جو میری آنکھ سے ٹپکا تھا تیری فرقت میں وہ اک آنسو جو گر کے مٹی میں مل جانے لگا یہ کہا مجھ سے سمندر نے یہ مجھ کو دے دے میں اس سے لہروں کو طوفاں میں ڈھال دیتا ہوں تیرے جزبات کی طاقت جو بسی ہے اس میں میں پل میں دنیا کا نقشہ ہی بدل دیتا ہوں
پھر کہا ابرِ باراں نے یہ مجھ کو دے دے میں اس سے صحرا کو گلزار بنا سکتا ہوں میں جو لے کر اسے برسا ستونِ سنگ پر بھی تو دیکھ اس میں کئی گل میں کھلا سکتا ہوں
پھر کہا ایک جوہری نے یہ مجھ کو دے دے میں اس کو بادشاہ کے تاج میں پِرو دوں گا تجھے معلوم نہیں اس کی قدر،قیمت کا تو مانگ اس کے بدلے جو بھی میں تجھ کو دوں گا
مگر میں جانتا ہوں بات یہ بے معنی ہے کوئی قصہ ہے، کوئی من گھڑت کہانی ہے یہ اک آنسو کہاں سے اتنی تاب لائے گا یہ تو آنسو ہے گر کے مٹی میں مل جائے گا۔ |