بس تھوڑا سا ہی فاصلہ

کچھ عرصے پہلے عید منانے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا ۔گاؤں کی طرف روانگی سے لیکر وہاں گزرے ہوۓ دن اور واپسی تک ایک عنوان جو وقتن فوقتن میری سوچو کا مرکز رہا ،وہ تھا زندگی اور موت کے درمیان کا فاصلہ ۔رستے میں ایک جانب پہاڑوں کا وسیع وعریض سلسلہ تو دوسری جانب کہیں دلکش وادیاں تو کہیں صرف گہری کھائیاں اور ان دونوں کے بیچ سڑک پہ دوڑتی ہوئ قراقرم ہائی وے پہ ہماری گاڑی ۔ رستے میں سفر کے دوران نجانے موت کا خیال زہن میں آتا رہا ۔ گاڑی میں کھڑکی کے ساتھ ٹیک لگاۓ میں دنیا اور دنیا میں مگن لوگوں پہ غور کرتی رہی ۔ان کے چہروں سے دنیا جھلک رہی تھی ،ان کے انداز سے دنیا محسوس ہورہی تھی ۔ سب اپنے ہی آپ میں مگن تھے،اپنے اپنے لیئے بناۓ ہوۓ دنیا میں جی رہے تھے اور ان کے الگ الگ الجھنوں میں پھنسے ہوۓ تھے ۔ رستے میں کہیں دور دور تک پھیلے خاموش اور پرسکون قدرتی مناظر تو کہیں ہر طرف نظروں میں سماتی ہوئی انسانی آبادیاں ۔ مٹی سے بنے ہوۓ انسانوں کے اپنے لیۓ بناۓ ہوۓ عارضی مٹی کے ٹھکانے ۔ کہیں نظر پڑنے پر عام سا سادا مکان تو کہیں وسیع وعریض رقبے پہ پھیلا ہوا عالیشان گھر ۔ پھران گھروں کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق تمام تر سہولتوں سے مزین کرنے والے وہ درحقیقت مٹی کے پتلے اور دوسری طرف ان کی دو دن کی عارضی زندگی ۔مگر ان کے لیۓ دنیا درحقیقت کیا تھی ؟ اور موت ؟ کیا کوئی تھا جسے اپنی موت کا انتظار تھا ؟یا پھر کوئی ایسا جسے موت کی تلوار اپنے سر پہ ہر وقت لٹکتی ہوۓ محسوس ہوتی ہو ۔ شاید ہاں۔۔۔ شاید نہیں ۔۔۔ رستے میں ایک کم عمر لڑکے پہ نظر پڑتے ساتھ نجانے مجھے ایک عورت کے زبان سے نکلنے والے وہ جملے یاد آۓ جو وہ اسی طرح کے ہی ایک لڑکے سے کہہ رہی تھی ۔وہ یہ کہ بیٹا! تم تو ابھی جوان جہان ہو ۔ابھی تو تمہارے آگے ایک لمبی زندگی پڑی ہے ۔دراصل لڑکے نے کسی بات پہ اپنی موت کا زکر چھیڑ دیا تھا ۔عورت کی بات سے میں نے بھی اتفاق کیا ۔ لڑکا ابھی جوان تھا وہ تو ابھی لڑکپن کی سیڑیاں چڑھ رہا تھا ۔اس کے بعد اس نے جوانی کے دہلیز پہ قدم رکھنا تھا ۔ پھر آگے ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعد کہیں جاکر بڑھاپے کی آخری منزل تک پہنچنا تھا ۔ پھر اس ادھیڑ عمری میں اولاد کے ہاتھوں اپنی خدمت گزاریاں کرانی تھی ،اپنے پوتا پوتیوں کے ناز نخرے بھی اٹھانے تھے ۔ پھر عمر کے اس آخری حصے میں کہ جب ہڈیاں کمزور ہوجاتی اور اس حد تک کمزور ہوجاتی کہ ان کے اندر بدن کو کچھ دیر کے لیۓ سیدھا کھڑا رکھنے کی بھی طاقت نہ رہتی ۔اور کہ جب جسم میں گوشت کی بھی اتنی کمی ہونے لگتی کہ سر تا پیر ہر جگہ ابھرے ہوۓ ہڈیوں سے وہ انسان سے زیادہ محظ ہڈیوں سے لدا ہوا ایک ڑھانچہ نظر آنا شروع ہوجاتا اور کہ جب اس کا پورا وجود کمزوری کے باعث لرزنا شروع کردیتا ۔تب جاکر کہی اس کا دھیان دنیا پر سے اٹھ جاتا ،تب جاکر کہی اسے اپنی موت کی تلوار اپنے سر پہ ہمیشہ لٹکتی ہوۓ محسوس ہونی لگتی اور تب جاکر کہی وہ اپنے ہاتھوں میں ہر وقت تسبیح کے دانے ایک کے بعد ایک گھماتے ہوۓ باقاعدہ اللہ کی یاد اور موت کا انتظار شروع کردیتا ۔ اور تب جاکر کہیں لوگوں کے اور خود اس کے دل میں اپنے کبھی بھی اس دنیا سے کوچ کرجانے کا یقین پیدا ہوتا ۔ مگر ابھی ؟ ابھی تو وہ جوان تھا ۔ہٹا کٹا صیحت مند نوجوان ۔ رستے میں ایک موڑ آنے پہ گاڑی کا رخ باۓ جانب موڑ دیا گیا ۔ موڑ کے عین سامنے ایک گہری کھائی تھی ۔ کھائی پہ نظر پڑتے ساتھ ایک اور انسان کا خیال زہن میں آیا ۔ سولہ ستارا سالہ وہ لڑکا جو کسی زمانے میں ہمارے ہی بیچ اٹھتا بیٹھتا تھا ہنستا مسکراتا تھا۔ جس کے رگوں میں بھی اپنے ہی جیسے باقی سبھی نوجوانوں کی طرح جوانی کا گرم خون دوڑ رہا تھا اور جس کا دل ہماری ہی طرح ہزارہاں خواہشوں ،خوابوں ،امیدوں اور امنگوں سے لبریز تھا ۔اس کے اور باقی سبھی لوگوں کی نظر میں اس کی زندگی اور موت کے درمیان ابھی کئی سالوں کا فاصلہ تھا ۔اس کی جوانی سے لیکر بڑھاپے تک کا سفر ابھی باقی تھا مگر کچھ سال پہلے بیٹھے بٹھاۓ ایک افسوسناک خبر کانوں تک پڑی کہ وہ نوجوان گاؤں سے آتے ہوۓ تیز رفتاری کے باعث موٹر سمیت اسی کھائی سے گر کر ہمیشہ کے لیئے موت کے آغوش میں چلا گیا ۔وہ وہی کھائی تھی جہاں سے ہم گزرے تھے ۔ اس کھائی پہ نظرے جماۓ میں یہی سوچتی رہ گئی کہ صرف ایک غلطی ،صرف اور صرف ایک غلطی اس کے سفر ذندگی کے اختتام کا باعث بنی ۔ اگر وہ غلطی نہ ہوئی ہوتی ،اگر اس نے وقت پہ ہینڑل گمایا ہوتا یا بریک دبایا ہوتا یا پھر سفر ہی ملتوی کردیتا تو وہ بھی آج ہم جیسے جیتے جاگتے سانس لیتے اوراپنے اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہوۓ انسانوں میں شامل ہوتا ۔ اس کھائي سے گزرتے ہوۓ پھر سوچا کہ یہ غلطی نہ سہی ،کوئی اور غلطی سہی ۔ایسی غلطی جو جا جا کر پھر سے اس کے موت کا سبب بنتی ۔اگر کوئی غلطی نہ بھی ہوتی تب بھی موت نے اپنے مقررہ وقت پہ آکرپھر بھی بیٹھے بٹھاۓ کسی نہ کسی انداز میں اسے جھکڑ لینا تھا۔ پھر اپنے گمان سے خود ہی کچھ اندازے لگاتے ہوۓ سوچنا شروع کردیا کہ اس کھائی سے گزرتے وقت موت ہم سے کتنا دور تھی؟ ۔ موت تو شاید ہمارے بھی اتنا ہی قریب تھی ۔ یہاں پر بھی تو کسی نہ کسی صورت میں صرف ایک غلطی کا فاصلہ تھا ۔مگر اس کے باوجود ہم اس رستے خیر و عافیت کے ساتھ گزر گۓ ۔ ۔پھر کھائی کے نظروں کے سامنے سے اوجھل ہوتے ساتھ ہی ان خیالوں کا سلسلہ بھی یہی اختتام پزیر ہوا۔اسی سفر کے دوران آگے جاکر ایک جگہ کچھ دیر کے لیۓ گاڑی رکی اور ۔گاڑی میں پھیلی خاموشی کچھ دیر کے لیۓ ٹوٹی ۔مگر اس دوران میری نظریں روڑ کے ایک جانب چند قدم کے فاصلے پہ موجود دریا کے خوفناک بڑے بڑے پتھروں سے ٹھاٹھے مارتے موجوں پہ تھی ۔ان موجوں پہ نظر پڑتے ساتھ پھر مجھے کچھ سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آیا ۔ایسا واقعہ جس کی خبر کانوں پہ پڑتے ساتھ ہی ہم سب کے روکھڑے کھڑے ہوگئے تھے ۔کچھ سال پہلے جب ہمیں پتہ چلا تھا کہ کچھ بہن بھائی سیر کرنے کے غرض سے ایسے ہی ایک دریا کہ کنارے پہنچے ۔پھر ایک بھائی کھیلتے کودتے دریا کے قریب گیا ،غلطی سے پیر پھسلا،پانی میں گرا ۔پھر سب ایک دوسرے کو بچانے کی ناکام کوشش کرتے ہوۓ ایک کے بعد ایک پانی کی نظر ہوگئے ۔پھر اسی طرح دریا کا پانی اپنے ساتھ ان کی زندگی بھی بہا کر لے گیا ۔لہروں کی تیزی اور پوری قوت کے ساتھ ان بڑے بڑے پتھروں سے ٹکرانا یوں محسوس کرہا تھا جیسے دریا کا پانی اس انداز میں اپنے غصے کا اظہار کرہی ہو ۔ایسا غم و غصہ جو اس کے ہثار میں آنے والے ہر جاندار سے لیکر بےجان کو اپنے لپیٹ میں لیلے ۔دوسرے الفاظ میں یہ کہ رستے کے ایک جانب زندگی تھی تو دوسری جانب لگ رہا تھا جیسے چند قدم کے فاصلے پہ موجود دریا موت کی نمائندگی کرہی ہو۔۔شاید ہی کوئی ایسا ہوتا جو ان تیز ترین اور خوفناک موجوں کے ہثار سے واپس اپنی زندگی اپنے ساتھ لیکر لوٹتا ۔یہاں پر بھی محسوس ہوا جیسے زندگی اور موت کے درمیان صرف چند قدموں کا اور ایک غلطی کا فاصلہ ہو۔مگر غلطی تو صرف بہانا ہے ۔موت تو اس دن سے سائے کی طرح ہمارے ساتھ موجود ہے جس دن ہم نے پہلی بار اس دنیا میں آنکھ کھولی ہے ۔پھر اس کے بعد موت الگ الگ شکلوں اورمختلف انداز میں ہمارے ارد گرد ہی موجود ہے مگر اس کے باوجود بھی ہم ایسے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جیسے ہم نےکبھی مرنا ہی نہیں اور اپنی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ زندگی اور موت کے درمیان تو درحقیقت بس تھوڑا سا ہی فاصلہ ہے اور یہ فاصلہ کب اور کسطرح طے ہوجاتا ہے ہمیں اس کا اندازہ بھی لگتا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہم موت کے آغوش میں جا پہنچتے ہیں ۔ ہم سب نے ایک نہ ایک دن جانا ہے ۔آج کسی اور کی باری تو کل کسی اورکی ۔موت کسی خاص عمر کی تو پابند نہیں ۔جس کی قسمت میں جتنا سفر لکھا ہے اس نے اتنا ہی زندگی کا رستہ طے کرنا ہے پھر رستے کے اختتام پہ موت ایک گہری کھائی کی شکل میں ہمارا منتظر ہے

 

NOORIN SHAFA
About the Author: NOORIN SHAFA Read More Articles by NOORIN SHAFA: 20 Articles with 19390 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.