کورونا وائرس ایک ناگہانی بلا کی صورت دنیا پر مسلط
ہواہے۔ دنیا کا کوئی ملک اس بلائے ناگہانی کا سامنا کرنا تو کجا اس سے
بچاؤکا متحمل نہیں ہے۔کورونا وباء کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا خطرہ اسکولوں اور
تعلیمی اداروں پرمنڈلاتے دیکھ کر انھیں فوراً بند کردیا گیا جس کی وجہ سے
روایتی طریقہ تعلیم تقریباً منقطع ہوچکا ہے۔بعض کارپوریٹ تعلیمی ادارے( جو
اپنے طرز عمل کی وجہ سے بدترین شہرت کے حامل ہیں) کے علاوہ مرکزی حکومت کے
زیر اہتمام چلائے جانے والے اسکولس نے بھی آن لائن تعلیم (ورچول لرننگ) سے
طلبہ کو مستفیض کرنے کا عزم و بیڑہ اٹھایا ۔ طلبہ کو وباء کے ایسے نازک دور
میں گھروں پر فارغ بٹھانے کے بجائے آن لائن تعلیم سے بہرور کرنے کی تعلیمی
ادارہ جات کی اس مساعی کو شاید قابل تحسین قرار دیاجائے لیکن ملک کے تعلیمی
انفرااسٹرکچر کو نظرانداز کرتے ہوئے اٹھایا جانے والا یہ قدم کسی بھی طرح
ملک کے تعلیمی مفاد ات کے حق میں نہیں ہے۔ ان اقدامات کے حوالے سے سب سے
بڑی جس کمی کوتاہی اور خلاکو واضح طور پر محسوس کیا گیا ہے وہ تمام تعلیمی
اداروں کے لئے ایک جامع اور یکساں پالیسی کا فقدان ہے۔ چیک اینڈ بیلنس کی
عدم موجوددگی ، والدین ،طلبہ اور اساتذہ کی مشکلات کو نظرانداز کرتے ہوئے
،زمینی حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے جب اقدامات کئے جائیں تو اس طرح کے
اقدامات سے نفع سے زیادہ نقصانات کا اندیشہ واحتمال رہتا ہے۔انہی اندیشوں
نے طلبہ،اولیائے طلبہ، اساتذہ تعلیمی ماہرین اور ماہرین نفسیات کو آن لائن
تعلیمی نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ عوام کی
ایک بڑی تعداد جو کل تک ا ی لرننگ یا آن لائن طریقہ تعلیم کے صرف نام سے
واقف تھی ،اس کے طریقہ کار سے بالکل آگاہ نہیں تھی اور ان کے لئے یہ ندرت
سے پر، خوب صورت اور اعلیٰ معیار کا ایک پرکشش لیبل تھا ۔لیکن جب ان کو اسے
قریب سے دیکھنے اور برتنے کا موقع ملاتب انھیں اس کے مضمرات ،خرابیوں اور
کوتاہیوں کا علم ہوا۔طلبہ کے لئے درس و اکتساب کا عمل پہلے جیسا دلچسپ
متحرک اور توانائی سے بھرا نہیں رہا بلکہ یہ ان کے لئے آج بوریت سے پر،
اکتاہٹ سے بھرا ، بے روح اور بے کیف عمل بن کر رہ گیا ہے۔
طلبہ کی اکتاہٹ اور بیزارگی کی ایک اور وجہ کورونا وباء کی دہشت و خو ف بھی
ہوسکتا ہے۔فکر و افکار سے پاک بچوں کے ذہنوں پر روزانہ ماسک پہننے ،باربار
ہاتھ دھونے اور کھیل کود سے دوری نے بہت برے اثرات ڈالے ہیں ۔ بچوں کی صبح
و شام کی بدلی ہوئی سرگرمیاں تعلیم سے بے رغبتی کی ایک خا ص وجہ ہوسکتی
ہے۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں تعلیم بچوں کے لئے ایک مجبوری تو ہوسکتی ہے
لیکن فرحت و انبساط کا ذریعہ ہرگز نہیں ہوسکتی۔یہ کیفیت ہماری ریاست یا ملک
کے طلبہ کی ہی نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پرتمام طلبہ اس کرب و اضطراب سے گزر
رہے ہیں۔عالمی ادارہ یونیسف(UNICEF)کے اگزیکیٹوڈائریکٹر ہینریٹا
فور(Henrietta Fore)کے مطابق ’’کوویڈ۱۹-کے زیر اثر لاکھوں بچوں کی زندگی
عارضی طور پر صرف اپنے گھروں اور اسکرینوں تک سکڑکر رہ گئی ہے۔ہمیں انھیں
اس صورت حالسے عہدہ براں ہونے میں مدد فراہم کرنی چاہئے۔‘‘(Under the
shadow of Covid-19 the lives of millions of children have temporarily
shrunk to just their homes and screens.We must help them navigate this
new reality.Henrietta Fore)اقوام متحد ہ کی تعلیمی ،سائنسی اور ثقافتی
تنظیم(یونیسکو)جو ایک کثیر جہتی تنظیم ہے نے اپنی 21اپریل کو جاری رپورٹ
میں تعلیم کے آن لائن طریقہ کی جانب پیش قدمی کے بارے میں تشویشناک حقائق
کو اجاگر کیا ہے۔عالمی تناظر کے پیش نظر یونیسکو نے متنبہ کیا کہ طلبہ کی
نصف تعداد جو کہ 826ملین یعنی 82کروڑ 6 لاکھ پر مشتمل ہے تعلیم کے آن لائن
ہونے کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہوجائے گی کیونکہ ان کے گھروں میں کمپیوٹر
دستیاب نہیں ہے۔اس کے علاوہ طلبہ کی 43%تعداد جوکہ تقریبا 706ملین یعنی
7کروڑ 6لاکھ پر مشتمل ہے کے گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ان
حقائق کے پیش نظرکارپویٹ و انٹرنیشنل ادارہ جات کی جانب سے حکومت کی اجازت
کے بغیر آن لائن ٹیچنگ کی وجہ سے سماجی تفاوت پیدا ہونے کے قوی امکانات
پائے جاتے ہیں۔ غریب اور نادار طلبہ کے ذہنوں پر اس طرح کے طرز عمل سے برے
اثرات مرتب ہوں گے ۔محرومیوں کا احساس بچوں کے ذہنوں پر بہت برے اثرات مرتب
کرسکتا ہے ۔ان امور پر ارباب مجاز کو توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔کورونا
وباء کی آڑ میں آن لائن تعلیم کی صورت محروم و مجروح افراد بے کسی اور بے
بسی کے احساس کا شکار ہوسکتے ہیں۔اس طرح کے اقدامات سے سماج میں طبقاتی
تقسیم، عدم مساوات اور سماجی ناانصافی کو تقویتحاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ آن
لائن طریقہ تعلیم کی وجہ سے جسمانی ،ذہنی،طبی ،معاشی اور نفسیاتی مسائل کے
سراٹھانے کے قوی اندیشے پائے جاتے ہیں ۔آن لائن تعلیم درس واکتساب کے
نفقصان پر قابو پانے میں یقینا مددگار ہے لیکن مذکورہ امور پر توجہ مرکوز
کئے بغیر آن لائن طریقہ تعلیم کی جانب پیش قدمی یقینا خطرات کو کھلی دعوت
دینے کے متراد ف ہے۔ ذیل میں ایسی ہی کوتاہیوں،کمیوں اندیشوں اور خطرات کی
جانب توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ ارباب حل و عقد آن لائن
تعلیم کے مسائل کے حل اور خطرات و اندیشوں کے انسدا د اور تدارک کے ساماں
تلاش کرسکیں۔
کیا اسکولی طلبہ کے لئے آن لائن تعلیم ضروری ہے؟
کالج اور یونیورسٹیز میں زیرتعلیم طلبہ میں شعور و آگہی بہ نسبت اسکولی
طلبہ کے زیادہ پائی جاتی ہے ۔اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ نوخیز اور کچی عمر
کے ہوتے ہیں ۔آن لائن تعلیم یونیسف کے مطابق نوخیز عمر کے طلبہ کے لئے
خطرات و اندیشوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔نوخیز طلبہ کا انٹرنیٹ سے
تعامل (Internet exposure)مختلف قسم کے استحصال کا سبب بن سکتا ہے۔یونیسف
نے حکومتوں ، اسکولوں اور والدین کوان مسائل(حقائق)سے نبردآزمائی کے لئے
متعدد سفارشیں پیش کی ہیں۔یونیسف نے حکومتوں سے خواہش کی ہے کہ وہ بچوں کی
حفاظت سے متعلق بنیادی خدمات کو یقینی بنائیں تاکہ اس وبائی دور میں بھی
بچے خود کو آزاد اور متحرک رکھ سکیں۔ والدین سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ بچوں
کی ڈیوائسس(Devices) جدید ترین سافٹ ویئر اپڈیٹس اور اینٹی وائرس پروگرام
سے لازمی طور پر لیس ہوں۔یونیسف کے اندیشے حق بجانب ہیں۔طلبہ کی آن لائن
سیکوریٹی کو یقینی بنائے بغیر اس جانب پیش قدمی کو سست کردینا چاہئے۔اسکولی
طلبہ کے لئے آن لائن تعلیم کالج طلبہ کے بہ نسبت محفوظ ،پرسکون اور سہولت
والی نہیں ہے۔ جہاں کم عمر بچوں کا اپنے اساتذہ سے تعلق والدین کی طرح ہوتا
ہے وہیں ان کے لئے کمرۂ جماعت اپنے گھر کی طرح ہوتا ہے۔چھوٹے بچے اپنے
والدین اورگھر سے زیادہ دیر دورنہیں رہ سکتے ۔ آن لائن تعلیم بچوں کے لئے
اساتذہ سے دوری کا ہرگزمدوا نہیں ہوسکتی۔بچوں کی طرح اساتذہ بھی ایک زندگی
سے بھری سانس لیتی ہوئی کلاس سے مخاطب ہونے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ کمرۂ
جماعت میں اپنی تدریس کے جوہر اور تاثیر کے بل پر طلبہ کے دلوں میں اترجاتے
ہیں۔آن لائن طریقہ تعلیم تاثیر اور اثر کے فقدان کے باعث طلبہ ہی نہیں
اساتذہ اور والدین کے لئے بھی ،بے دلی،بے کیفی اور افتادگی کا سبب ثابت ہوا
ہے۔ موجودہ حالات میں آن لائن تعلیم کے سوا کوئی اور متبادل راستہ بھی نہیں
رہا ہے ۔ لیکن آن لائن تعلیم کی فراہمی سے قبل بچوں کی حفاظت،جسمانی و ذہنی
صحت کی برقراری کو یقینی بنایا جانا بے حد ضروری ہے۔
آن لائن تعلیم سے پیداہونے والے مسائل
متعددکارپوریٹ اسکولس حکومت کے رہنمایانہ خطوط کی اجرائی کے بغیر ہی روزانہ
چار تا پانچ گھنٹے آن لائن تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان تدریسی
سرگرمیوں کیمتعلق طلبہ ،والدین ، ماہرین تعلیم ،ماہرین نفسیات اور ڈاکٹرس
کے حوصلہ شکن تاثرات سامنے آرہے ہیں۔ریاستی حکومت کی جانب سے تعلیمی
کیلنڈراورواضح ہدایات کی اجرائی کے بغیر ہی کارپوریٹ تعلیمی ادارہ جات کا
اپنے طور پر تعلیمی سرگرمیوں کو شروع کرنا ان کی مادی وتاجرانہ فکر کو عیاں
کرتا ہے۔یقیناچند گھنٹوں کی تدریس کے لئے اساتذہ کو نصف یا اس سے بھی کم
مشاہیرہ ادا کیا جائے گا لیکن اولیائے طلبہ سے مکمل فیس حاصل کی جائے
گی۔فیس کی ادائیگی کے سلسلہ میں حالات کے پیش نظر ان ادارہ جات کی جانب سے
فی الحال نرم روی سے کام (مطالبہ )لیا جارہا ہے ۔چند دنوں میں یہ مطالبہ آن
لائن کلاس سے بچوں کو فیس کی عدم ادائیگی کے باعث بائیکاٹ کرنے سے والدین
کے لئے ذہنی آزار کا سبب بن سکتا ہے۔ہر طالب علم کے پاس کمپیوٹر،لیاپ
ٹاپ،آئی پیڈ،ٹیاب یا اسمارٹ فون موجود نہیں ہے۔اگر کم از کم فون موجود ہے
تو آن لائن آنے کے لئے انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔اگر کہیں نیٹ کی
سہولت موجود بھی ہے تو نٹ ورک مستحکم نہیں ہے ۔نٹ ورک کا آنا جانا لگا ہوا
ہے۔اگر نٹ ورک اچھا بھی ہو تب کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ وہاں برقی کی
فراہمی کبھی منقطع نہیں ہوسکتی۔ہمارے ترقی کے متعدد دعووں کے باوجود آج بھی
ریاست کے بڑے بڑے شہروں بلکہ ملک کے بڑے بڑے شہروں اور کئی ریاستوں کے بے
شمار علاقوں میں بجلی کی آنکھ مچلی جاری ہے۔ان تمام مسائل کے علاوہ آن لائن
تعلیم کی جانب موجودہ حالات میں اتنی سرعت سے مراجعت کی گئی ہے کہ جس کے
طلبہ ،اساتذہ ،اولیائے طلبہ اور حتیٰ کہ محکمہ تعلیمات بھی متحمل نہیں
تھا۔آن لائن تعلیم کی سمت پیش قدمی کی آج سے پہلے طلبہ ،اساتذہ اور اولیائے
طلبہ کو کبھی مشق بھی نہیں کرائی گئی تھی۔ان مسائل سے پرے ہماری عادت اور
مزاج بھی آن لائن تعلیم کے لئے ایک مسئلہ ہے جو تبدیلی کو بہت دیر سے قبول
کرتا ہے۔آ ن لائن تعلیم کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے تعلیمی اداروں
کا انفراسٹرکچر بھی ہے۔مستحکم آئی ٹی سی انفراسٹرکچر کی فراہمی آن لائن
تعلیم کی فراہمی کے لئے بے حد ضروری ہے ۔طلبہ ،اولیائے طلبہ اور اساتذہ کی
جدید وسائل سے محرومی ایک مسلمہ حقیقت ہے جس کی تکمیل کئے بغیر آن لائن
طریقہ تعلیم کی جانب پیش قدمی سماجی انصاف کے مغائر تصور کی جائے گی۔جدید
گیاٹ گے جس (Gadgets)،مفت تیز رفتار ا نٹر نیٹ اور بغیر تعطل کے بجلی کی
فراہمی کے بغیر آن لائن طریقہ تعلیم کی وکالت یقینا بے سود اور ناکارہ نظر
آتی ہے۔روایتی درس و اکتساب اور آن لائن درس و اکتساب دونوں جداگانہ تکنیک
پر مبنی ہیں ۔آن لائن تدریس کی اساتذہ کو تربیت کے بغیر اس کی افادیت پر
بھروسہ ہرگز نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے علاوہ روایتی طریقہ تعلیم اور آن لائن
طریقہ تعلیم کے نصاب میں بھی بہت نمایاں تبدیلیاں پائی جاتی ہیں ۔آن لائن
طریقہ تعلیم کے تقاضوں پر مبنی نصاب کی تدوین کے بغیر آن لائن درس و اکتساب
کی افادیت ،تاثیر اور اہمیت پر شکوک کا ازالہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی
ہے۔
آن لائن تعلیم سے طلبہ کے ذہنی و جسمانی عوارض میں مبتلاء ہونے کے اندیشے
ملک کے اکثر گھرانے کمپیوٹر،لیاپ ٹاپ ،آئی پیڈ،ٹیاب جیسے جدید وسائل سے
محروم ہیں ،جس کی وجہ سے اکثر طلبہ چھوٹے اسکرین والے فونس پر آن لائن
تعلیم کے حصول میں مصروف ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق ہر عمر کے افراد کے لئے
ایک مخصوص اسکرین ٹائم ہوتا ہے جس پر عمل پیرائی سے کمپیوٹر ریلڈڈ کئی
عوارض اور امراض سے بچا جاسکتا ہے۔بڑے اسکرین پر ہی جب پابندیا ں عائد ہیں
اس کے برخلاف چھوٹے چھوٹے اسکرین والے اسمارٹ و ائنڈرویڈ فونس پر متواتر
چارتا پانچ گھنٹوں تک نظر یں جمائے رکھنے سے طلبہ کی آنکھیں سرخ اور متورم
ہورہی ہیں۔لگاتار اسکرین پر نظریں جمائے رکھنے سے بعض بچوں میں قئے اور
الٹیوں کی شکایت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔مختلف جگہوں سے آن لائن تعلیم کی
وجہ سے کئی بچوں میں گردن،سر اور بدن درد کی شکایتیں موصول ہورہی ہیں
۔مذکورہ شکایتوں کے پیش نظر کئی والدین آن لائن تعلیم کے سلسلے کو ترک بھی
کرچکے ہیں۔طلبہ ان مسائل کے علاوہ آن لائن تعلیم سے عدم فہمی کی وجہ سے
تعلیمی اور اکتسابی مقاصد کے حصول میں ناکامی کا شکار نظر آرہے ہیں۔عموماً
ہر گھر میں ایک ہی فون پایا جاتا ہے ۔وہ گھرانے جہاں ایک سے زیادہ بچے آن
لائن تعلیم سے جڑے ہیں ان کے لئے یہ مسئلہ بہت ہی سنگین ہے کہ وہ کس طرح
اپنے دیگربچوں کی تعلیم کو یقینی بنائیں۔اگر ہائی اسکول کی بڑی جماعتوں کو
آن لائن تعلیم کے دائرکار میں لایا جاتا تو پھر بھی مناسب تھا ۔ لیکن اپر
پرائمری تو دور پہلی جماعت بلکہ کے جی کے بچوں پر بھی آن لائن تعلیم کا
عذاب مسلط کیا جارہا ہے۔اتنی کم عمروالے طلبہ کا لگاتار دوچار گھنٹوں تک
اسکرین پرنظریں جمائے رکھنا طبی اور سائنسی اصولوں کے بالکل منافی ہے۔آن
لائن طریقہ تعلیم کم عمر بچوں میں چڑچڑاپن جیسے منفی رویہ کی پیدائش کا سبب
بن رہا ہے۔ محکمہ تعلیمات کے ذمہ داران کو فوری اثر کے ساتھ آن لائن طریقہ
تعلیم کے واضح رہنمایانہ خطوط جاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی صحت اور
مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔
آن لائن تعلیم سے غریب طلبہ و اولیائے طلبہ معاشی مسائل و پریشانی کا شکار
آن لائن تعلیم کے لئے ماڈرن گیاٹ گے جس (Gadgets)جیسے کمپیوٹر،لیاپ ٹاپ
،آئی پیڈ،ٹیاب ،یا اسمارٹ فون کا ہونے بے حد ضروری ہے ۔وہ گھرانے جہاں
غریبی و مفلسی کی وجہ ان آلات کا وجود مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہو آن لائن
تعلیم ان طلبہ اور اولیائے طلبہ کے لئے کسی عذاب یا آزمائش سے کم نہیں
ہے۔وہ غریب افراد جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے گزشتہ تین چار مہینوں سے بے
روزگاری ، کسمپرسی اور فاقہ کشی پر مجبور ہیں ان کے بچوں کی تعلیم کا کیا
ہوگا۔اخبارات کی اطلاعات کے مطابق چند ایک طلبہ نے والدین کی جانب سے
کمپیوٹر،اسمارٹ فون یا ٹیلی ویژن فراہم نہ کئے جانے پر خود کشی کرتے ہوئے
اپنی جان بھی گنوا بیٹھے۔چند طلبہ کی جانب سے خودکشی کی اطلاعات بھی موصول
ہوئی ہیں۔ کمپیوٹر ،لیاپ ٹاپ ،آئی پیڈ ،ٹیاب تو دور صرف موبائل فون کی
خریدی کے لئے کم از کم 10000تا 12000روپے درکار ہوتے ہیں جو ان غریب والدین
کے بس کی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے بچے تعلیم سے محروم ہورہے ہیں۔
انٹرنیٹ اور موبائل ڈاٹا کا حصول بھی اخراجات کا متقاضی ہے جس کا بوجھ غریب
والدین نہیں اٹھا سکتے ۔یہ حقائق سماجی عدم مساوات کے مظہر ہیں۔وباء کی
موجودہ صورتحال تعلیمی نظام کو طبقاتی کشمش میں دھکیلنے کا کام انجام دے
رہی ہے۔وسائل اور روپے پیسے کی قلت کی وجہ سے طلبہ اور اولیائے طلبہ معاشی
مسائل اور ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔غریب گھرانوں کے لئے اسمارٹ فون کی خریدی
سے زیادہ اولاد کے پیٹ کی آگ بجھانے ضروری ہے۔محرومی و مجبوری کی یہ
داستانیں طلبہ میں احساس کمتری کے فروغ کا باعث بن سکتی ہے۔ معصوم طلبہ اور
غریب اولیائے طلبہ کو ذہنی خلفشار سے بچانے کے لئے حکومت کو ہنگامی اقدامات
کی ضرورت ہے۔
دیہی علاقے آن لائن تعلیم سے محروم :۔
آن لائن تعلیم کے لئے جہاں شہروں میں بسنے والے شہری متعدد مسائل کا شکار
ہیں اس سے زیادہ دیہی علاقوں میں آباد طلبہ آن لائن تعلیم کے فیوض و برکات
سے محروم ہیں۔جدید آلات ،برقی اور انٹرنیٹ کی مستحکم یا عدم سربراہی آن
لائن تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
تعلیم کی مساویانہ فراہمی کیوں اور کیسے
یونیسکو(UNESCO)نے پہلے سے موجودہ سماجی عدم مساوات کو کم کرنے کے لئے
کمیونٹی ریڈیو اور ٹیلی ویژن نشریات کو بطور ایک متبادل تدریسی طریقے کے
اختیار کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔یونیسکو ڈائرکٹر جنرل آڈری ایزولے(Audrey
Azoulay)نے اپنی ایک رپورٹ میں کہاکہ یہ ایک واحد حل ہے جس کے ذریعہ عالمی
اتحاد اس تعلیمی بحران پر قابو پاسکتا ہے۔مرکزی وزارت انسانی وسائل و ترقی
ڈی ٹی ایچ (DTH) پلاٹ فارم پر انہی خطوط پر اسباق کی تیاری و فراہمی پر زور
دے رہا ہے۔وزیر برائے انسانی وسائل و ترقی کے مطابق حکومت آل انڈیا ریڈیو
کے ذریعہ ان اسباق کو نشر کرنے کے امکانات پر غور و خوض کررہی ہے۔آن لائن
تعلیم یقینا ایک اچھا پلاٹ فارم ہے لیکن یہ ہر ایک کے لئے موزوں نہیں ہے۔اس
کے فراہمی کے لئے چند ضروری وسائل کی فراہمی جیسے آلات اور مستحکم انٹرنیٹ
تک ہر ایک کی آزادانہ رسائی ضروری ہے جس کا ہر طالب علم متحمل نہیں ہے۔جدید
آلات گیاٹ گے جس(Gadgets) ،غیر معیاری انٹرنیٹ نٹ ورک کے علاوہ اسکرین سے
نکلنے والی نیلی روشنی جو طو یل عرصے تک اسکرین پر نظریں جمائے رکھنے سے
آنکھوں کو متاثر کرتی ہے وغیرہ آن لائن تعلیم کے قباحتوں میں شامل ہیں۔آن
لائن طریقہ تعلیم میں استاد طلبہ کی جسمانی حرکت و سکنات (body language)پر
نظر نہیں رکھ سکتا ہے جو طالب علم کی اکتسابی صلاحیت کی جانچ کے لئے ضروری
تصور کی جاتی ہے۔روایتی درس واکتساب میں طلبہ کو اپنے اشکالات اور سوالات
کا حل فوری طور پر حاصل ہوجاتا ہے جس سے ان میں ایک اطمینان اور مسرت کا
جذبہ پروان چڑھتا ہے جس سے اکتساب کی شرح اور معیار پر مثبت اثرات مرتب
ہوتے ہیں جب کہ آن لائن تعلیم اس تاثیر سے خالی ہے۔
موجود حالات میں آن لائن تعلیم یقینا لازمی تصور کی جاسکتی ہے ۔آن لائن
تعلیم کے دوران طلبہ پر والدین یا سرپرستوں کا نگا ہ رکھنا بے حد ضروری ہے
کیونکہ جہاں آن لائن تعلیم طلبہ کو سیکھنے کاموقع فراہم کرتی ہے وہیں اس کی
توجہ دیگر غیر ضروری اور مخرب اخلاق سرگرمیوں کی جا نب مبذول ہوسکتی
ہے۔اسباق کی تدریس کے فوری بعد اولیائے طلبہ و سرپرست حضرات کو ان امور پر
توجہ دینی کی سخت ضرورت ہے۔آن لائن درس واکتساب کا اثر غیر واضح اور دیر پا
واقع نہیں ہوا ہے۔تعلیم صرف طلبہ کو نصاب کی حد تک محدود رکھنے کا نام نہیں
ہے بلکہ نظم و ضبط ،آداب و اخلاق،دیگر افراد وساتھیوں اور اساتذہ سے تعامل
اور بہترطرزعمل کی تربیت بھی شامل ہے۔ آن لائن تعلیم کے ذریعہ اقدار و
اطوار کی منتقلی مشکل ہے۔میری نظر میں اسکولس کو بہت زیادہ آن لائن تعلیم
کی جانب راغب ہونے کے بجائے صرف ضرورت کی حدتک اسے استعمال کرنا چاہئے۔آج
چونکہ آن لائن تعلیم وقت کی ضرورت ہے اور موجود حالات میں اس کو کلی طور پر
اختیار کرنے سے قبل ارباب مجاز و اختیار کو مذکورہ بالا خدشات ،اندیشوں اور
مسائل پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔ ہر تعلیمی ادارے کو اخلاقی اقدار اور
نظم و ضبط کی تعلیم کا مناسب اہتمام کرنا چاہئے اور خو د ان اقدار پر عمل
پیرائی کے ذریعے ایک روشن مثال بھی پیش کرنا چاہئے۔حکومت آن لائن تعلیم کی
کوئی بھی پالیسی وضع کرنے سے قبل غور کر ے کہ ہر طالب علم کی آن لائن وسائل
تک رسائی ہے بھی یا نہیں ۔ حقائق سے چشم پوشی نہ صرف طلبہ کی صلاحیتوں پر
قدغن لگا سکتی ہے بلکہ انھیں تعلیمی پسماندگی کا شکار بھی کرسکتی ہے۔اگر
مستقل طور پر آن لائن کلاسیس جاری رہتی ہیں توطلبہ کی کثیر تعداد انٹر نیٹ
کے اخراجات برداشت کرنے کی بھی متحمل نہیں ہے۔ کمپیوٹر ،لیاپ ٹاپ ،آئی پیڈ
،ٹیاب یا اسمارٹ فون کی مفت یا سبسیڈی پیکج پر فراہمی اور مفت یا سبسڈی
والے ڈاٹا پیکیج کی فراہمی کا بھی حکومت کی جانب سے ابھی تک کوئی اعلان
نہیں ہوا ہے۔ان حالات میں طلبہ کی کثیر تعدا د خاص طور پر ایسے طلبہ جن کے
خاندان سرپرست اور والدین لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملازمت سے محروم ہوگئے ہیں۔جن
کی آمدنی بالکل ختم یا بہت کم ہوگئی ہے وہ ان اخراجات کی پابجائی کے متحمل
نہیں ہیں۔چونکہ طلبہ کی اکثریت متوسط طبقے یا غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی
ہے ۔اپنے محدود وسائل کے باعث کمپیوٹر ،لیاپ ٹاپ ،آئی پیڈ،ٹیاپ یا اسمارٹ
فون اور انٹر نیٹ ان کے لئے آج بھی تعیشات کی فہرست میں شامل ہے اور ان
تمام وسائل تک ان کی رسائی نہیں ہے اگر ہوں بھی تو محدود ہے۔ حکومت امیر
اور غریب کے درمیان پائے جانے والے درس واکتساب کے اس بڑے فرق و تفاوت کو
ختم کرنے کے لئے واضح پالیسی وحکمت عملی نہ صرف وضع کرے بلکہ اس پر عمل
پیرائی کو یقینی بنانے کے موثر اقدامات کرے ۔وگرنہ آن لائن طریقہ تعلیم
سماج میں موجودہ تعلیمی عدم مساوات کو اور وسیع کرنے کا باعث بن جائے گا۔
|