طِلسمِ روز و شب ‘کا شاعر شکیل وحید(مجموعہ غزلیات)

طِلسمِ روز و شب ‘کا شاعر شکیل وحید(مجموعہ غزلیات)
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
'''''''''''''''''''''
شکیل وحید کا اصل نام شکیل محمد خان ہے ۔ انہوں نے اپنے مجموعہ کا عنوان اردو کے ہر دور کے شاعر غالب کے ایک شعر سے متاثر ہوکر رکھا، اس بات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شکیل وحید غالب کے مداحوں میں ہیں ۔ ادب سے وابستہ شاید ہی کوئی شاعر ایسا ہو گا جس کے مطالعہ میں غا لب نہ ہو ۔ غالب ہر دور کا شاعر ہے ۔ غالب کا یہ شعر وحید کے مجموعے کے بیک پر ان کی تصویر کے نیچے درج ہے ۔
تم کرو صاحب قرانی جب تلک
ہے طلسم روز و شب کا در کھلا
ایک اور شاعر عبدالحفیظ نعیمی کی ایک غزل کا مطلع دیکھئے ۔
اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا
کم سے کم وجدان کے صحراہی میں گھومو ذرا
ثاقب انجان جنہوں نے پیشِ نظر مجموعہ پر ’’شاعر خوش ذوق‘‘ کے عنوان سے اظہاریہ لکھا اس جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ جناب شکیل وحید کا کلام دیکھنے کے بعد میرا خیال غالب کے اس دور کی طرف منعطف ہوگیا جب وہ اپنی مغلق نگاری کے میناروں سے ابراہیم ذوق کے میدانوں اور سبزہ زاروں میں اتر رہے تھے ۔ ان کی کئی غزلیں آج تک ان کی غمازی کرتی ہیں ‘‘ ۔
شکیل وحید کا شعری مجموعہ’ طِلسمِ روز و شب ‘ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شکیل تخلیقی مزاج کے مالک ہیں ۔ ان کی شاعری تمام تر تخلیقی اظہار سے مرصع ہے ۔ ان میں الفاظ کو خوبصورتی سے استعمال کرنے کا سلیقہ بدرجہ اتم موجود ہے ۔ وہ شعر کی اہمیت سے آگاہ، الفاظ و معنی سے واقف ہیں ، وہ کسی بھی واقعہ ، سانحہ، ماجرا، واردات ، سرگزشت اور کفیت کو معنی خیز انداز سے شعر کے پیرائے میں ڈھالنے کی مہارت رکھتے ہیں ۔ دیکھیے ان کا ایک شعر ۔
سوچ کے زاویوں کا ہے اک سلسلہ
مار ڈلے نہ یہ آگہی دیکھنا
ایک اور شعر دیکھئے ۔
کب تک نہ شکستہ ہو تغافل سے تمہارے
یہ دل تو ہے اک آئنہ پتھر نہ سمجھنا
وحید پیشے کے اعتبار سے بنکر رہے ، لکھتے ہیں کہ’’ انہیں ابتداہی سے شعر و ادب سے شغف و لگاوَ تھا ۔ بنک کی مصروف زندگی میں سے وقت نکال کر مشق سخن جاری رکھی ۔ بنک سے ریٹائرمنٹ کے بعد کافی متحرک ہوگیا اور شعر و ادب کی محافل کے علاوہ جرائد و رسائل میں اپنی موجودگی برقرار رکھی ۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور انجمن ترقی اردو پاکستان کا ممبر بنا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کے ماموں ڈاکٹر اشفاق محمد خان مرحوم جو جواہر لال یونیورسٹی نئی دہلی کے شعبہ اردو میں پروفیسر تھے کی شخصیت نے ان کے ذوق شعر وادب میں اضافہ کیا ‘‘ ۔ شکیل وحید کے علمی ذوق اور شاعری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وحید کاتعلق برصغیر کی مردم خیز سرزمین فرخ آباد کی بستی قائم گنج سے ہے ۔ آباوَ اجداد کی بودوباش ، رہن سہن، مٹی سے تعلق ، علمی و ادبی ذوق در نسل منتقل ہوتا ہے ۔ ہم نے وہ سرزمین دیکھی ہو یا نہیں ، ہماری پیدائش ہی پاکستان کی کیوں نہ ہو ، ہمارے اندر اپنے آبا کی صفات کا آجانا ایک قدرتی عمل ہے ۔ شکیل وحید کراچی میں پیدا ہوئے ، تمام زندگی کراچی میں بسر ہوئی ، لیکن ان کے آبا جس سرزمین سے تعلق رکھتے تھے اس کی خوبیاں ، ادبی ذوق، ان کی سوچ ان میں منتقل ہوئیں اور انہوں نے بنکار ہوتے ہوئے بھی شاعری سے اپنا ناتا جوڑے رکھا ۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے ساتھ ایسا ہو ، کئی نامورشعراء کی اولاد نے شاعری نہیں کی،کئی نامور لکھاریوں کی اولاد نے قلم و قرطاس سے دور نظر آتی ہے ۔ جسے اللہ توفیق دے ۔ بعض خاندانوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ دادا شاعر لیکن بیٹے میں یہ خصوصیت نہیں لیکن پوتا شاعر ہوا ۔ اس طرح خاندانی خصوصیات نسل در نسل منتقلی کا عمل جاری رہتا ہے ۔ میری تاحال شکیل وحید سے ملاقات نہیں ہوئی، ممکن ہے کہ انجمن ترقی اردو یا آرٹس کونسل کی ادبی تقاریب میں ہم دونوں موجود رہے ہوں کیونکہ شناسائی نہیں اس لیے اجنبی رہے ۔ لیکن ادب ایک ایسا تعلق ہے جو ادیبوں کے مابین تعلق کے لیے کافی ہے ۔ شکیل وحید کا یہ مجموعہ بہ توسط مرتضیٰ شریف صاحب مجھ تک پہنچا بلکہ دوبار مجھے ملا ، کئی ماہ ہوگئے میں مجموعے پر اظہار خیال کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ، وجوہات لکھنے کی ہی رہیں ، دوسرے دنیا میں پھیلی وبا کورونا( کووڈ19)نے ذہن کو متغیر کر کے رکھ دیا ہے ۔ لکھنے کا تعلق ذہنی آسودگی سے ہوتا ہے ، اس میں خلل واقع ہوجائے تو اس عمل میں تعطل پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہی ہوا شکیل وحید کا مجموعہ بھی میرے پاس کئی ماہ سے رکھا رہا ۔ دیر آید درست آید ہی کہا جاسکتا ہے ۔
شکیل وحید نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی ، انہوں نے حمد باری تعالیٰ کہی، ان کی حمد کا ایک شعر دیکھئے ۔
نبی کا اُمتی ہوں اے خدا بس یہ سہارا ہے
کہ جو بھی حال ہے میرا وہ تجھ پر آشکارا ہے
حمد باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ نعت رسولِ مقبول ﷺ کی سعادت حاصل کرنے کی کسے خواہش نہیں ہوتی، شکیل وحید نے یہ سعادت بھی حاصل کی، ان کہی ایک نعت کا ایک شعر جس میں وہ حبیب خدا کی بات کرنے اور نبی ﷺ کے ذکر کی بات کرنے کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
چلو کہ شہرِ حبیبِ خدا کی بات کریں
نبی کا ذکر کریں اور ساری رات کریں
پیش نظر مجموعہ شکیل وحید کے غزل گو ہونے کی گواہی دیتا ہے لیکن نظم کے بھی شاعر ہیں ۔ البتہ اس مجموعے میں غزلیات زیادہ ہیں ۔ ان کی غزلوں میں حقیقت نگاری کا رنگ جھلکتا ہے ۔ دیکھیے یہ شعر ۔
جفا سے تم نہ باز آوَ وفا سے ہم نہ باز آئیں
یہ کیسے موڑ پر آکر کھڑی ہے دوستی اپنی
پروفیسر منظر ایوبی نے شکیل وحید کی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ’شکیل وحید کی غزل کا آج بھی ایک خاص موضوع کلاسیکل شعراء کی طرح عشق و محبت اور جمالیات و جذبات سے متعلق ہے مگر انہوں نے اپنے منفرد، دل نشیں و دل آویز اسلوب بیان کی وجہ سے خود کو فرسودگی اور قدامت پرستی کی چھاوَ سے بچا رکھا ہے‘‘ ۔ معروف افسانہ نگار اور شاعر زیب اذکار حسین نے شکیل وحید کو تازہ کار اظہاری صورتوں کا شاعر قرار دیا ۔ انہوں نے شکیل وحید کے مجموعے پر ’’تازہ کار اظہاری صورتوں کا شاعر: شکیل وحید صلہ عشق کے متمنی‘‘ کے تحت لکھا ۔ کہتے ہیں کہ ’’شاعر شکیل وحید اپنی غزلوں میں انتہائی سادگی و سلاست کے ساتھ امکاناتِ آئندہ سے خوب بر سرِ پیکار ہیں ، ایک تازہ کار اور باشعور شاعر کے مجموعی تخلیقی رویہ کا عکس اس کے عمومی اشعار میں جھلکتا ہے‘‘ ۔ زیب اذکار کی رائے صائب ہے ، وحید کے کالم میں سادگی و سلاست پائی جاتی ہے ۔
شکیل وحید کے کلام میں سادگی، خلوص اور صداقت کا عنصر نمایاں ہے ، شاعر نے فنی رموز کو سچائی کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔
بدل کر رہ گئی ہے کس قدر یہ زندگی اپنی
نہ اپنی سوچ ہے اپنی نہ ہے اب آگہی اپنی
شاعر نے شاعری میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جو عام زندگی میں معروف ہیں اور عوام الناس ان سے اچھی طرح آگاہ
ہیں ۔ ان کا انداز اور لب و لہجہ سیدھا سادہ اور عام ہے ۔ ایک شعر ۔
بچاوَ گے کب تک حقیقت سے دامن
وفاؤں سے دامن محبت سے دامن
شکیل وحید نے اپنی بات کو بیان کرنے کے لیے بے تکلفی سے کام لیا ہے ۔ وہ اشاروں کنایوں میں بات نہیں کرتے بلکہ جو بات کہنی
ہوتی ہے اسے صاف صاف کہہ ڈالتے ہیں ۔ یہی ادا ان کی شاعری کو منفرد بناتی ہے ۔
سب کہہ دیا اگرچہ زباں بند ہی رہی
یارو کمال کی یہ اشاروں کی بات ہے
شکیل وحید کی شاعری عشق و محبت تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے زندگی کے مسائل کو شاعری کی زبان دی ہے، شعرمجموعے ’ طلسم روز و شب ‘‘ سے چند اشعار جو میرے پیش نظر ہیں ۔
کیوں ترے لب پر وفا کا نام ہے ہر پل وحید
بات کوئی ایسی کر سننے کے جو قابل بھی ہو
ہمیشہ آگ لگانے کو لوگ آتے ہیں
ہمارے دل کو جلانے کو لوگ آتے ہیں
یہ سچ ہے جواں ہو بہت ہی حسین ہو
مگر میری جاں تم خدا تو نہیں ہو
ارے ارے راہِ محبت پہ چلنے والو سنو
یہ ایک کار خطا ہے جہانِ فانی میں
محبت ہوہی جاتی ہے محبت کی نہیں جاتی
وگر نہ کون ایسا ہے جو خود اپنا بُرا چاہے
رات اِک سپنے میں ہم نے کچھ یوں دیکھا اے وحید
یار تھے چاروں طرف اور یادوں کی بارات تھی
جفا سے تم نہ باز آوَ وفا سے ہم نہ باز آئیں
یہ کیسے موڑ پر آکر کھڑی ہے دوستی اپنی
(۲۲ جولائی۰۲۰۲ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280764 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More