حضرت مولانا ڈاکٹر کلب صادق


ڈاکٹرکلب صادق ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر،مفکر،مصلح، ماہر تعلیم اور مبلغ۔وہ اسلام کے لیے جامع براہ راست تشریح کے لیے جانے جاتے ہیں۔وہ لکھنؤ، اتر پردیش کے ایک انتہائی معزز شیعہ خاندان خواندہ ٔاجتہاد میں۲۲؍جون ۱۹۳۹؁ کو پیدا ہوئے تھے۔آپ کے والد کلب حسین اپنے وقت کے شہرت یافتہ اسلامی اسکالراور مبلغ تھے۔مولانا کے بھائی مولانا کلب عابد بھی اسلامی اسکالر اور مبلغ تھے۔ان کے بیٹے مولانا کلب جوادہیں جو مولانا کلب صادق کے بھتیجے ہیں۔مولانا کلب صادق ماہ محرم میں زیادہ ترلکچر دینے کے لیے متعددممالک کا دورہ کر چکے ہیں۔ہرماہ محرم میں مجلسیں پڑھنے یا مجالس کی صدارت کرتے ہیں۔

مولانا کی ابتدائی تعلیم مشہور مدرسہ سلطان المدارس میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے اور وہاں انھوں نے عربی ادب میں پی․ایچ․ڈی․ کیا۔ عربی کے علاوہ مولانا کو اردو،فارسی،انگریزی اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔وہ ایک ماہر مساوات ہیں اور اسلامی تعلیمات سے متعلق لکچر دینے کے لیے انھوں نے پوری دنیا کا سفر کیا ہے۔ان کے پرستاروں میں تمام مذاہب کے پیروکار بھی ہیں۔اگر چہ ان کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے لیکن وہ تمام اسلامی فرقوں میں یکساں طور پر قابل احترام ہیں اور بھارت کی سب سے بڑی سماجی و مذہبی تنظیم ’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں۔

آج مولانا ڈاکٹر کلب صادق کو ہندو اور مسلمانوں، شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ایک بڑے داعی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔پر امن بقائے باہمی ان کی زندگی کے بنیادی اصولوں میں سے ایک رہا ہے۔ اس سے پہلے لکھنؤ شیعو اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ تشددکے لیے جانا جاتا تھا خاص طور پر محرم کے دنوں میں۔لیکن ڈاکٹر کلب صادق کے اقدام اور مستقل کاوشوں سے دونوں جماعتوں کے مابین اعتماد سازی کے متعدد اقدام اٹھائے گئے ہیں اور خدا کے فضل و کرم سے حالت بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ 70کی دہائی کے وسط میں جب مولانا ڈاکٹر کلب صادق نے مسلم عوام کی مذہبی و سماجی قیادت میں قدم رکھاتو وہ معاشرے کی قابل رحم حالت سے متاثر ہو گئے۔

مسلم کمیونٹی تمام شعبوں میں پسماندہ تھی اور وہ نا خواندگی، غربت اور جہالت کے اندھیروں میں گھری ہوئی تھی۔انہوں نے بہت غور و فکر کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی اصل وجہ تعلیم اور علم سے دوری ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر کلب صادق نے تعلیم اور علم کو جدید خطوط پر پھیلانے کا عزم کیا اور ناخواندگی اور لا علمی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی۔یہ ان کی زندگی کا مقصد بن گیا۔انہوں نے معاشرے میں تعلیمی تحریک شروع کی اور جہالت کے اندھیروں کودور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۱۸؍اپریل ۱۹۸۴؁کوانہوں نے ضرورت مند اور غریب طلباء کو تعلیمی امداد اور وظائف دینے کے لیے’توحید المسلمین ٹرسٹ(TMT) قائم کیا۔

۲۷؍سالوں کی مدت میں ٹرسٹ اب پورے بھارت میں بہت سارے اسکول، کالج، تکنیکی انسٹی ٹیوٹ،خیراتی اسپتال، مفت تعلیم کے پروگرام چلا رہا ہے اور پانچ ہزار کے قریب طلباء کو وظائف مہیا کرا رہا ہے۔وظائف کی رقم ہزار واں سے لیکر لاکھوں تک ہوتی ہے۔ان برسو کے عرصہ میںT.M.T.کے وظائف کے ہزاروں فائدہ اٹھانے والے اب ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔

مولانا ڈاکٹر کلب صادق خاص طور پر’’ T.M.T'sمفت تعلیم پروگرام‘‘ کے ساتھ منسلک ہیں جو ہمارے معاشرے کے انتہائی مستحق اور پسماندہ طلبہ کومعیاری تعلیم، آمدورفت،یونیفارم،اسٹیشنری، کتابیں وغیرہ بالکل مفت فراہم کراتا ہے۔اس پروگرام کے تحت لکھنؤ، الہ آباد، جونپور،علیگڑھ، مراد آباد،جلال پور،بارہ بنکی وغیرہ جیسے بھارت کے مختلف شہروں میں تقریباً 4000طلبا معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

اس پروگرام کے تحت ڈاکٹر کلب صادق نے لکھنؤ میں ایک مکمل مفت تعلیمی مرکز قائم کیا ہے جو’ یونٹی مشن اسکول‘ کے نام سے جانا جاتا ہے یہاں 1800طلبا زیر تعلیم ہیں اور ان کے تمام اخرجات بشمول کتابیں،کاپیاں اور یونیفارم TMTمہیا کراتی ہے۔

اس پروگرام کے طلبا اپنے والدین کی ذہنیت کو بدل رہے ہیں اور اس طرح ہمارے معاشرے کی مجموعی حالت میں ایک بہت بڑا فرق آرہا ہے۔

یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی جا سکتی ہے کہ سر سید احمد خاں کے بعدکسی بھی مسلم رہنما نے، مسلم معاشرے میں جدید تعلیم اور سائنسی مزاج پھیلانے کی اتنی کوشش نہیں کی جتنی ڈاکٹر کلب صادق نے کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ڈاکٹر کلب صادق کو دوسرا سر سید کہنے لگے ہیں۔

ڈاکٹر صادق کی قابل رہنمائی اور نگرانی میں چلنے والی تعلیمی،رفاہی اور تعمیری منصوبوں میں شامل ہیں:
۱) توحیدمسلمین ٹرسٹ
۲) یونٹی کالج ، لکھنؤ
۳) یونٹی مشن اسکول ،لکھنؤ اور
۴) یونٹی انڈسٹر یئل ٹریننگ سنٹر، لکھنؤ
۵) یونٹی پبلک اسکول، الہ آباد
۶) ایم․یو․کالج ،علی گڑھ
۷) یونٹی کمپیوٹر سنٹر، لکھنؤ
۸) حنا چیریٹبل ہاسپٹل، لکھنؤ
۹) توحیدالمسلمین میڈکل سنٹر،شکار پور
۱۰) توحیدالمسلمین بیواؤں کی پنشن اسکیم
۱۱) توحیدالمسلمین یتیموں کی تعلیم کا بندوبست
۱۲) یونٹی فری ایجوکیشن پروگرام لکھنؤ، جونپور، جلالپور،الہ آباد، بارہبنکی، مراد آباد اور علی گڑھ۔
۱۳) حضرت مولانا کلب صادق’ایرا میڈکل کالج ‘ کے صدر اور جنرل سکریٹری آف آل انڈیا شیعہ کانفرنس۔ اس کے علاوہ وہ انجمن وظیفیہ سعادات مومنین کے ممبر بھی ہیں۔

اتنا فلاحی کام کرنے والا شخص کوئی عام انسان نہیں ہے ، بے پناہ خوبیوں کے مالک ہیں۔کسی بھی شخص کی صلاحیت پرکھنے میں ان کو کچھ تھوڑا سا ہی وقت لگتا ہے۔اگر مولانا نے یہ سمجھ لیا کہ یہ شخص ان کے یا سوسائٹی کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے تو وہ کسی بھی صورت میں اس کو اپنا لیں گے یہ چیز وہ ایک میٹنگ میں ہی طے کر لیتے ہیں اور اس کو اپنے مشن میں شامل کرنے کے لیے برابر ملاقات کرتے رہیں گے۔ اگر انھوں نے سمجھ لیا کہ فلاں شخص مشن کے لیے مناصب نہیں ہے تو پھر وہ اس سے ملاقات بھی نہیں کریں گے۔حضرت مولانا کی خدا داد مردم شناسی کا نتیجہ ہے ان کے پاس کار آمد لوگ ہی ہیں، بیکار لوگوں کی بھیڑ ان کے پاس نہیں ہے۔

حضرت مولانا علی میاں کی اس پالیسی سے مولانا کلب صادق صاحب پوری طرح سے اتفاق کرتے ہیں کہ اپنے مشن کو جاری رکھنا چاہئے کسی کے اعتراض کا جواب دیکر اپنا وقت اور انرجی برباد نہ کرنی چاہیۓ۔وہ صرف ایک موضوع پر بات کرتے ہیں اور وہ ہے ’تعلیم‘ اس کے علاوہ مولانا کسی بھی موضوع پر بات نہیں کرتے خصوصی تورسے اختلافی باتوں پر۔

انجینئر کرار اصغر زیدی میرے دوست بھی ہیں اور میرے محلہ میں ان کی سسرال ہونے کی وجہ سے مجھے جبراً سالا بھی بنائے ہیں بہر حال بقول شوقؔ بہرائچی ’زر دار کے لاکھوں سالے ہیں‘میں نے بھی ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ان سے جب میں نے مولانا کلب صاقد صاحب کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اپنی ہی مثال دی۔ وہ بولے مولانا نے ان کے ذمہ ’یونٹی انڈسٹر یئل ٹریننگ سنٹر‘ دے رکھا ہے تو وہ اس یونٹ سے بے فکر ہیں۔ اب یہ ہماری ذمہ دار ہے کہ ان کے بھروسے کو قائم رکھیں۔
اے ربالعالمین! اس طرح کے سر سید کچھ اور پیدا کر دے۔آمین

Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 74261 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.