کرونا وباء کے دوران اور فوری بعد کا تعلیمی نظام

کرونا کی عالمی وبا جب سے منظرعام پہ آئی ہے، پوری دنیاء میں صحت کی ہنگامی صورت حال پیدا ہو گئی ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی شدید ترین متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت بنی نوع انسان کی بقا اور مستقبل کا انحصار آج کے بچوں اور نوجوانوں پر ہے۔ اسی نسل نے مستقبل کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے۔ تمام ممالک کے لئے سب سے بڑا چیلنج اس نسل کو وباء کے ہر طرح کے اثرات سے محفوظ رکھنا ہے۔ بد قسمتی سے اس وبا نے اس نسل ‘کی تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اگرچہ کئی تعلیمی ادارے بحران کے اس دور میں فاصلاتی تعلیمی طریقوں کو اپناتے ہوئے مسقبل کی نسل کا تعلیمی و تربیتی سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر اس سلسلے میں ان اداروں کو کئی طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جن میں سے کچھ یوں ہیں:۔

کئی طلباء کے پاس مناسب آلات کا نہ ہونا، جیسے کمپیوٹر یا سمارٹ فون ۔(واضح رہے کہ کسی چاربچوں والی فیملی کے پاس اگر دو سمارٹ فون ہیں تو بھی وہ آن لائن کلاسز کے لیے نا کافی ہوں گے۔)
دور دراز علاقوں میں رہنے والے طلباء کے پاس مناسب انٹرنیٹ سہولیات کا فقدان۔ دور دراز علاقوں میں ٹو جی کام کرتا ہے اور اگر کہیں تھری جی یا فور جی ہے بھی تو اس کا سگنل ڈراپ ہوتا رہتا ہے۔
جن طلباء کے پاس آلات / گیجٹ بھی ہیں اور انٹرنیٹ کی مکمل سہولت بھی، وہاں دیگر مسائل کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ جیسےطلبا اور ان کے والدین کا گیجٹز کے استعمال میں مہارت کی کمی۔
کیونکہ زیادہ تر آن لائن تدریسی عمل یک طرفہ ہوتا ہے، اور 40 یا 50 منٹ کی کلاس میں ممکن نہیں ہوتا کہ تمام طلباء براہ راست اپنے خدشات دور کر سکیں یا سوال پوچھ سکیں، اس لئے ایسے طلباء جلد ہی ایسے طریقہ تدریس سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ اور پیچھے رہ جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ کم عمر بچے بغیر رہمنائی کے کسی بھی ریکارڈڈ ویڈیو سے بھر پور فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
بہت سے تعلیمی اداروں کے پاس کیمپس مینجمنٹ سسٹم (سی ایم ایس) ، لرننگ مینجمنٹ سسٹم (ایل ایم ایس) ، اور ورچوئل کلاس رومز جیسی ٹیکنالوجیز کا فقدان ہے۔ اگرچہ کئی تعلیمی اداروں نے ان ٹیکنالوجیز کو فوری طور پہ اپنا لیا مگر ابھی تک بہت سے ادارے ان ٹیکنالوجیز پر مہارت حاصل کرنے کے لئے سرگرداں ہیں۔
بہت سارے اساتذہ آن لائن ٹیچنگ سے بلکل ناواقف تھے، اور ان کو اچانک بغیر کسی تربیت کے اس چیلنج کو قبول کرنا پڑا۔ کچھ نے جلد ہی اس نئے طریقہ تدریس اور اس کے مسائل کو سمجھ لیا اور کچھ ابھی اس مرحلے سے گزر رہے ہیں۔
بہت سارے ادارے اور ماہرین سمجھتے ہیں کہ آن لائن ٹیچنگ کا چیلنج ادارے اور اساتذہ قبول کرنے کو تیار ہیں اور اساتذہ کی مناسب تربیت بھی کی جا سکتی ہے۔ مگر دوسری طرف طلبا اور والدین کی آن لائن لرننگ کی تربیت کی ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہے۔ کیا کوئی ایسی تربیت کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے؟
ماہرین تعلیم اور ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ پرائمری ، مڈل اور سیکنڈری سکول کے طلبا آن لائن لرننگ پروگرام سے اسی وقت مستفید ہو سکتے ہیں، جب یہ لرننگ کسی کی نگرانی اور رہنمائی میں ہو۔ کیا نگرانی اور رہنمائی کی ذمہ داری والدین نبھا سکیں گے؟
ان ساری باتوں کے تناظرمیں اگردیکھا جائے تو بحران کے دوران آن لائن درس وتدریس بس اس حد تک ٹھیک ہے کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔ اور یہ ایک وقتی حل دکھائی دیتا ہے، مگر کوئی مستقل حل نہیں۔ دوسری بات یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ٹیکنالوجی، اساتذہ کی نعمل البدل نہیں ہو سکتی۔ یہ ٹیکنالوجیز محض ایک ہتھیار ہیں، جن کے مناسب اور مہارت کے ساتھ استعمال سے تدریسی عمل کی جانچ پڑتال میں آسانی ضرور ہو جاتی ہے۔ مگر پوری دنیاء میں ان ٹیکنالوجیز کے ذریعے طلباء( خاص کر کم عمر طلباء) کے بہت بڑے گروہ کو آن لائن پڑھانا اور سکھانا کامیاب نہیں رہا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہرطالبعلم ذہانت کی ایک مختلف قسم لئے ہوئے ہوتا ہے۔ کلاس روم کے اندر ایک استاد طالبعلم کے چہرے کے تاثرات سے ہی اندازہ لگا لیتا ہے، کہ اس کو کتنی سمجھ آئی ہے۔ کلاس روم کے اندر اساتذہ، طلباء کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے، ذہانت کی مختلف اقسام کا استعمال کرتے ہیں تا کہ طلباء کے اذہان میں کوئی ابہام نہ رہے۔ اور یہ سب، طلباء کے بہت بڑے گروہ کو آن لائن پڑھاتے ہوئے فی االحال ممکن نہیں۔

متبادل تعلیمی انتظامات
یہی وجہ ہے کہ کئی مغربی ممالک نے متبادل تعلیمی انتظامات کے بارے سوچنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے ایک بلینڈڈ ماڈل ہے، جس کا خاکہ کچھ یوں ہے۔

کلاسز میں طلباء کی تعداد کو کم رکھا جائے گا۔ اور وہ پڑھائی کا کچھ سلسلہ سکول میں کریں گے اورکچھ گھر میں۔کچھ طلبا صبح کے وقت سکول آئیں گے، کچھ دپہر کو اور کچھ شام کو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طلبا ایک دن چھوڑ کے سکول آیا کریں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہفتہ چھوڑ کے سکول آیا کریں۔
تمام سکولز سماجی فاصلے کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے۔ جیسے کلاسز کے اندر طلبا کے درمیان چھ فٹ کی دوری۔ اوربریک اور چھٹی کے وقت سماجی فاصلے کے لئے مناسب اقدامات۔
سماجی فاصلے برقرار رکھنے کے لئے،اگر کلاس رومز کم یا چھوٹے پڑ رہے ہوں،تو لائبریری، ہالز وغیرہ کو کلاس رومز میں بدلا جا سکتا ہے۔ یا نئی عمارت کرایے پہ لی جا سکتی ہے۔
اگرسکول کے اوقات میں اضافہ کرنا پڑتا ہے تو اس سلسلے میں اساتذہ کی خدمات حاصل کرنے کے نئے اور اچھوتے طریقے متعارف کئے جا سکتے ہیں، یا پرانے اساتذہ کی از سرنو خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ڈنمارک یورپ کا پہلا ملک ہے جس نے ابتدائی طور پر وبا ختم ہو نے سے پہلے ہی اپنے پرائمری اسکول دوبارہ کھول دیے ہیں۔وہاں بچے سارا دن چھوٹے گروہوں میں رہتے ہیں ، ان گروپس کو "حفاظتی ببلز” کا نام دیا گیا ہے۔طلباء کے یہ گروپس ایک الگ الگ وقت پر پہنچتے ہیں ، اپنا لنچ الگ سے کھاتے ہیں ، کھیل کے میدان میں اپنے زون میں رہتے ہیں اور ایک استاد کے ذریعہ پڑھائے جاتے ہیں۔

جرمنی میں بڑی عمر کے بچوں کے سکولوں کو پہلے کھول دیا گیا ہے۔ اور سماجی فاصلے کو سکول کے اندر ہر جگہ یقینی بنایا گیا ہے۔ حتی کہ سکول کے اندر آنے جانے والے رستوں کو بھی یک طرفہ کر دیا گیا ہے، تا کہ کراسنگ کو روکا جا سکے۔

امریکہ میں تمام سرکاری سکول پورے تعلیمی سال کے لئے بند کر دیے گئے ہیں۔ اور ان سکولوں میں کوئی آن لائن ٹیچنگ وغیرہ بھی نہیں ہو رہی۔ البتہ نجی سکولوں کو محدود پیمانے پر، قواعد کے اندر رہتے ہوئے، کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

مزید تجاویز:

سکول کے داخلی راستوں پہ وائرس کش چھڑکاؤ والے حفاظتی دروازوں کی تنصیب۔
بچوں کو گھر سے سکول لانے اور سکول سے گھر لے جانے کے لئے وائرس کش خصوصیات والی مخصوص بسیں۔
ہر بچے کے لئے دو سکول بیگز ہوا کریں گے۔ ایک سکول کے لئے اور ایک گھر کے لئے۔ بچے گھر سے خالی ہاتھ سکول آیا کریں گے۔
سکول کے اندر طلباء کے طعام اور ریفریشمنٹ کا ایسا انتظام، جو صحت اور حفاظت کے تمام معیارات پہ پورا اترتا ہو۔

ان ماڈلز/تجاویز کی خامیاں:

ان ماڈلز کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر ڈے سکولز ایسے ہیں جو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے ان ماڈلز کو اختیار نہیں کر سکتے۔ اس کی بڑی وجہ ان سکولز کا بنیادی ڈھانچہ یا انفراسٹرکچر ہے۔
ان ماڈلز میں اس پہلوکو کلی طور پر نظرانداز کیا گیا ہے کہ جب طلبا گھر سے سکول اور سکول سے گھر آئیں گے تو اس دوران کیا حفاظتی اقدامات کیے جائیں گے۔ اور وہ کس حد تک قابل عمل ہوں گے؟ اور یہی بات سکول کے اساتذہ اور دیگر عملے کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔
طلباء کے والدین اورسکول انتظامیہ کو ہر وقت یہ خدشہ رہے گا کہ طلبا جو اپنے دن کا وقت مختلف جگہوں پہ گزارتے ہیں اور مختلف لوگوں سے ملتے ہیں، کس حد تک محفوظ ہیں۔
ان میں سے کسی بھی ماڈل یا انتظامات پہ عمل درآمد کے لئے ایک خطیر رقم درکار ہو گی۔ کیا تمام سکولز اتنی رقم خرچ کر پائیں گے؟ شاید کر پائیں۔ مگر اس کے لئے ان سکولز کو طلباء کی فی میں کافی زیادہ اظافہ کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں کیا والدین اتنی زیادہ فی اداء کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے؟
جہاں پہ سکولز پورے تعلیمی سال کے لئے بند کئے گئے ہیں، وہاں پہ بحث چل رہی ہے کہ ایسا کرنے سے طلباء پربہت منفی اثرات پڑیں گے۔ طلباء کا ایک قیمتی سال نہ صرف ضائع ہو جائے گا بلکہ ان باتوں کے خدشات بڑھ جائں گے کہ وہ کئی طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار نہ ہو جائیں یا پھرنصابی سرگرمیوں سے کٹ کے غیر مفید اورمنفی رجحانات کی طرف راغب نہ ہو جائیں۔

رہائشی سکولوں کا کردار:

درج بالا نکات کے تناظرمیں یہ بات واضح ہوتی نظر آتی ہے کہ وباء کے دوران اوربعد، طلباء کے لئے سب سے محفوظ جگہ رہائشی سکول ہی ہوں گے۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بعید نہیں کہ بالا طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ ڈے سکولز، طلباء کو رہائشی سکولز والی محدود سہولیات پیش کرنا شروع کر دیں۔ یہ بھی شنید ہے کہ کچھ سکولز خود کو فل ڈے سکول میں بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جہاں طلباء صبح سے شام تک سکول میں ہی رہیں گے۔ دپہر کا کھانا وہیں کھائیں گے اور سہ پہر کو اضافی ٹیوشن پڑھیں گے۔ بہرحال مابعد کرونا کے رہائشی سکولز کے معمولات بھی پہلے جیسے نہیں رہیں گے۔ اور درج ذیل قواعد پہ عمل درآمد کو یقینی بنانا پڑے گا:

مارننگ اسمبلی کےانعقاد کو وقتی طور پہ معطل کرنا ہو گا۔
کلاس روومز میں طلباء کی تعداد کم از کم نصف، تا کہ طلباء کے درمیان مناسب فاصلے کو یقینی بنایا جا سکے۔
طلباء اور دیگر کے پیدل آنے اور جانے کے لئیے مختلف رستوں کا تعین، تا کہ افراد کی رستے میں کراسنگ کو معدوم کیا جا سکے۔
میس میں طلباء کے کھانے پینے کے نئے قواعد کو متعارف کروانا۔ جیسے کھانے کی دو شفٹیں۔ یا میس میں نششتوں کی ترتیب میں تبدیلی تا کہ کھانے کے دوران بھی مناسب اورمحفوظ فاصلہ برقرار رہ سکے۔
ڈرومز میں اگر پہلے آٹھ طلباء رہتے تھے، تو اب وہاں چار سے زائد طلباء نہ ٹھہرائے جائیں۔ یا ہر بستر کے گرد کپڑے سے بنی حفاظتی دیوار کا انتظام کیا جائے ۔
حفظ ما تقدم کے طور پہ ہر رہائشی سکول کے اندر ایک قرنطینیہ مرکز کا قیام۔ تا کہ مشتبہ افراد کو فوری طور پہ وہاں منتقل کیا جاسکے۔

حکومت کا کردار
ابھی تک ہم نے جتنی تجاویز اورقواعد کی بات کی ہے ان پہ کلی عمل درآمد حکومتی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ بصورت دیگر تعلیم کا حصول صرف بالا طبقے کے بچوں کے لئے تو ممکن رہے گا مگر وباء کے دوران اور فوری بعد، متوسط اور زیریں طبقوں کے بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے ہوئے نظرنہیں آ رہے۔
 

 

M. Naveed Qamar
About the Author: M. Naveed Qamar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.