زندگی آساں نہیں

عاشر اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا...دو بڑی بہنیں بہائی جا چکی تھیں عاشر ان کا بھی بہت لاڈلا تھا...عاشر کے والد ممتاز نے ہمیشہ اس کی ہر خوائش پوری کی....اسے اچھا کھلایا پلایا,,,اچھے سکول میں داخل کروایا اور اب میٹرک کے بعد اچھے کالج میں داخلہ کروایا...

عاشر کی والدہ روبینہ بھی اس کی کوئی بات نہ ٹالتی..وہ سترہ برس کا ہو چکا تھا مگر اس کے باوجود اس کی والدہ اس کے نازونخرے ایسے اٹھاتی کہ جیسے وہ تین چار برس کا بچہ ہے...ماں باپ اور بہنوں کے لاڈ نے عاشر کو ضدی بھی بنا دیا تھا...اگرچہ اس کی ہر فرمائش پوری ہوتی مگر کبھی کبھی وہ بہت ضد کرنے لگ جاتا...

گیارویں میں پہنچ کر عاشر نے اپنی امی سے موٹرباہیک کی فرمائش کی..روبینہ نے تو فوراََ ہاں کر دی کہ وہ ممتاز سے بات کرے گی

جب رات کو روبینہ نے ممتاز کو یہ بات بتائی تو وہ کچھ دیر خاموش رہے...پھر بولے: روبینہ پچھلے برس ہی تو تمہارے بھانجے صائم کا ایکسڈینٹ ہوا تھا....اور وہ اپنے ماں بات کو روتا ہو چھوڑ کر چلا گیا...تم کیا چاہتی ہو کہ ایک ہی بیٹا ہے تو اسے بھی.....ممتاز بات کرتے کرتے رک گئے...روبینہ نے کہا کہ اس نے تو وعدہ کر لیا ہے عاشر سے...اب دونوں شش وپنج میں پڑ گئے...

پھر ممتاز نے کہا کہ کچھ دن اسے ٹال کے رکھو...پھر وہ بات بھول جائے گا اور اگر پھر بھی ضد کرے تو کہہ دینا کہ آج کل تھوڑی تنگی ہے...جب پیسے آئے تو لے ریں گے..

اگلی صبع عاشر نے روبینہ سے موٹر باہیک کا پوچھا تو روبینہ خوموش رہی... عاشر نے ماں کے گلے لگ کر دوبارہ پوچھا تو روبینہ نے کہا کہ اگلے ماہ تک دلا دیں گے...عاشر بہت خوش ہوا اور خوشی خوشی کالج چلا گیا...اس نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ اگلے ماہ وہ نئی موٹر باہیک لے گا...

ایک ماہ گزر گیا تب تک عاشر خاموش رہا...کیونکہ اسے یقین تھا کہ اس کے والد اسے موٹر باہیک ضرور لے کر دیں گے...ایک ماہ بعد اس نے اپنی امی کو باہیک کی یاد دلائی...تب انھوں نے عاشر کو سچ سچ بتا دیا کہ ممتاز اسے باہیک نہیں دلانا چاہتے...اور پھر صائم والی بات بھی بتا دی...انھیں لگا کہ شاہد یہ بات سن کر عاشر اپنی ضد چھوڑ دے گا...مگر وہ تو ناراض ہو گیا..اس نے روبینہ سے کہا:امی میں کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں ہوں آپ کو مجھے باہیک لے کر دینی ہی پڑے گی میں نے اپنے دوستوں سے بھی کہا ہے...یہ کہہ کر عاشر اٹھ کر چلا گیا وہ کئ دن گھر سے ناراض رہا...

ممتاز اور روبینہ بہت پریشان تھے پھر آخر عاشر کی ضد کے آگے ہار مان کر بوجھل دل سے اسے س کی من پسند باہیک خرید کر دی ساتھ ساتھ اسے بہت سی احتیاط بھی بتائی...

اگلے دن کالج جا کر اس نے اپنے دوستوں کو پارٹی دی...وہ بہت خوش تھا...مگر اس کے والدین خوش نہ تھے...انھیں ہر وقت ڈر لگا رہتا تھا کہ کئ کچھ ہو نہ جائے...
جاری ہے
 

Hira Falak
About the Author: Hira Falak Read More Articles by Hira Falak: 12 Articles with 11254 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.