سوالات ہی سوالات !

ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹا دیا ہے جس سے ارشد ملک کی طرف سے دیے گئے فیصلوں پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور ن لیگ انتقامی بیانیے کو مزید تقویت مل گئی ہے اسی لیے ن لیگ مٹھائی بانٹتی دکھائی دے رہی ہے ویسے بھی برسر اقتدار اور بر سر پیکار دونوں نے گذشتہ دو سالوں میں انتقامی بیانیئے داغنے اور مٹھائیاں بانٹنے کے سوا کچھ خاص کیا ہی نہیں بایں وجہ حالات کو دیکھ کر اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ تبدیلی سرکار کے جانے کا وقت آ گیا ہے اور وزیراعظم خود اپوزیشن کو جواب دے رہے ہیں کہ’’ مائنس ون میرے بغیر ہوا تو احتساب رکے گا نہیں‘ویسے میرے علاوہ کوئی چوائس بھی نہیں ہے‘‘ جبکہ حکومتی گورننس سوالیہ نشان ہے کہ حکومتی مالی سال کا تیسرا سال شروع ہو چکا ہے اورجاگیر دارانہ نظام کی حشر سامانیوں کو جڑ سے اکھاڑنے اور کروڑوں باشندوں کا معیار زندگی یک دم اونچا کر کے فوری تبدیلی لانے کے تمام دعوے ہوا ئی قلعے ثابت ہو چکے ہیں ۔پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کے بعد بعض ملکی دانشوران بھی اپنے بیانئے تبدیل کر رہے ہیں اور سر عام چینلوں پر تبدیلی کی حمایت کرنے پر خود کو ملامت کر رہے ہیں کیونکہ موجودہ ملکی حالات و واقعات حکومتی کمزوری اور ناقص حکمت عملیوں کو ثابت کر رہے ہیں حالانکہ اقتدار سنبھالتے وقت خان صاحب ہر خطاب میں کہتے تھے کہ علاقائی صورتحال اور چیلنجز مدنظر رکھ کر تیار کی گئی حکمت عملی مؤثر ثابت ہوگی جبکہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنے حصے کا کام سر انجام دینے میں سنگین کوتاہیوں کی مرتکب ہو رہی ہیں اسلیے غیر معمولی حکمت عملی نا گزیر ہے

اور اب جبکہ جناب عمران خان برسر اقتدار اور سیاہ و سفید کے مالک ہیں اس کے باوجود بے بس دکھائی دے رہے ہیں کہ جونہی وزیراعظم ملک میں پیدا ہونے والے کسی بھی بحران کا نوٹس لیتے ہیں تو مسئلہ مزید سنگینی اختیار کر لیتاہے جس نے باشعور عوام کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے یقینا بعض اوقات خاموشی اختیاری نہیں مجبوراً ہوتی ہے کیونکہ انسان جھوٹ بولنا نہیں چاہتا اور سچ بول نہیں سکتا یوں لگتا ہے کہ جیسے حکومتی رٹ کو مسلسل چینلج کیا جا رہا ہے کیونکہ آٹا ،چینی ،ادویات اور پٹرو ل غائب کرنے والے ذمہ داروں کے خلاف لفظی کاروائی کے سوا کچھ بھی نہیں کیا جا رہا حالانکہ دعوے تو مگر مچھوں کو پکڑنے کے تھے مگر اب سوچا ہے کہ مگر مچھ سے بیر رکھ کر سمندر میں رہنا مشکل ہو رہا ہے سچ کہتے ہیں کہ سمندر کی گہرائی کا اندازہ کنارے سے کبھی نہیں ہو سکتا مگر ایسے میں خسارہ صرف عام آدمی کو ہو رہا ہے اس کا جینا ہی نہیں مرنا بھی مشکل ہو چکا ہے وہ فریاد کس سے کرے وہ تو مکمل طور پر ر’ل چکا ہے

اگر خلوص نیت کی بات کی جائے تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ پارلیمٹ فلور پر کھڑے ہو کر کہا جاتا ہے کہ 260 پائلٹوں کے لائسنس سوالیہ نشان ہیں یقینا ایسا ہی ہے مگر اس کا جونتیجہ نکلا ہے وہ خلوص نیت کا نام دی جانے والی کاروائی پر مزید سوالیہ نشان لگا گیا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے جو بھی قدم اٹھایا جاتا ہے اس کے اثرات ملک وقوم کو مزید بحرانوں میں مبتلا کئے جا رہے ہیں ۔کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی فیصلہ دور رس اور بہتر نتائج کا مظہر نہیں ہوتا اورحکومتی صفوں میں ہی بھگدڑ مچ جاتی ہے اور ہر اقدام نا اہلی اور نادانی کی مہر ثبت کر جاتا ہے جسے قریبی ساتھی بھی سچ ثابت نہیں کرتے بلکہ سرعام چینلوں پر بیٹھ کر اپنی نا اہلی گردانتے ہیں ایسے کونسے مفادات ہیں جن کا ٹکراؤ اس نہج پر پہنچا دیتا ہے جہاں اپنے بھی مخالفین کی زبان بولنے لگتے ہیں ۔ایک کروڑ نوکریوں کا دعوی تھا مگر ایک کروڑ سے زائد بے روزگار ہو چکے ہیں اور حکومتی اکابرین کا دعوی ہے کہ کرونا کیوجہ سے مزید ایک کروڑ سے زائد لوگ بیروزگار ہو جائیں گے ، اسٹیل ملز ،پی آئی اے اور اب پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ میں بہت سے ہوٹل بند اور لوگوں کو فارغ کر دیا گیا ہے ۔ہر چلتے ادارے کو بند کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ اسے ری سٹرکچر کرنا ہے کیونکہ خسارے میں جا رہا ہے سوال تو یہ ہے کہ گذشتہ دو برسوں میں ری سٹرکچر کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے اس سے ملک و قوم کو کتنا نفع و نقصان ہوا ہے اس کا حساب کس نے کرنا ہے ؟پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ تھا مگر پچاس لاکھ سے زائد مہنگائی بحران کیوجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں ،اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں پرکشش اور ہینڈ سم سیلریز کے مواقع فراہم کرنے کا وعدہ تھا مگر ان کی آنکھیں نم ہیں اور وہ مدد کیلئے پکار رہے ہیں جو پاکستان میں ہیں وہ بھی پریشان ہیں کیونکہ روزگار ختم ہو چکا ہے ۔ظلم کا عنصر ختم نہیں ہو سکا کہ با اثر افراد کی طرف سے غریب اور مجبور افراد پر ظلم و ستم شدت اختیار کر رہا ہے اور دہشت گردی بھی سر اٹھاتی دکھائی دے رہی ہے ۔کوئی جوابدہ نہیں ہے بلکہ سوال کرنے والے کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو مسجد کے چوکیدار نے نمازی کے ساتھ کیا تھا واقعہ یوں ہے کہ ایک مسجد کے باہر دروازے سے سب نمازیوں کی چپلیں چوری ہو گئیں ۔پوچھنے پر مسجد کے چوکیدار نے بتایا کہ آپ سب کی چپلیں راء کا ایجنٹ چوری کر کے لے گیا ہے ۔سب نمازیوں نے اس راء کے ایجنٹ کو خوب گالیاں دیں اور چوکیدار کو شاباش دی کہ تم نے ہمیں بروقت چپلیں چوری کرنے کی اطلاع دی تم واقعی اہل آدمی ہو ۔پھر سب لوگ چوکیدار زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ننگے پاؤں گھر جانے لگے تو ۔۔ایک عقلمند نمازی واپس آیا اور چوکیدار سے پوچھا کہ ہماری چپلیں چوری ہونے کے وقت تم کہاں غائب تھے ؟چوکیدار نے اس بندے کو پکڑ لیا اور زور سے آواز لگائی ’’نمازیو ومیں نے اُس راء کے ایجنٹ کو پکڑ لیا ہے ،واپس آؤ اور اس کو پھینٹی لگاؤ ‘‘۔

اگر عمودی انداز سے جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آرہا ہے کہ بد عنوانیوں کا سلسلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلے سے بھی بڑھ گیا ہے خواہ وہ ماضی کے حکمران ہوں یا موجودہ سبھی اس کا تدراک کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ پہلوں کی طرح اپنے ساتھ ایسے مفاد پرستوں کو بٹھا لیا گیا ہے جو بد عنوانیوں اور ریشہ دوانیوں کے نئے نئے امکانات اور نئے نئے طریقے لے کر آئے ہیں اور بظاہر یوں ہی لگتا ہے کہ جیسے سب جائز اور مناسب ہے اور سیاست اسی طرح کرنی چاہیے مگر پس پردہ سبھی نے سیاست کو منافع بخش کاروبار بنا رکھا ہے ۔بہرحال یہ انتہائی نشیب و فراز کی صورت حال آج یکایک پیدا نہیں ہوگئی بلکہ یہ پچھلے بہتر برس کے مختلف اقدامات کا نتیجہ ہے جسے آج داستان گذشتہ ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہ ہو سکا اب تو بہت سے سوال اٹھ چکے ہیں یعنی عمران خان کی سیاست کدھر جا رہی ہے ؟احتسابی عمل کی شفافیت پر سوالیہ نشان کیوں ہے ؟ترقی کی کونسی منازل طے کر لی ہیں جو مزید طے کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے ؟اور دو برس تو بیت گئے ہیں تو ریاست مدینہ کے قیام کو مزید کتنا وقت درکار ہے ؟اس دورانیے کا علم کن کو ہے ؟عوامی ریلیف کے لیے ابتک کیا کیا گیا ہے ؟ کرونا کی تباہیوں سے نپٹنے کے لیے کونسی حکمت عملیاں اختیار کی جارہی ہیں ؟ آٹا ،چینی ،پٹرول اور ادویات کے ذمہ داروں کا تعین کب اور کون کرے گا ؟ اگر آپ بے بس ہیں تو حالات کو وقت اور عوامی توقعات کے مطابق لے کر چلنا کس کے بس میں ہے ؟صحت اور تعلیم کے معاملات کیسے سدھریں گے ؟ عام آدمی کے روزگار کا کیا بنے گا ؟ کاروباری حضرات کی زندگی کا پہیہ کیسے چلے گا ؟ اسمبلیوں میں تہذیب ، احترام اور اخلاص والا دور کب آئے گا ؟ وغیرہ وغیرہ

 

Roqiya Ghazal
About the Author: Roqiya Ghazal Read More Articles by Roqiya Ghazal: 126 Articles with 90142 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.