یوم شہدائے جموں اور انسانیت کا قتل عام!

کشمیر کی آزادی کی تحریک میں یوں تو ہر دن ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ گذشتہ کئی دہائیوں میں قابض بھارتی حکمرانوں نے کشمیری عوام کے خلاف لگ بھگ ہر ہفتے،عشرے بعد کوئی نہ کوئی ایسا ظلم ڈھایا ہے، بدترین جبری کرفیو، انسانی المیے کا خطرہ، اقوام متحدہ کے قوانین کے دھجیاں اڑاتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، ڈومیسائل کا غیر قانونی اجراء اور پھر لیکن حال ہی میں ایک بچے کی نانا کی لاش پر تصویر نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے۔جس کو فراموش کرنا ک بس کی بات نہیں مگر پھر بھی کچھ دن اور تاریخیں اس حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔13جولائی پوری دنیا کو کشمیر کی تاریخ کے، سیاہ ترین دن 13جولائی1931 ء کی یاددلاتاہے۔ یہ دن،کشمیر پر غیرملکی قابض ہندو سامراج اور ہندوتوا کے تاریخی، انسانیت دشمن بھیانک چہرے کوبے نقاب کرتا ہے۔ 1931ء کی ریاستی دہشت گردی، جذبہ حریت سے سرشار مظلوم کشمیریوں کی ناقابل یقین اورناقابل فراموش قربانیوں کی یاد، دلاتی ہے۔

جموں کے میدانوں میں مکئی کی فصل کھڑی تھی، سری نگر اور دیگر علاقوں سے سیب اور خشک میوہ جات بھی جموں کے بازاروں میں آنا شروع ہوگئے تھے۔ گجر برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی فصلوں کا پھل سمیٹنے کو تیار تھے۔ چنار کے سبز پتوں کا زردی میں تبدیل ہونے کا ابھی آغاز ہوا ہی تھا کہ دفعتا جموں کے نواحی علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ تیار فصلیں کسانوں کے لہو سے رنگین ہونا شروع گئیں۔ گاؤں کے گاؤں اجڑنا شروع ہوگئے۔ یہ سب اتنی چالاکی اور مہارت کیساتھ کیا گیا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوئی۔عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق 1947 میں دولاکھ سے زائد کشمیریوں کو قتل کردیا گیا۔ اس بہیمانہ قتل عام کی انسانی تاریخ میں کہیں نظیر نہیں ملتی۔

مسلمانوں کے گھروں کو جلانے کا سلسلہ اکتوبر 1947 ہی میں شروع ہوگیا تھا،ڈوگرہ سپاہیوں اور ہندو انتہا پسندوں نے مسلم مردوں کا قتل عام کیا جبکہ عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔بھارتی فوج، گورکھا رجمنٹ اور ہندو بلوائیوں کے ظلم کا نشانہ جموں، کٹھوعہ، اودھم پور، ریاسی اور دیگر علاقوں کے کشمیری شامل تھے۔ 1947 سے قبل جموں میں 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی، لیکن اس قتل عام کے بعد مسلمان اقلیت میں بدل گئے۔ جموں کے 123 دیہاتوں میں مسلم آبادی کی اکثریت تھی، ان تمام دیہاتون کو ملیا میٹ کردیا گیا۔ ضلع کٹھوعہ میں مسلمانوں کی پچاس فیصد آبادی کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ گجر برادری سے تعلق رکھنے والیہزاروں افراد رام نگر میں بربریت کی بھینٹ چڑھے۔ رائے پور گاؤں کو مکمل طور پر راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا۔ جموں، اکھنور، راجپورہ، چینی، ریاستی، کھٹوعہ، سانبہ، اودھم پور، مسلمانوں کی متقل گاہیں بن گئیں۔ یہی عمل کوٹلی میر پور اور دوسرے علاقوں میں دہرایا گیا۔ مواضعات، بیر نگر، سلنی، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل اکتوبر کے مہینے میں شروع ہو چکاتھا۔ مسلمان پولیس آفیسرز کو گھر بھیج دیا گیا جبکہ مسلم فوجیوں سے اسلحہ بھی لے لیا گیا۔ اسی طرح جموں کینٹ میں تعینات مسلم بریگیڈئر کی جگہ ہندو ڈوگرہ افسر کو تعینات کردیا گیا۔ مسلمان غریب الوطنی کا شکار ہوگئے، ریاستی اداروں میں مسلمانوں کی حیثیت مہاجروں جیسی تھی، ڈپٹی کمشنرکے دفاتر بھی آر ایس ایس کے حوالے کردئیے گئے۔ مہاراجہ پٹیالہ یادوندرا سنگھ نے فوجی جتھوں کو جموں بھیجا جنہوں نے مسلمانوں کا بے دردی کیساتھ قتل عام کیا۔

بھارتی فوج، ہندو انتہا پسندوں اور سکھ رجمنٹ کے مظالم کا عملی مشاہدہ کرنے کیلئے بھارتی وزیر داخلہ سرداروالبھائی پٹیل، وزیر دفاع بلدیو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ خود جموں آئے۔ انہوں نے کمال مکاری کیساتھ مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کا لالچ دیا۔ 5نومبر کو جموں سے مسلمانوں کوٹرکوں میں لادا گیا۔ مگر اسے چیت گڑھ سیالکوٹ لے جانے کی بجائے کھٹوعہ روڈ پر لے جایا گیا۔ یہاں مسلمان مہاجرین کی بسوں پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا اور ماوا کا مقام مسلمانان جموں کیلئے قتل گاہ بن گیا۔ اس قافلے میں کم از کم 4 ہزار افراد شامل تھے، لیکن شہر میں اس قتل عام کی خبر تک نہ ہوئی۔ دوسرے روز 6 نومبر کو یہ کہانی پھر دہرائی اس روز 70 ٹرکوں میں لوگوں کو بٹھایا گیا اور اس روز سب سے زیادہ خون بہایا گیا۔ یہ سانحہ ستواری کے علاقہ میں پیش آیا۔

7 نومبر کے قافلہ میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ان سے“نازیت”کی روح بھی کانپ اٹھی اور شیطان نے بھی اپنا چہرہ چھپا لیا۔۔شہداء جموں کی اس تاریخی شہادت اور جبر و ظلم کے اس وقعہ پر جناب ایم کے نقشبندی اور ممتاز کشمیری مورخ جناب رشید ملک نے قومی جرائد میں بہت دفعہ لکھا ہے۔اکتوبر کے آخری ہفتہ اور 6,5نومبر 1947ء کے دوران ڈوگروں اور سکھوں نے تین لاکھ سے زائد کشمیریوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا اور قریباً پانچ لاکھ کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا۔یوم شہداء جموں کے حوالہ سے برطانوی مورخ ایسٹر لیمپ نے اپنی کتاب مستند حقائق کے حوالہ سے انکشاف کیا کہ پنجاب سے ہندؤں اور سکھوں کے خونی جھتے جموں داخل ہوگئے جنہوں نے وحشیانہ قتل وغارت گری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دولاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا اور لاکھوں لوگوں کو مغربی پنجاب (پاکستان) کی طرف دھکیل دیا۔برطانوی اخبار ڈیلی دی ٹائمز لندن نے اس قتل عام کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ سب ڈوگرہ راج کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد سے صرف 5 دن قبل شروع کیا گیا۔ جبکہ اس قتل عام کے 9 دن بعد مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کردیا۔اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئن سٹیفن نے اپنے کتاب میں لکھا کہ خزاں 1947 کے اختتام تک تقریب 2 لاکھ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ ایک اور صحافی ہوریک الیگزینڈر کے مطابق جموں کے مسلمانوں نے پاکستان کی خاطر اپنی زندگی، دولت، رشتہ دار اور جذبات قربان کئے۔

1947 میں شروع ہونے والا کشمیری مسلمانوں کا قتل عام آج تک نہیں تھم سکا۔ ایک معصوم بچے کی تصویرجس نے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھا دیا،وہ مقبوضہ کشمیر کے 3سالہ عیاد کی تھی جس کے 60 سالہ نانا بشیر احمد کو سوپور میں ایک ناکے پر موجود بھارتی سیکورٹی اہلکاروں نے گاڑی سے اتارکر بچے کے سامنے گولیاں مارکر شہید کردیا، خوفزدہ سہما ہوا ننھا عیاد اپنے نانا کی لاش پر بیٹھا پوری دنیا کو دکھائی دیا۔پھر اقوام عالم کا ضمیر نہ جاگ سکا۔

کشمیری آج بھی قابض بھارتی افواج کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ وہ آج بھی بھارتی فوج کی گولیوں کانشانہ بنتے ہیں اور پاکستان کے پرچم میں دفن ہونا اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت ستر سالوں سے جاری انسانیت کے قتل عام کو روکنے کیلئے کردار ادا کریں۔
 

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 185 Articles with 141758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.