کورونا وبا کی بابت کچھ لوگ بہت زیادہ احتیاط پر زور دیتے
ہیں تو کچھ تقدیر پر قناعت کے قائل ہیں ۔ صحابہ کے درمیان بھی 18 ہجری کے
اندر بپا ہونے والےعمو اس کی وباء کے دوران ایسا اختلاف رونما ہوا تھا لیکن
جس طرح آج کل احتیاط والوں کو بزدل اور مخالفین کو احمق سمجھا جاتا ہے
ایسی کیفیت وہاں نہیں تھی۔ دورِ فاروقی میں جب شام، مصر اور عراق کے اندر
وباپھیلی توحضرت ابوعبیدہؓ کی قیادت میں مسلمانوں کی بہت بڑی فوج مقیم
تھی۔امیر المومنین نے اپنی فوج کی خبر گیری کےلیے خود رختِ سفرباندھا
اوروہاں جاکر مہاجرینو انصار کے ساتھ مشورہ فرمایا۔ رائیں مختلف تھیں لیکن
مہاجرین فتح نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں۔ حضرت
عمرؓ نے حضرت عباسؓ سےاگلے دن کوچ کا اعلان کروادیا۔ اس پرحضرت ابو عبیدہؓ
نے کہا:’’ اے عمر ! تقدیر الٰہی سے بھاگتے ہو‘‘ ۔ توجواب دیا :’’ ہاں تقدیر
الٰہی سے بھاگتا ہوں مگر بھاگتا بھی تقدیر الٰہی کی طرف ہوں‘‘ اور مدینہ
لوٹ گئے لیکن اپنے سپہ سالار کو معزول نہیں کیا ۔ کشادہ دلی کے ساتھ اختلاف
کو انگیز کرنے کی یہ بہترین مثال ہے۔
مدینہ آکر ابو عبیدہؓ کو بلوا بھیجا تو انہیں خیال ہوا وبا کے خوف سے
بلایا جارہا ہے۔ جواب دیا جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ہو گا۔ میں مسلمانوں
کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے یہاں سے ٹل نہیں سکتا۔ حضرت عمرؓ خط پڑھ
کر روئے اور لکھا کہ ’’ فوج جہاں اتری ہے وہ نشیب اور مرطوب جگہ ہے، اس لئے
کوئی عمدہ مقام تجویز کر کے وہاں اٹھ جاؤ۔‘‘اس حکم کی تعمیل میں حضرت
ابوعبیدہؓ نے صحت افزاءجابیہ میں جا کر مقام کیا ۔ یہ اطاعت ہے کہ جتنا
احتیاط ضروری تھا کیا۔ نہ ہر بات کی تائید اورنہ ہر حکم سے انکار کیا
۔جابیہ میں حضرت ابو عبیدہؓ بیمار ہوئے تو انتقال سے قبل معاذ بن جبلؓ کو
جانشین مقرر کیا ۔ اس وقت حضرت عمرو بن العاص ؓ نے کہا کہ یہ وبا بنی
اسرائیل پر مصر میں نازل ہونے والی بلاوں میں سے ہے اس لئے یہاں سے بھاگ
چلنا چاہئے۔ حضرت معاذؓ نے سنا تو منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا کہ یہ وباء بلا
نہیں بلکہ اللہ کی رحمت ہے۔ خطبہ کے بعد خیمہ میں آئے تو بیٹے کو بیمار
پایا۔ نہایت استقلال کے ساتھ کہا: ’’ اے فرزند! یہ اللہ کی طرف سے ہے، دیکھ
شبہہ میں نہ پڑنا‘‘ بیٹے نے جواب دیا: ’’ اللہ نے چاہا تو آپ مجھ کو صابر
پائیں گے‘‘ یہ کہہ کر انتقال کرگئے۔ حضرت معاذؓ بیٹے کو دفنا کر آئے تو
خود بیمار پڑے۔انہوں اختلاف رکھنے والے عمرو بن العاصؓ کو اپنا خلیفہ مقرر
کیا ۔ اس کو اعلیٰ ظرفی کہتے ہیں ۔
حضرت عمرو بن العاصؓ نے کمان سنبھالنے کے بعد خطاب کرکے کہا وبا آگ کی طرح
پھیلتی ہے۔ اس لئے تمام فوج کو پہاڑوں پر جا رہنا چاہیے۔ ان کی رائےکو بعض
صحابہؓ نے مسترد کیا تاہم حضرت عمروؓ نے اپنی رائے پر عمل کیااور فوج ان کے
حکم کے تعمیل میں پہاڑوں پر پھیل گئی ۔ اسسوشیل ڈسٹنسنگ سے وباء کا زور ٹوٹ
گیا۔ اس وباءمیں 25 ہزار مسلمان جن میں حضرات ابوعبیدہؓ، معاذ بن جبلؓ،
یزید بن ابی سفیانؓ، حارث بن ہشامؓ، سہیل بن عمروؓاور عتبہ بن سہیلؓ جیسے
بڑے صحابہ نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا لیکن وہ کسی سازشی تھیوری کا شکار نہیں
ہوئے ۔ قیامت خیز وباء نےاسلامی فتوحات کوعارضی طورپرروک دیا ۔ ہزاروں بچے
یتیم اور خواتین بیوہ ہو گئیں۔ حضرت عمرؓ نے ان حالات میں پھرسے حضرت علیؓ
کو مدینہ میں جانشین بناکرشام کاقصد کیا۔ اور اکثر اضلاع میں قیام کر کے
فوج کی تنخواہیں اور وبائی مہلوکین کے وارثین کو میراث دلائی۔آسمانی آفات
ووباء کا مقابلہ اس طرح میدان عمل میں اتر کیا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جس
اعلیٰ ظرفی ، کشادہ دلی ، جوانمردی اور حکمت و فراست کے ساتھ وبا کا مقابلہ
کیا وہ تاقیامت عالمِ انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ ہم لوگ حضرت عمر ؓ سے
متعلق گاندھی جی کا مقولہ تو خوب نقل کرتے ہیں لیکن ان کی پیروی کم ہی کرتے
ہیں؟
|