میں گھر سے کچھ سامان خریدنے نکلا توایک بجلی کے
کھمبے پر ایک کاغذ چپکا دیکھ کر میں قریب چلا گیا اور اِس پر لکھی تحریر
پڑھنے لگا، لکھا تھا برائے کرم ضرور پڑھیں۔ اس راستے پر کل میرا 50 روپے کا
نوٹ کھو گیا ہے، مجھے ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا جسے بھی ملے برائے کرم
پہنچا دے نوازش ہوگی آخر میں ایڈریس بھی لکھاہوا تھایہ پڑھنے کے بعد مجھے
بہت حیرت ہوئی کہ پچاس کا نوٹ کسی کے لیے اتنا ضروری بھی ہوسکتاہے میں نے
اس پتہ پر جانے کا ارادہ کیا اور اس گلی میں پہنچ کر اس مکان کے دروازے پر
آواز لگائی، تھوڑی دیر بعد ایک ضعیف عورت لاٹھی ٹیکتی ہوئی باہر آئی پوچھنے
پر معلوم ہوا، بڑی بی اکیلی رہتی ہیں- اور کم دکھائی دیتا ہے- میں نے کہا
ماں جی آپ کا پچاس کا نوٹ مجھے ملا ہے، اسے دینے آیا ہوں یہ سن کر بڑھیا
رونے لگی
میری گھبراکر رونے کا سبب پوچھا تو اس نے عجیب سے لہجے میں بتایا کہ ۔ ابھی
تک قریب قریب 50 لوگ مجھے پچاس کا نوٹ دے گئے ہیں؛ میں ان پڑھ ضرور ہوں
ٹھیک سے دکھائی بھی نہیں دیتا میرا کمانے والا بھی کوئی نہیں پتہ نہیں کون
میری اِس حالت کو دیکھ کر میری مدد کرنے کے لئے لکھ کر چلا گیا ہے- بہت
اصرار کرنے پر مائی نے پیسے تو رکھ لئے لیکن ایک درخواست کی کہ بیٹا وہ میں
نے وہ کاغذنہیں لکھا کسی نے میری مدد کی خاطر لکھ دیا ہے- جاتے ہوئے اْسے
پھاڑ کر پھینک دینا بیٹا……..! میں نے ہاں کہہ کر ٹال تو دیا؛ لیکن میرے
ضمیر نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ان سبھی لوگوں سے بڑھیا نے وہ کاغذ
پھاڑنے کے لئے کہا ہوگا مگر کسی نے نہیں پھاڑا زندگی میں ہم کتنے سچے ہیں-
کتنے غلط یہ صرف اﷲ پاک ہی جانتا ہے؟ میرا دل اِس شخص کے بارے میں سوچنے پر
مجبور ہوگیا کہ وہ شخص کتنا مخلص ہوگا۔ جس نے بڑھیا کی مدد کا یہ طریقہ
تلاش کیا ضرورت مندوں کی امداد کے کئی طریقے ہیں- میں نے اِس شخص کو دل سے
دعائیں دیں، کہ کسی کی مدد کرنے کے کتنے طریقے ہیں- صرف مدد کرنے کی نیت
ہونی چاہیے راستہ اور رہنمائی اﷲ کی طرف سے خوبخود ہو جاتی ہے - شعور اور
احساس بیدار کرنے کے لئے جو طریقہ بھی اپنایا جائے بہتر ہوتاہے نہ جانے یہ
کہانی کس کی ہے لیکن اس میں ایک سبق پوشیدہ ہے کہ کوئی کسی مستحق کی مدد
کرنے چاہے تو اس کے سو طریقے ہیں جزاک اﷲ۔
|