ساحل دُور نہیں۔۔۔!
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
کتنی بار کہا ہے کہ گھر کے برتنوں کو صاف
ستھرا رکھا کرو؟
دیکھو! زہرہ ۔۔۔ایسا نہیں چلے گا؟
ابھی تک کتنے برتن دھوئے ہیں، ڈھیر سامنے لگا کر رکھا ہوا ہے۔تم بس بچوں کے
ساتھ کھیلنے میں ہی مگن ہو جاتی ہو۔مسز کیانی نے آج پھر زہرہ کے کان کھینچ
لیے تھے ۔ آج پھر اُن کے ساتھ دفتر میں باس نے کچھ غلطیوں پر کھچائی کی تھی
تو جس کا غصہ وہ زہرہ پر اُتار رہی تھیں۔زہرہ کا چہرہ لال ہو چکا تھا مگر
وہ صبر کئے ہوئے تھی۔
زہرہ پنجاب کے ایک دور افتادہ گاؤں کی رہنے والی تھی۔ ماں باپ غربت سے تنگ
آکر اُسے گاؤں کے ہی نمبردار کے رشتے داروں کے ہاں چھوڑ آئے تھے کہ شہر میں
رہ کر وہ کچھ کمائے گی تو ا ن کا گذارہ ممکن ہو سکے گا۔
دو گھنٹے بعد جب مسز کیانی واپس آئیں تو دیکھا تو برتن ابھی تک ویسے ہی پڑے
تھے۔زہرہ کی آج یہاں آنے کے بعد سے پھر تیسری بار خوب پٹائی ہو تھی۔ اس میں
اس کا قصور نہیں تھا کہ وہ تو مسز کیانی کے بچوں کے رونے دھونے پر کام کاج
کو چھوڑ دیا کرتی تھی مگر مسز کیانی نے خاوند کی بے اعتنائی کا صلہ گیارہ
سالہ زہرہ کو خوب پٹائی کرکے لیا تھا۔
ابھی کچھ دن گذرے تھے جب زہرہ کو مسزکیانی کے شوہر نے بلاوجہ تنگ کرنا شروع
کر دیا تھا اور اُس کے کام کاج میں نقص تلاش کرنا شروع کر دیئے تھے۔ وہ بار
بار اُس کے نازک حصوں کو چھو لینے کی بھی کوشش کرنے لگا تھا۔زہرہ کو یہ سب
بہت بُرا لگنے لگا تھا وہ اتنی بھی بچی نہیں تھی کہ یہ سب نہ سمجھ
سکتی۔انہی دنوں میں زہرہ مسز کیانی کے بچوں کے ساتھ ایک دن بازار گئی تو
ساتھ والی کوٹھی میں کام کرنے والی سعدیہ سے اُس کی ملاقات ہوئی۔مسز کیانی
کے بچے تو کتابیں خریدنے میں مصروف تھے۔
سعدیہ عمر میں زہرہ سے بڑی تھی وہ کافی دنوں سے اُسے اُلجھا ہوا دیکھ رہی
تھی، اُس نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو زہرہ نے مختصراََ تفصیل بتا دی۔سعدیہ
نے اُسے ساحل نامی بچوں کے لئے کام کرنے والی تنظیم کے بارے میں آگاہی دی
اور کہاکہ وہ اُن سے رابطہ کرے۔چند ہی دنوں میں ساحل نامی تنظیم نے زہرہ کو
وہاں سے نکال لیا تھا، مسز کیانی اور اُن کے شوہر نے اُس کے ہر الزامات کی
تردید کی تھی مگر بعد میں وہ اپنی جگہ سچی ثابت ہوئی تھی۔تشدد اورجنسی
ہراسگی پر اُن کے خلاف عدالت میں کیس چل پڑا تھا۔ ساحل نامی ادارے نے زہرہ
کو ایک فلاحی ادارے میں داخل کروا دیا تھاجہاں اُسے تعلیم کے ساتھ ساتھ
روزگار بھی سیکھنے کو مل رہا تھا۔
اب زہرہ بچوں کے تحفظ اور بہبود کے لئے کام کرنے والی تنظیم ساحل کا ایک
اہم حصہ بن چکی تھی۔ اُسے سال کا بہترین رضا کار ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہو
چکا تھا۔اب وہ یہ بات ہر فورم پر کرنے لگی تھی کہ آپ بطور انسان بہت سے
حقوق رکھتے ہیں اورکوئی آپ کے ساتھ غلط کرتا ہے تو اس کو کیفر کردار تک لے
جانا چاہیے تاکہ آپ جیسا کوئی معصوم شخص کسی اور کی ستم گری کا شکار نہ ہو
سکے یوں بھی ساحل تک رسائی بہت آسان سی ہے ،جان بچانے کے لئے تھوڑی کوشش
کرنی چاہیے، یہ سمندر میں ڈوب مرنے سے بہتر ہے۔
|
|