سی این گبن، بی ایل رلیا رام جیسے شیڈول کاسٹ رہنما بھی شامل تھے۔جب
کہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر دیوان بہادر ایس پی سنگھا کا تعلق مسیحی برادری
سے تھا جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں پاکستان کی قرارداد کے حق میں اپنا اضافی
ووٹ ڈال کر قیام پاکستان کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اس کے علاوہ
تقسیم کے وقت مسیحی قیادت نے باؤنڈری کمیشن سے مطالبہ کیا تھا کہ مسیحیوں
کو مسلمانوں کے ساتھ شمار کیا جائے۔یہ کوئی اچانک پیدا شدہ رویہ نہیں تھا
بلکہ قیام پاکستان سے پہلے 1935میں جیسویٹ مبلغین مشرقی شہر لاہور کے
لاویلا ہال کو بین العقائد مکالمے کے مرکز کے طور پر استعمال کرتے تھے اسی
طرح کا ایک اہم ادارہ کرسچین اسٹڈی سینٹر 1968 مں راولپنڈی میں قائم کیا
گیا تھا۔جس کا مقصد مسیحی اور مسلم علما کو مذہب اور الوہی موضوعات پر بحث
اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو ایک دوسرے سے بات چیت اور باہمی دوستی،
تفہیم اور تعاون کی بنیاد پر پرامن طریقے سے مل جل کر رہنے کا پلیٹ فارم
فراہم کرتا تھا۔
پاکستان میں جتنے بھی مذہبی نوعیت کے واقعات ہوئے تو اس میں عوام سے زیادہ
قصور ان لوگوں کا تھا جو مذہبی جذبات کو مشتعل کرکے اپنے مقاصد کا حصول
چاہتے ہیں، پاکستان میں رہنے والی تمام مذہبی کمیونٹیز سے زیادہ مسلمانوں
کو سب سے زیادہ دہشت گردی کا نشانہ بنے، منارٹیز کی عبادت گاہوں سے زیادہ
مسلمانوں کے مقدس مقامات، مساجد، مزارعات، قبرستان، یہاں تک کہ جنازوں تک
کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنائے گئے۔
پاکستان میں صرف مسلمان ہی نہیں بستے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں غیر مسلم
بھی ہیں جن کی حفاظت کے لیے ہزاروں مسلمان پاکستانی فوجیوں نے جام شہادت
نوش کیا۔لغیر مسلموں نے بھی ملک کی حفاظت و سلامتی میں بڑھ چڑھ کر حصہ
لیا،لہذا اس ضمن میں پروپیگنڈہ کاروں کو خیال رکھنا ہوگا کہ اپنے چند مخصوص
فائدے کے لیے کسی بھی مذہبی کمیونٹی کے جذبات کا خیال رکھے۔اس بات سے انکار
نہیں کیا جاسکتا کہ یکطرفہ پروپیگنڈے کا نقصان ہمیشہ ان اکائیوں کو ہوتا ہے
جن کے مخلص نمایندے ان کے حقوق کے لیے بنیادی کردار ادا نہ کریں۔
پاکستان کا قیام دو قومی نظریے کے تحت تھا جس میں غیر مسلموں کے حقوق کا
تحفظ اسلام کا اہم نقطہ رہا ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اسلام،
جبر کے بجائے امن کی تلقین کرتا ہے اور اسلام کا مطلب ہی سلامتی امن ہے،
اگر کسی فرد واحد کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقع پیش آتا ہے تو اسے معاشرے
کی انحطاط پذیری قرار نہیں دیا جا سکتا ہے بلکہ اسے کسی فرد کا عدم برداشت
کا رویہ کہا جائیگا مگر اسے اسلام کا پیغام یا منشور ہرگز نہیں ٹھہرایاجا
سکتا،اس سلسلے میں پاکستان کے قیام سے اول اور بعد میں قائداعظم کے افکار
اور سیکڑوں تقاریر اس بات کی گواہ ہیں کہ دو قومی نظریہ میں غیر مسلم اقلیت
کے تحفظ کو ہمیشہ دہرایا گیا ۔امریکی کمیشن رپورٹ میں بیشتر حقائق کو مسخ
کرکے پیشکرنا جانب داری کے تاثر کو ابھارتاہے۔ بالخصوص قادیانیوں کے لئے
امریکی رپورٹ میں پاکستان پر دباؤ ڈالنا ، مسلم امہ کے جذبات کو مشتعل کرنے
والی حرکات کو نظر انداز کرنا ، ثابت کرتا ہے کہ رپورٹ میں اُن حقائق کا
ذکر نہیں کیا گیا جو مسلم امہ کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتے ہیں، غیر مسلم
اکائیوں کا تشکیل پاکستان میں اہم کردار رہا ہے ، جس کا آج بھی احترام کیا
جاتا ہے۔
|