درویش کے چہرے پر بلا کا نور تھا ایسے لگ رہا تھا جیسے
کوئی فرشتہ آسمان سے اتر آیا ہو اس کی گفتگو دل میں اترتی محسوس ہونے لگی
وہ بڑی متانت سے بولے جارہاتھا اگرمانگنے کا سلیقہ آتا ہو تو دعا کے لئے
ہاتھ اٹھنے سے پہلے ہی قبولیت کی مہر لگ جاتی ہے دراصل آج تک ہمیں مانگنے
کا سہی سلیقہ ہی نہیں آیا، ہم نے آنسو بہانا سیکھ لیاہے، وظائف سیکھ لئے ،
ہم نے لمبی چوڑی دعائیں سیکھ لیں، ہم نے نسبت کا سہارا بھی لے لیا، الٹی
سیدھی خواہشات کے حصول کے لئے شعبدہ بازوں کے پاس جانا وطیرہ بنالیا
اکثرلالچ یا دکھاوے کے لئے اﷲ کی راہ میں بھی بانٹتے ہیں چلو اس سے کسی کی
ضرورت تو پوری ہوجاتی ہوگی لیکن اﷲ کی راہ میں دینے کے لئے خلوص انتہائی
ضروری ہے ۔درویش نے دور کہیں خلاؤں میں گھورتے ہوئے کہا چلو یہ بھی سب اچھا
ہے، درست ہے بلکہ بہت عمدہ ہے۔میں بالکل بھی اِن سب اداؤں کی نفی نہیں کر
رہا ہوں تمام اچھی باتوں پرسر تسلیمِ خم کرتا ہوں لیکن یہ سب کچھ کرنے کے
باوجود بھی تیرے دل میں کہیں کہیں بیتابی اور خیالوں میں الجھے ہوئے خیال
باقی رہ جاتے ہیں تو میاں پھر اپنی اداؤں پر غور کی ضرورت ہے کیونکہ بات
نہیں بن رہی دل کو سو فیصد راحت اور سکون نہیں توثابت ہوا ہمیں اب تلک
حقیقی معنوں میں مانگنے کا سلیقہ ہی نہیں آیا ہم نے بظاہر خودکو پاک صاف کر
لیا، کپڑا اچھا پہن لیا، چہرہ خوبصورت بنا لیا، خوشبو عمدہ لگا لی، حتی کہ
سجدے بھی لمبے لمبے کر لئے ، نمازیں بھی پوری ادا کر لیں اور بالآخر حج بھی
کرلیا اب حاجی صاحب کے القاب سے پھولے نہیں سماتے ۔ درویش نے ایک گہری سانس
لے کر سامعین پر نظر دوڑائی پھرگویا ہوئے میاں پھر کہتا ہوں سب قبول ہے اور
اچھا دستورِ زندگی کے یہی تقاضے ہیں مگر ذرا غورکیا ہے کبھی تو نے اپنے
اندر بھی جھانکا ہے یقینا دل گواہی دے گا اپنے لئے اتنا سب کچھ کرنے کی
ضرورت بھی تھی یا اِس سے کم میں بھی بات بن سکتی تھی پھر جو تو نے کیا اس
میں خالص اﷲ کی رضا کے لیے کتنا تھا؟، کبھی مڑ کر پیچھے بھی تو دیکھ لے،
مگر تو کیوں دیکھے گا پیچھے ، تیرا تو پیٹ بھرا ہوا ہے تجھے کسی کے پیٹ پر
بندھے پتھر بھلا کیسے نظر آنے والا ہے۔پیٹ پر پتھر تو آقا ﷺ نے بھی باندھے
تھے اور جو جو کام اﷲ کے حبیب ﷺ نے ایک بار کر دیا ہے خدا کی قسم وہ مٹنے
والا نہیں ، اﷲ کے حبیب ﷺ کی ہرہر ادا مسلمانوں کو مجبوب ہونی چاہیے پیٹ پر
پتھرباندھنا بھی تو سنت ہے اور اب آپ کہیں گے ہر سنت پر آج کے دور میں
کیونکر عمل ہو سکتاہے ۔ یہ کہتے ہوئے درویش زارو قطار رونے لگا سامعین
حیران پریشان اسے تک رہے تھے پھر درویش نے اپنا دامن اٹھایا اس کے پیٹ پردو
پتھر بندھے ہوئے تھے اس نے آنسوؤں سے بھیگی داڑھی پر دونوں ہاتھ پھیرے حدِ
نظر پھیلے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا با خدا آج رزق کی فراوانی ہے اﷲ
ہمیں دنیاجہاں کی ہر نعمت عطافرماتاہے مگرپھربھی ناشکری ہماری نس نس میں
زہرکی طرح پھیل گئی ہے سوچتاہوں وہ کیا عالم ہوگا جب اﷲ کے حبیب ﷺ نے اپنے
جسم ِ اطہر پر دو دو پتھر باندھے تھے میں ان کی سنت زندہ کرنے کے لئے کبھی
کبھار پیٹ پر پتھرباندھتا ہوں دو دن کا فاقہ تو دو پتھر۔۔ رکھنے کو تو روزے
بھی رکھے جاسکتے ہیں لیکن پھر کیسے احساس ہوتا کہ رحمت ِ عالم ﷺ فاقے سے
تھے مگر آج اس فلسفہ کو کون دیکھے، کون سمجھے ؟ حالانکہ آج کے دور میں
فاقوں سے اتنے لوگ نہیں مرتے جتنے بدہضمی سے مرجاتے ہیں ، وہ نظر کوئی کہاں
سے لائے ، چونکہ بھرے پیٹ ایسا ماجرا تو نظر آنے والا نہیں ہے، جب وہ نظر
ہوگی جب وہ مانگنے کا سلیقہ ہوگا ، مانگنے کے سلیقے کا صحیح مطلب یہ ہے کہ
جس جس کا جو جو حق چاہتے نا چاہتے آپ کے پاس کیسے بھی آ گیا ہے تو واپس
لوٹا دو، قرضوں کو فی الفور ادا کیاکرو، پڑوسی کو عزت دو ، اسکا اکرام کرو،
بھائی کو بھائی مان لو، بہن کو اور بیٹی کو اس کا حق فوراً دے دو یہی
تمہارے حق میں بہترہے ، اﷲ کی مقرر کردہ حدود کے قریب بھی مت بھٹکو ورنہ
تمہاراشمارحد سے تجاوزکرنے والوں میں ہو گا اور تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گا
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ زنا، قتل، شراب، چوری،حق تلفی،بدزبانی اور
دیگر جتنے بھی بے حیائی والے کام ہیں ان سے توبہ کرلو کیا تمہیں یادنہیں
اِن سب باطل کاموں کی ابتدا جھوٹ ہے بلکہ مذاق میں بولا گیا جھوٹ بھی گناہ
ہے، خیر باتوں سے بات نکلتی نکلتی کبھی کس رخ کو جاتی ہے کبھی کس رخ کو
مجھے خود بھی نہیں پتہ مگر بات شروع کرنے سے پہلے یہی نیت کی تھی کہ اﷲ
مجھے وہ بات کہنے کی توفیق دے جو اس کے بندوں کے حق میں بہتر ہو، میں آج
تمہیں ایک راز کی بات بتاؤں اﷲ تبارک تعالیٰ سے مانگنے کا صحیح اور سو فیصد
طریقہ یہ ہے کہ اپنے والدین کو راضی کر لو پھر ان کے وسیلہ سے اﷲ سے مانگو
یقینا یہ دعا ردنہیں ہوسکتی والدین جیسے راضی ہوتے ہیں ان کو راضی کر لو وہ
تمہاری تھوڑی سی توجہ سے خوش ہوجائیں گے ان کے پاس تو بیٹھا کرو جیسے بچپن
میں وہ تمہیں خوش کیا کرتے تھے آج ان کو خوش کرنے کیلئے کبھی کبھار ان کی
پسندکی کوئی چیز لے آیا کرو اس کے بدلے میں تیرے والدین اتنی دعائیں دیں گے
کہ اﷲ پاک تمہاری ہر دعا شرف ِ قبولیت بخشے گا۔ کبھی غورکرو آج ہم دنیا کے
مشغلوں میں اس قدرگم ہو گئے ہیں ہم اپنے آپ کو ہی کھو بیٹھے ہیں کبھی خود
کو بھی تلاش کر اسی میں عافیت ہے تیرا با پ جنت کا دروازہ ہے اور جنت تیری
ماں کے قدموں میں پڑی ہے اور تو مورکھ در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرتاہے اور
لوگوں سے جنت کا پتہ پو چھتا پھرے یہ انصاف تو نہیں ہے والدین راضی ہونگے
تو اﷲ راضی ہوگا ، اﷲ راضی ہوگا تو جگ راضی ہوگا،اور سنو اﷲ کی مخلوق کو
معاف کرنا زندگی کا شعاربنالو معاف کرنا اﷲ کی شان ہے اس عادت کے طفیل اﷲ
تمہاری غلطیوں،کوتاہیوں اور گناہوں کو معاف کرے گا یقین جانو دعاؤں کی
قبولیت کا یہ ایک مجرب نسخہ ہے۔ دعاہے ا ﷲ ہمیں اپنے والدین کو ہمیشہ راضی
رکھنے کی توفیق عطاکرے اور اپنی اور اپنے حبیب ﷺ کی محبت عطا فرما ئے سب
صدق ِ دل سے کہیں آمین
|