میں بھی کیسے امتحان سے گزر رہا ہوں ۔ میں جس سے پیار
کرتا ہوں وہ پریگننٹ ہو گئی ہے ۔ ارے توبہ میرا مطلب ہے اپنے میاں سے ،
کیونکہ اس کی شادی ہو گئ تھی اور میرا پیار ابھی جاری تھا اور شادی اور
ہونے والا بے بی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ شائد محبت بھی پریگننٹ ہو
جاتی ہے یعنی بڑھتی جاتی ہے اور مضبوط ہو جاتی ہے۔
اس کا خیال ایسے رکھتا ہوں جیسے وہ میری زمہ داری ہو ۔ وہ مجھے اپنی کزن
لگتی ہے حالانکہ اس سے ایسا کوئ رشتہ نہیں ہے ۔ محبت بھی کسی سے اتنا قریب
کر دیتی ہے کہ سگے رشتوں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔
یہ خیالات حامد پر وارد ہو رہے ہیں۔ وہ اپنی سانولی محبت میں رنگ بھر رہا
ہے۔ سانولی بچہ کی پیدائش کے سلسلے میں گاؤں جا رہی ہے ۔ وہ کہنے لگی کہ اس
کا کمرہ بن رہا ہے ۔ چھت ابھی نہیں بن سکتی ۔ حامد نے کہا کہ چھت ہونی بھی
نہیں چاہیے کیونکہ تم مجھے پری لگتی ہو جو دوسروں سے ہمدردی کے لیے دنیا
میں آتی ہیں اور انہیں پھر سے اڑ کر واپس آسمانوں کی طرف جانا ہوتا ہے اور
چھت نہیں ہو گی تو جب چاہے کمرے سے اڑ کر جا سکتی ہو آسمانوں میں ۔ واپس
ضرور آنا !
ابھی تو وہ گاؤں جا رہی ہے ۔ واپسی کی امید دے کر اور میرا دل لے کر ، اب
دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔
سانولی امید سے ہے ، حامد کا پیار بھی امید سے ہے اور امید سے زندہ ہے۔
کہاں آ کے رُکنے تھے راستے، کہاں موڑ تھا، اُسے بُھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اُسے بُھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سُن، اُسے بُھول جا، اُسے بُھول جا
میں تو گُم تھا تیرے ہی دھیان میں، تِری آس، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں، میرے ساتھ آ، اُسے بُھول جا
کِسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بُھلا دیا، تُوبھی مُسکرا، اُسے بُھول جا |