پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان پریس پی آئی بی کالونی
کراچی کی وسیع و عریض عمارت قائم ہے اس کے جنرل مینیجر مظفر علی چانڈیو نے
پچھلے کئی سالوں سے اس عمارت میں قائم مسجد میں اذان اور نماز پر پابندی
لگا رکھی ہے اذان کے متعلق موصوف کا کہنا ہے کہ اس سے لوگوں کے آرام میں
خلل واقع ہوتا ہے جبکہ نماز کیلئے یہ حضرت فرماتے ہیں لنچ کے وقفہ میں جس
نے پڑھنی ہے اپنے طور پر پڑھ لے ،حاصل کردہ مسجد کی حاصل کردہ تصاویر سے
پتہ چلتا ہے کہ ایک عرصہ سے بند ہونے کی وجہ سے مسجد میں ہر طرف مٹی دھول
اور کچرے کا ڈیرہ ہے انہی صاحب کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ پرنٹنگ پریس
کی عمارت سے ملحقہ پریس کواٹرز کی حدود میں چالیس سال سے قائم مسجد مدرسہ
پہلے شہید کروا چکے ہیں۔ان صاحب کی شخصیت کے متعلق تھوڑی سی تحقیق کے بعد
ہمیں پتہ چلا کہ مظفر علی چانڈیو صاحب اسلام دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ
پاکستان دشمن بھی ہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان پریس
کے ایک قومی وفاقی ادارہ ہونے کے باوجود یہ اس کی عمارت پر قومی پرچم
آویزاں ہونے نہیں دیتے ثبوت کے طور پر ہم نے پرچم کیلئے لگائے گئے پائپ کی
پرچم کے بغیر تصاویر بھی منسلک کی ہیں ادارے کے ملازمین کے مطابق مظفر علی
چانڈیو کا ادارے کے ملازمین کے ساتھ سلوک بھی انتہائی ناروا ہے یہ حضرت
اپنی ملازمت سے برطرف ہونے کے بعد عدالتی اسٹے پر اپنی کرسی پر براجمان ہیں
لیکن کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ یہ صاحب دو چار ملازمین کے ساتھ بدسلوکی
نہ کرتے ہوں۔اس صورتحال میں عوام وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتے
ہیں کہ پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان پریس کی بے آباد مسجد کو فوری آباد کیا
جائے اور مظفر علی چانڈیو جیسے اسلام اور ملک دشمن آدمی کو برطرف کرکے اس
قومی وفاقی ادارے کو اس سے نجات دلوائی جائے ٍّیقین ہی نہیں آتا یہ جب کچھ
اس ملک میں ہورہاہے جسے دنیا اسلام کا قلعہ سمجھتی ہے ہم پاکستان کے محب
اسلام و وطن لوگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس آواز کو زیادہ سے زیادہ بلند
کریں تاکہ یہ آواز فوری طور پر ارباب اقتدار تک پہنچے اور اذان اور نماز
کیلئے بند کی گئی مسجد کے کھلنے کے ساتھ مظفر علی چانڈیو جیسی ذہنیت کے لوگ
اپنے انجام کو پہنچے۔
ہم ان کے مقروض ہیں
جرمنی کی ڈاکٹر روتھ فاؤ جنہوں نے سال 1956ء میں کسی اخبار میں پڑھا کہ
پاکستان میں لوگ (جذام) کوڑھ کے مرض میں مبتلا اپنے سگے رشتہ داروں کو
ویرانے میں پھینک آتے ہیں۔ اور ان مسخ شدہ زندہ لاشوں کو جن کے ہاتھ پاؤں
گل گل کر جھڑنے لگتے ہیں۔ وہ کسی سے مل سکتے ہیں نہ کوئی انہیں ملنے جاتاہے
مخیر حضرات کے تعاون سے ان کو خوراک جانوروں سے بھی بدتراندازمیں ملتی ہے
جانوروں کی طرح روٹیاں دور سے پھینک کر دی جاتی ہیں۔ جن کی مٹی صاف کر کے
وہ جانوروں کی طرح کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان شمار زندہ افراڈ میں ہوتاہے
نہ مردوں میں قریبی رشتہ دار بھی خوف کے مارے نہیں ملتے یہ پڑھ کر اس عظیم
مسیحی عورت نے اپنے محض 30 سال کے عہد شباب میں اپنا خود کا ملک چھوڑا اور
پاکستان آئی۔ یہاں جگہ جگہ لیپروسی سنٹر (کوڑھ خانہ) قائم کئے۔ لیکن وسائل
کی کمی آڑے آگئی ڈاکٹر روتھ فاؤ واپس جرمنی گی اور وہاں کی سڑکوں پر بھیک
مانگی مخیرحضرات سے مالی تعاون حاصل کیا کچھ این جی اونے ان کی سرپرستی کی
پھر پاکستان آئی تو یہاں کی ہی ہو کے رہ گی۔
یہ مسیحی عورت ان کوڑھیوں کو گلے لگاتیں، مرہم پٹی کرتیں، پیار دیتی، یہ
ایدھی سے پہلے خواتین کی ایک ایدھی تھی۔ انکی جوانی کی اور پاکستان کی
تصویر آپ کے سامنے ہے۔
کچھ اچھا کر جائیں
ایک مٹی کا گھڑا چالیس دنوں تک تین سے چار فٹ کے احاطے کو تر رکھتا ھے.اس
تکنیک کو ایگریکلچر کی تعلیم میں " Clay Pot Picture Permaculture Exp"
کہاجاتا ہے۔ سو یا ڈیڑھ سو روپے کا ایک گھڑا لے کر پانی کا بھر کرگردن تک
اسکو مٹی میں برابر کردیں. اور پھر گھڑے کے دائرے کے چاروں اطراف میں چار
نیم یا کوئی اور پودے لگا دیں۔
چالیس دن بعد گھڑا دوبارہ بھردیں۔ یہ دیسی ڈرپ ایریگیشن سسٹم پودے کو اپنی
ضرورت کا پانی اسکی جڑ تک دیتا رہے گا یہاں تک کہ وہ تنا بنانے لگے۔ چھ ماہ
میں صرف پانچ مرتبہ گھڑے کو پانی سے بھریں۔ صحراؤں میں، سڑک کنارے یا وہ
جگہیں جہاں پانی کم ہے یا وہ جگہ کہ جہاں آپ پودے خرید کرلگانے کی ذمہ داری
تو اٹھا سکتے ہیں مگر پانی دینے کی دیکھ بھال آپ کے بس سے باہر کا کام ہے
جو سب سے بڑی مصیبت ہے۔ فٹ پاتھ کنارے، صحن میں، گلی میں، محلے میں قطاروں
میں چار فٹ کے فاصلے میں پانی سے بھرے گھڑے دباتے جائیں اور پودے لگاتے
جائیں۔
سرسبز پاکستان ____ شاداب پاکستان نسلِ نو پر احسان صاف ستھرا ماحول کی
بدولت ہی ممکن ہے۔
دل کی باتیں دل والے ہی جانیں |