تحریر: رمشا یاسین (کراچی)
الف! الف سے اﷲ، الف سے انسان۔ اﷲ اور انسان کے درمیان ایک ایسا رشتہ ہے
جسے سمجھنے کے لیٔے شاید ساری زندگی بھی کافی نہیں۔ یا یوں کہ لیجیٔیے کہ
انسان کی ساری زندگی کا مقصد ہی الف اور اﷲ کے دایٔرے میں گھومناہے۔ الف کا
رستہ ہمیں صراطِ مستقیم کی راہ دکھاتا ہے۔ الف ایک سیدھی لکیر ہے اور صراطِ
مستقیم ایک سیدھا رستہ۔ اگر آپ کا الف سیدھا نہیں تو آپ کی زندگی میں توازن
نہیں ہوسکتا۔ جب جب آپ کا الف ٹیڑھا ہوگا، آپ ایک سرے پر ہوں گے یا دوسرے
سرے پر، یعنی آپ پھسلتے رہیں گے ایک انتہا سے دوسری انتہا پر۔ کیا کبھی آپ
نے ہنڈولاکھیلا ہے، جس کے ایک سرے پر پتھر ڈالنے سے دوسرا سرا بے قابو
ہوجاتا ہے اور دوسرے سرے پر ڈالنے سے پہلا؟ اور جب آپ پتھر بیچ میں رکھتے
ہیں تو توازن قایٔم ہو جاتا ہے! یہ کھیل بھی بلکل الف کی طرح ہے۔ جس میں
توازن قایٔم کرنے کے لیٔے درمیان میں ہونا بہت ضروری ہے۔ تب جا کر آپ کا
الف سیدھا ہوگا۔ اور تب ہی آپ صراطِ مستقیم کی راہ پر ہوں گے۔ اور یہ صراطِ
مستقیم کی راہ ہی اﷲ اور انسان کا ایک ایسا رشتہ ہے، کہ اگر یہ نہ ہو تو
انسان کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ اور پھر وہ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم یا خود
پر آنے والی مصیبتوں کی بدولت اپنی پریشانی اور غم کو نام دیتا ہے ڈیپریشن
کا۔ اور یہ ڈیپریشن اسے جینے نہیں دیتا۔ اسے سکون آنے نہیں دیتا۔ اسے بے
چین کرکے رکھتا ہے۔
تو کیا ہے یہ صراطِ مستقیم؟ اِس کی سب سے بڑی جڑ ہے توحید۔ توحید کے بغیر
صراطِ مستقیم عطا نہیں ہوسکتا۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ اﷲ نے جتنے بھی نبی
بھیجے، ان سب نے توحید ہی کی تعلیم دی اور سارا قرآن بھی صرف توحید ہی کی
بات کرتا ہے اور ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کا ایک مکمل نمونہ پیش کرتا ہے۔
اگر توحید آپ پاس نہیں، تمام عبادات کا اور اعمال کا کویٔ فایٔیدہ نہیں۔ آپ
کو کیا لگتا ہے کہ توحید صرف یہی ہے کہ آپ اﷲ کو مان لیں؟ نہیں! تو حید تو
یہ ہے کہ آپ صرف اورصرف اﷲ کو مانیں اور اس کی مانیں، آپ اﷲ سے ہی مانگیں،
اسی کے سامنے رویٔیں، اسی کے سامنے جھکیں، اسی کی تعریف و تنظیم بجا لایٔیں،
اسی سے اپنا حال بیان کریں، اسی کا شکر کریں، اسی کی ذ ات پر مکمل اور پختہ
یقین رکھیں۔ تب جاکر آپ کو توحید عطا ہوگی ۔اب ذرا نظر دوڑایٔیں، کہ آپ ان
تمام صفات پر کتنا پورا اترتے ہیں۔ آپ روتے ہیں تو دنیا کے آگے، آپ امید
لگاتے ہیں تو دنیاسے، آپ مدد مانگتے ہیں تو دنیا سے ،آپ جھکتے ہیں تو دنیا
کے آگے، آپ تعریفیں کرتے ہیں تو دنیا کی ، اور تو اور آپ دنیا والوں کی ہی
خوش آمدیں کرتے پھرتے ہیں تاکہ آپ کو فایٔیدہ مل سکے یا ترقی نصیب ہو سکے!
تو آپ ہی بتایٔیے کہ کیا یہ دنیا آپ کو فایٔیدہ دے سکتی ہے جبکہ اﷲ کہتا ہے
کہ تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ اﷲ نہ چاہے (سورۃ التکویر)؟ اور
کیا یہ دنیا آپ کو ٹھوکریں نہیں مارتیں؟ کیا یہ دنیا آپ کو دھوکے نہیں دیتی؟
پھر بھی آپ اس دنیا کے ہی پیچھے بھاگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ دنیا منحوس
ہے، ہمیں سکون نہیں مل رہا۔ اﷲ کہتا ہے کہ کہ اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے
رہو (ا لقرآن)، او ر یہ رسی ہے، قرآن۔ یعنی قرآن پڑھو، اسے سمجھو کہ اﷲ کیا
کہ رہا ہے اور اس کے مطابق زندگی گزارو۔ تو کیا آپ قرآن پڑھتے ہیں، کیا اسے
سمجھتے ہیں، کیا اس کے مطابق زندگی گزارتے ہیں؟ اﷲ کہتا ہے کہ انسان خسارے
میں ہے سواے ان لوگوں کے جو ایمان لاے، جنہوں نے نیک عمل کیے، اور جنہوں نے
ایک دوسرے کو صبر و حق کی تلقین کی (سورۃ العصر)۔ تو کیا آپ ایمان والے ہیں،
کیا واقعی آپ کا ایمان ایسا ہے کہ آپ صرف اﷲ کے آگے جھکتے ہوں، دنیا کے آگے
نہیں؟ کیا واقعی آپ اﷲ کی مانتے ہیں؟ کیا واقعی آپ نیک اعمال کرتے ہیں؟ اگر
کرتے بھی ہیں تو یاد رکھیں ایمان کے بغیر کویٔ عمل فایٔیدہ مند نہیں۔ اور
ایمان کی پہلی سیڑھی ہے توحید!! اور پھر کیا واقعی آپ ایک دوسرے کو حق کی
تلقین کرتے ہیں؟ کیا واقعی آپ حق اور سچ کا ساتھ دیتے ہیں؟ کیا واقعی آپ ان
تمام حقوق کو پورا کرتے ہیں جو اﷲ نے دوسروں کی نسبت آپ پر فرض کیے؟ کیا
واقعی پھر آپ صبر کرتے ہیں جب جب آپ پر کویٔ مصیبت نازل ہوتی ہے؟ کیا آپ اﷲ
کو کوسنے نہیں لگ جاتے؟ کیا آپ یہ نہیں کہتے کہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں؟
کیوں بھول جاتے ہیں ان بے بہا نعمتوں کو جو اﷲ نے آپ پر عنایات کیں؟ جبکہ
اﷲ کہتا ہے کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے ( سورۃ النشرح)۔ یعنی یہ مشکل کچھ
بھی نہیں، صبر کروگے تو تمہیں سکون آے گا، اور پھر اچھا وقت بھی آے گا۔ یہ
مشکل بلآخر ختم ہونے والی ہے۔ لیکن آپ تواپنی زندگی کو کوسنے لگ جاتے ہیں
جیسے دنیا کہ سارے مظالم فقط آپ کے ساتھ ہی درپیش آگیٔے! اور پھر آپ کا خود
کشی کرنے کا دل کرتا ہے، گویا کبھی کویٔ نعمت اﷲ نے آپ کو دی ہی نہ ہو!!
آپ اپنے اندر نہیں جھانکتے ، اپنی عزت کو نہیں پہچانتے، بلکہ دنیاسے بھیک
مانگتے ہیں، عزت کی محبت کی، اور اﷲ سے بڑھ کر اس دنیا سے محبت رکھتے ہیں۔
یہاں اپنے اندر جھانکنے سے مراد یہی ہے کہ اپنے اﷲ کو ڈھونڈو، اسے پہچانو،
اور اسی سے مانگو، وہی تمہارا اصل سکون ہے۔کیوں کہ اﷲ کہتا ہے کہ مجھے اپنے
اندر تلاشو، میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ تم سے قریب ہوں، اور جس نے اپنے
آپ کو پہچان لیا گویا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ لیکن آپ تو اﷲ کو اپنے
اندر ڈھونڈنے سے پہلے باہر ڈھونڈتے ہیں۔ حالانکہ اﷲ باہر تبھی ملے گا، جب
آپ کے اندر جلوہ گر ہو چکا ہوگا۔ اور یہی وجہ ہے، کہ بڑے بڑے فلسفی کہتے
ہیں کہ تمہارا سکون تمہارے اندر موجود ہے، اور جو جتنا خود سے باخبر ہے وہ
اتنا ہی کامیاب ہے۔ لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ ہر انسان اپنی امیدوں کا
مرکز دوسرے انسان کو بنا رہا ہے اور انسانیت پرستی پر اترا ہوا ہے۔ جب تک
کہ آپ کی تمام محبتیں اﷲ کے لیٔے نہ ہوجایٔیں، آپ کی زندگی کا ہر مقصد محض
اﷲ کے نام نہ ہو جاے، آپ کی دعاؤں کا مرکز صرف اﷲ نہ ہوجاے، آپ کے ایمان کا
محور صرف اﷲ نہ ہوجاے، آپ کا دین آپ کی دنیا اور آپ کی دنیا آپ کا دین نہ
ہوجاے، آپ کی زندگی میں توازن نہیں آسکتا۔ آپ کبھی صراطِ مستقیم نہیں
پاسکتے! اور آپ کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔ آپ مکمل دنیا کی طرف جھک جایٔیں اور
دین کو بھول جایٔیں تو نتیجہ صرف ڈیپریشن ہے۔ سب کچھ پالینے کے بعد بھی، بے
شمار ترقی کر لینے کے باوجود بھی جو اک خلا آپ کے اندر ہوتی ہے، وہ کیا
ہوتا ہے؟ وہ خلا ہے اﷲ کی محبت! وہ خلا ہے قرآن، وہ خلا ہے ایمان۔آپ دنیا
میں اتنا غرق ہوجاتے ہیں کہ اپنے اصل مقصد کو بھول جاتے ہیں، اور اس کا
نتیجہ آپ کو مایوسی کی طرف لے جاتا ہے کیوں کہ یہ دنیا اک دھوکا ہے۔اور آپ
اس دھوکے کو حقیقت سمجھتے ہیں اور سہی راستے سے دور چلے جاتے ہیں۔ اﷲ ہر گز
یہ نہیں کہتا کہ اپنی دنیا کو سنوارنے کے لیٔے کوشش نہ کرو، بلکہ اﷲ کہتا
ہے کہ اپنی دنیا اورآخرت دونوں کو سنوارو۔ اور یہ اُسی وقت ممکن ہے جب آپ
صراطِ مستقیم پالیں۔ اور صراطِ مستقیم پالینے کا مطلب ہے، سکون پالینا! کیا
وجہ ہے کہ جب بھی کویٔ غم آپ کو لاحق ہوتا ہے، آپ کیسے اﷲ اﷲ کرنے لگ جاتے
ہیں! اﷲ کہتا ہے کہ خوشی میں بھی اس کو مت بھولو ورنہ وہ خوشی غم میں بدلتے
دیر نہیں لگے گی۔ اپنے زندگی کے ہر مقصد کو اﷲ کے نام کردو اور اس دنیا کی
محبت کو دل میں جگہ نہ دو۔ کیوں کہ یہ دل صرف اﷲ کی محبت کے لیٔے ہے۔ اور
جب آپ اپنا سب کچھ اﷲ کے نام کر دوگے، اس کے حوالے کر دوگے تو وہ آپ کو وہ
سب کچھ دے دے گا، جس کے آپ طلبگار ہیں اور یہ اﷲ کا وعدہ ہے۔ پھر صراطِ
مستقیم ہوگا، دین بھی اور دنیا بھی۔
|