عیدالالضحی کے قریب آتے ہی سبزیوں اور فروٹ کی قیمتوں کو
پر لگ گئے ہیں حکومت مہنگائی کے سیلاب کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام نظر
آ رہی ہے، آج تک مختلف بحران پیدا کرنے والوں کو نہیں پکڑا گیا حکومت کہیں
بھی نظر نہیں آ رہی، اب تو مائنس ون کی بجائے مائنس آل ہونا چاہیے، اس وقت
مہنگائی کا ایک خوفناک سیلاب ہے اور ریاست مدینہ کے دعویدار عوام کو انصاف
فراہم کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں اور علی بابا چالیس چوروں کا ایک ڈرامہ
رچایا جا رہا ہے ضرورت کی تمام اشیائے عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں اور
ناجائز منافع خوروں نے بڑی عید سے قبل ہی تمام اشیائے کہ ریٹ بڑھا دئیے ہیں
ذخیرہ اندوزوں نے مارکیٹوں سے ٹماٹر، سبزیوں اور موسمی پھلوں کو غائب کرنا
شروع کردیا ہے اور ان کو مہنگا بیچنے کے لیے کولڈ سٹوریج میں سٹاک کرنا
شروع کر دیا ہے اور ایک مصنوعی بحران پیدا کر کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے
لوٹنا شروع کر دیا ہے اور اس وقت ٹماٹر کی قیمت 120 روپے کلو تک پہنچ گئی ،ملک
بھر کی طرح رحیم یارخان میں بھی گزشتہ تین روز سے اشیائے خوردونوش کے ہول
سیلرز اور پس پردہ وائٹ کالر ذخیرہ اندوز مافیا خود ساختہ ہڑتال کیے ہوئے
ہیں جنھیں چند مفاد پرست ارباب اختیار اور نام نہاد سیاستدانوں کی پشت
پناہی حاصل ہے ان ملک دشمن ذخیرہ اندوزوں کا ہڑتال بارے موقف یہ ہے کہ چینی
کے سرکاری ریٹ 70 روپے فی کلو کو وہ قبول نہیں کرتے کیونکہ اس میں انھیں
سراسر خسارہ ہے جبکہ ملز ملکان ہمیں چینی انتہائی منگے ریٹ 4500روپے فی
50کلو پر دے رہے ہیں اس بارے میں حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان کے واضح
احکامات موجود ہیں کہ شوگر مافیا اور ہول سیلرز اور پرچون فروشوں کو من
مانی کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی اور انھیں ہر صورت حکومت کے مقرر کردہ
سرکاری نرخ 70روپے فی کلو گرام فروخت کرنی پڑے گئی تاکہ غریب عوام پر
Covid-19 کرونا وائرس کی وبا سے پریشان حال عوام پر مہنگائی کا بوجھ نہ پڑ
سکے اور غذائی اجناس سمیت چینی کو ذخیرہ اندوزی کے لیے استعمال کرنے والے
شوگر مافیا کو کنٹرول کیا جا سکے انجمن کریانہ ایسویسی ایشن ضلع رحیم
یارخان کی طرف سے چینی کا مکمل بائیکاٹ، چینی 70روپے فی کلو فروخت نہ کرنے
اور عدالتی حکم کو ہوا میں اڑانے کے خلاف شہریوں کا شدید احتجاج، چینی
70روپے فی کلوکے حساب سے فروخت کو یقینی بنانے کا فیصلہ، شہریوں کا کہنا
تھا کہ۔شہر میں لگنے والے سستے سٹال بھی ختم کر دئیے گئے ہیں اور شہری اور
دیہاتی علاقوں میں چینی 80سے 85 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے ذخیرہ اندوز
مافیا سرگرم ہو گیا ہے چینی کا بحران پیدا کرنے کے لیے چینی کو سٹاک کیا جا
رہا ہے ذخیرہ اندوزوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور حکومت پٹرول،
آٹا مافیا کی طرح چینی مافیا کے سامنے بھی بے بس نظر آرہی ہے اور حکومت کی
رٹ ختم ہوگئی ہے، ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ حکومت سپریم کورٹ سے احکامات ملتے
ہی چینی کو 70روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کو یقینی بناتی لیکن حکومت اپنی
بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے عدالتی احکامات پر عملدرامد نہ کروا سکی،
شہریوں نے کہا کہ اگر چینی مافیا کے ساتھ آئنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور
ذخیرہ اندوز مافیا کے خلاف سخت سے سخت قانون بنائے جائیں اور چینی کا بحران
ختم کرایا جائے ورنہ چینی عوام کی پہنچ سے دور ہوجائے گی ڈپٹی کمشنر علی
شہزاد اور اسسٹنٹ کمشنر اعتزاز انجم اور سربراہان پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور
پرائس کنٹرول مجسٹریٹس اس بارے میں خصوصی نوٹس لیں گو کہ ڈپٹی کمشنر رحیم
یارخان علی شہزاد کی سربراہی میں مجسٹریٹس اور اے سی رحیم یارخان نے چند
ایک جہگوں پر چھاپے مارے اور ان دکانداروں کو اوور چارجز پر جرمانے کیے اور
ایک دو دکانوں کا سیل بھی کیا گیا لیکن یہ تمام کارروائیاں نہ ہونے کے
برابر ہیں اور نہ ہی ان کارروائیوں چینی کی بلیک میلنگ میں کوئی خاطر خواہ
کمی واقع ہوئی الٹا چینی کی بلیک میلنگ مزید عروج پر چلی گی ہے تازہ ترین
ہڑتال کی وجہ سے چینی جوکہ اشیائے ضروریہ میں روزمرہ استعمال کی جانے والی
ایک اہم غذائی جنس ہے جو ہڑتال کی وجہ سے عوام کی دسترس سے باہر ہوگی ہے،
اگر غلطی سے کسی دکاندار سے چینی مل بھی جائے تو اتنی زیادہ اوور چارجنگ
اور بلیک میلنگ کرتا ہے وہ چھوٹا دکاندار کہ" الحفیظ الامان" کہہ اٹھنے پر
زبان واہ ہوجاتی ہے اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر کوئی مجسٹریٹس بھولے سے
اس چھوٹے دکاندار تک جو گندی گلیوں، بوسیدہ اور گنجان آباد علاقوں اور
مضافات میں واقع ہیں پہنچ بھی جاے اور انھیں جرمانہ یا سیل کر دے تو اس امر
سے بلیک میلنگ اوور چارجنگ یقینا ختم نہیں ہوگی بلکہ اس چھوٹے دکاندار کی
چھوٹی کرپشن کے سبب اس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ سکتا ہے جس کا وہ متحمل
نہیں ہوسکتا اور اس شوگر کرپشن کا ذمہ دار وہ ہے ہی نہیں کیونکہ ہول سیلرز،
شوگر مافیا اور ذخیرہ اندوز اسے 4500روپے پر فی50کلو چینی فروخت کر رہے ہیں
جسے وہ بحالت مجبوری خریدنے پر مجبور ہے کہ اس کی دکانداری خراب نہ ہو، اس
تمام تر صورتحال میں عوام یہ بھی پوچھنے پر حق بجانب ہیں کہ جناب ڈپٹی
کمشنر صاحب اپ سمیت اپ کی پوری ٹیم جن میں اسسٹنٹ کمشنر، پرائس کنٹرول
کمیٹیاں اور مجسٹریٹس حضرات نے اب تک کتنے ہول سیلرز، کتنے ذخیرہ اندوزوں
اور ملز ملکان کے چالان کیے یا انھیں سیل کیا، اور کتنے ذخیہ اندوزوں
گرفتار کر کے ان پر مقدمات قائم کیے اور انھیں پابند سلاسل کیا؟ اگر ایسا
کچھ کیا گیا ہے تو کس اخبار یا ٹی وی چینل پر اسے نشر یا مشتہر کیا گیا ہے؟
جناب ڈپٹی کمشنر آپ اور آپ کی ٹیم اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ٹھنڈے دل سے
سوچیں گے تو جواب یقینا نفی میں آئے گا، اس لیے خدارا اپنی ڈیوٹی کو
ایمانداری اور ذمہ داری سے ادا کیجیے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں اور
کرپشن کے خاتمے میں حکومت پاکستان کے ممد و معاون بنیں
|