اُمید سہارا دیتی ہے(شعری مجموعہ) ;241;رانا خالد محمود قیصر

اُمید سہارا دیتی ہے(شعری مجموعہ) ;241;رانا خالد محمود قیصر
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

’اُمید سہارا دیتی ہے‘ ،رانا خالد محمود قیصر کا شعری مجموعہ ہے ۔ سلسلہ ادبی جریدے کے چیف ایڈیٹر مرتضیٰ شریف کے توسط سے قیصر صاحب نے خلوص و محبت کے الفاظ کے ساتھ مجھ ناچیز کو عنایت فرمایا ۔ ابتدائی صفحات کا مطالعہ کر کے میں سوچ میں پڑگیا کہ جس مجموعے پر متعدد نامی گرامی شاعروں اور ادیبوں نے اظہار خیال کیاہوہے، جس سے قیصر صاحب کی شاعری کی اہمیت دوچند ہوتی ہے اب میں اس پر کیا اضافہ کر سکوں گا ۔ میرے نذدیک یہی خوبی کیا کم ہے کہ رانا خالد محمود قیصر صاحب کے شاعری کے مجموعے پر ڈاکٹر شاداب احسانی اور علمدار حسین اسلم کے فلیپ کے علاوہ رانا سعید دوشی ، پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی، ڈاکٹر نزہت عباسی، ڈاکٹر فرحت عباس، نسیم سحر، شاذیہ اکبر، اکرم کنجاہی، پروفیسر سعید حسن قادری، سحر تاب رومانی، ڈاکٹر محمد افتخار شفیع، مسلم شمیم نے قیصر صاحب کی شاعری کو اپنا موضوع بنایا ۔ یہ قیصر صاحب کا دوسرا شعری مجموعہ ہے اس سے قبل ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ہندسوں کے درمیاں ‘‘ منظر عام پر آچکا ہے ۔ پیش نظر مجموعہ میں غزلیں زیادہ ہیں جب کہ نظم اور قطعات بھی چند ہیں ۔ اندازہ ہوتا ہے کہ قیصر صاحب غزل کے شاعر ہیں تاہم نظ میں بھی اچھی کہیں ہیں ۔ مجھے کتاب کے اختتام پر پہنچ کر ان کی نظموں کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ قیصر صاحب میرے ہم وطن یعنی راجپوت ہیں ۔ میں بنیادی طور پر راجپوت ہی ہوں ، میرے آبا نے راجپوتانہ سے اپنی ہجرت کا آغاز کیا، دہلی ہوتے ہوئے ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے قصبے حسین پور کو آباد کیا جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو پاکستان ہجرت کی اور پاکستان کے مختلف شہروں خاص طور پر کراچی، لاہور، ملتان،اسلام آباد میں آباد ہوئے، میرے والدین نے کراچی کا انتخاب کیا اور ہم کراچی کی گلی کونچوں میں پروان چڑھے اور یہیں بوڑھے ہوگئے ۔
پیش نظر مجموعہ شاعرکے شعری ذوق اور شعری دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور کلام کی جامعیت صاف عیا ں ہورہی ہے ۔ رانا خالد محمود قیصر کا پہلا شعری مجموعہ ’ہندسوں کے درمیاں ‘ تھا جس کی پسندیدگی نے شاعر کو حوصلہ دیا اور انہوں نے مشق سخن جاری رکھی جس کے نتیجے میں ان کا دوسراشعری مجموعہ ’اُ مید سہارا دیتی ہے ‘ منظرعام پر آیا ۔ نعتِ رسولِ مقبول ﷺ سے مجموعے کا آغاز ہوا ہے ، نعت کا آخری شعر ۔
قیصر کی تمنا ے مدینے کی طرف چل
یہ آرزوئے خاص جو منظورِ خدا ہو
مجموعے پر کئی دانشوروں اور سخنوروں کی رائے شامل ہے، فلیپ ڈاکٹر شاداب احسانی اور علمدار حسین اسلم نے اظہار خیال کیا ہے ۔ علمدار حسین اسلم کا کہنا ہے کہ’ رانا خالد محمود قیصر کی غزل میں سادگی ، دل کشی، دل ربائی اپنے لب و لہجہ میں جلوہ گر ہے‘ ۔ رانا سعدی دوشی کہتے ہیں کہ رانا خالد محمود قیصر کی غزل میں کلاسیکل رومانیت ، جدید امتزاج کے ساتھ اس طرح رونما ہوتی ہے کہ مصرعہ مصرعہ دھنک کے رنگ قطاس کے آفاق پر جھولا ڈالتے محسوس ہونے لگتے ہیں ‘ ۔
ہم کہ جو مانوسِ تنہائی رہے
اپنا سایہ دیکھ کر بھی ڈر گئے
پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی نے لکھا کہ ’ان کی غزل روایت سے جڑی ہوئی ہونے کے باوجود عصری شعور سے بے بہرہ نہیں ہے ۔ روایت اور عصری آگہی کے امتزاج نے ان کے احساس طبیعت سے خوب کام لیا ہے اور ان سے ایسے ایسے گرانما یہ شعر بھی کہلوئے ہیں ۔
اے ذوق طلب کون سی منزل پہ کھڑا ہوں
اب دل کے دھڑکنے کی بھی آواز نہیں ہے
ڈاکٹر نزہت عباسی نے لکھا کہ’ خالد رانا اپنے عہد کے المیوں سانحوں کو بھی اپنے شعروں میں بیان کردیا ہے ۔ ان کی غزلوں میں آج کے انسان کے دکھ ہیں ، ان کی خوشی اور مسرتوں کے رنگ نمایاں ہیں ۔ وہ اپنے عہد کی سچائیوں سے واقف ہیں اور جھوٹ سے بھی اور مصلحت و عنایت کے رویے سے بھی جس کو ہم اختیار کرنے پر مجبور ہیں کہ درمیانی رہ یہی ہے ۔
کس طرح بات کہوں کس سے مخاطب ہوں میں
آج بھی عزتِ تہذیب بشر رکھنی ہے
ڈاکٹر فرحت عباس کہتے ہیں کہ ’انہوں نے جہاں کہیں غزل کے روایتی مضمون باندھے ہیں وہاں بھی اپنے لفظی حسن سے ان میں بودیدگی نہیں پید ہونے دی ۔
کس طرح جام پیوں میں مجھے پیمانے میں
ساقیا آپ کی تصویر نظر آتی ہے
نسیم سحر نے لکھا ’مختصر بحروں میں انہوں نے اپنی فنی دسترس اور سہلِ ممتنع کا مظاہرہ عمدہ طریقے سے کیا ہے اور قاری کو غزل کی ایک رومانوی کیفیت سے روشناس کیا ہے ۔
نام پر تیرے مرسکوں تو جیوں
یہ نیا کام کرسکوں تو جیوں
شاذیہ اکبر نے کہا کہ رانا خالد محمود قیصر کی غزل میں جہاں کلاسیکی رچوَ ہے وہیں فنی پختگی بھی ہے جو کسی بھی اچھے شاعر کے لیے اثاثہ ہوتا ہے‘ ۔ معروف شاعر، تنقید نگارو دانش ور اکرم کنجاہی نے مجموعہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ اکرم کنجاہی نے ایک جگہ لکھا ’ انہوں نے وہ علامتیں استعمال کی ہیں جو ایک زمانے میں مقبول عام تھیں ۔ ساغر، مے خانہ، ساقی، مے کش، جنوں ، داماں ، چاک گریباں ، حجاب، نقاب، آشیانہ، چار تنکے، بجلی، گردش ، جام وغیرہ ۔ وہ روایت سے جڑے ہوئے ہیں مگر انہوں نے شعری تجربات یا صنعتوں کا استعمال نہیں کیا، اس لیے کہ وہ عصر ِ حاضر کے شاعر ہیں ۔ دوسری طرف موجودہ عہد کے شعراء کی طرح مشکل ترکیبیں اور کثرت سے اضافتیں استعمال نہیں کیں ہیں ۔ روایتی مضامین باندھے ہیں مگر سادگی ، روانی اور رعنائی کے ساتھ وہ لفظ پرستوں کی ظاہر دار دنیا سے کوسوں دور ہیں ۔
جب دل میں کوئی درد نہیں راز نہیں ہے
آواز میں بھی سوز نہیں ساز نہیں ہے
پروفیسر سعید حسن قاردری عقدہ کھولا ، اس بات کا ذکر اکرم کنجاہی نے بھی کیا کہ رانا خالد محمود قیصر اذفر زیدی کے تلامذہ میں سے ہیں ۔ انہوں نے سب سے پہلے ایک کتاب ’استاد اذفر کون ہے‘تحریر کی ۔ استاد کی تعزیم اور عقیدت میں کتاب لکھنا یقینا قابل تقلید عمل ہے ۔ سحر تاب رومانی نے لکھا کہ رانا خالد محمود قیصر کسی خاص مکتبہ فکر کے شاعر نہیں ہیں اور نہ ہی کسی مخصوس نظریے کا اظہار شاعری میں نظر آتا ہے ، ان کا نظریہ صرف شعر ہے ، ان کے اندر شاعری کی خداداد صلاحیت موجود ہے‘ ۔ ڈاکٹر محمد افتخار شفیع نے اختصار سے کام لیتے ہوئے لکھا کہ ’رانا خالد صاحب کی یہ کتاب محبت کی بوطیقا ہے‘ ۔
محبت کے دریا میں طوفان آیا
مگر کوئی کشتی چلی نارہی ہے
مجموعے پر اظہار خیال کرنے والے آخری ادیب مسلم شمیم ہیں انہوں نے لکھا ’ غزل ان کے ،مزاج سے بھر پور مطابقت رکھتی ہے ۔ ان کی غزلوں میں خلوص و محبت کی لہریں ان کے رگ و پے میں رچی بسی ہے ۔ وہ خلوص و محبت کے پیکر ہیں ۔ ان کی غزلوں میں خلوص و محبت کیی لہریں قارئین کو اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے‘ ۔
غزلیات کا آغاز جس غزل سے ہوا اس کا مقطع دیکھئے ۔
ہر ایک چیز تو شام و سحر کی زد میں ہے
ہمارا قلب تمہاری نظر کی رز میں ہے
اِسی غزل کا مطلع کچھ اس طرح ہے
یہ کائینات خدا کی وسیع تر قیصر;207;
فقط طلب ہی شعورِ بشر کی زد میں ہے
رانا خالد محمود قیصر کے شعری مجموعہ’ اُمید سہارا دیتی ہے ‘ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قیصر تخلیقی مزاج کے مالک ہیں ۔ ان کی شاعری تمام تر تخلیقی اظہار سے مرصع ہے ۔ وہ غزل کے شاعر ہیں ۔ الفاظ کو خوبصورتی سے استعمال کرنا جانتے ہیں ۔ وہ شاعری کے فنی تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ الفاظ و معنی سے واقف ہیں ، وہ کسی بھی بات کو شعر کے پیرائے میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔ دیکھیے ان کا ایک شعر ۔
جب تصور میں آپ آتے ہیں
ہم خیالوں میں مسکراتے ہیں
پیش نظر مجموعہ رانا خالد محمود قیصر کے غزل گو ہونے کی گواہی دیتا ہے لیکن انہوں نے نظم بھی کہی ، ان کی ایک نظم ’اپنی قوم سے خطاب کے ابتدائی اشعار دیکھئے ۔
عظمتوں کا ہر نشاں تم سے رہا
یوں بہاروں کا سماں تم سے رہا
دل میں اِک عزم ِ جواں تم سے رہا
ہاں مگر فکر و عمل کچھ اور ہاں
یوں صفوں میں آئے گا پھر اتحاد
ترانہ راجپوت اور نظم راجپوت ان کے راجپوت ہونے کی گواہی دے رہی ہیں ۔
ہم ایک سے ہزار ہیں
نظر میں بے شمار ہیں
ہمی تو شہ سوار ہیں
جہاں پہ آشکار ہیں
جو قوم کے سپوت ہیں
ہمی تو راجپوت ہیں
مزاج شعور ِ قیصر ادب
بدل شعورِ بے سبب
خلوصِ کار سب کے سب
بدل غرورِ بے طلب
جو قوم کے سپوت ہیں
ہمی تو راجپوت ہیں
’نظم ِ راجپوت‘ کے عنوان سے بھی ایک نظم رانا خالد محمود قیصر نے لکھی دیکھئے ابتدائی اشعار ۔
بہت تاریخیں لکھی جائیں گی اکثر زمانوں میں
نہ ہوجاوَزباں رکھتے ہوئے بھی بے زبانوں میں
تمہارا نام روشن ہو جہاں کی داستانوں میں
بدل ڈالو چلن اپنا اگر ملت کی عزت ہو
ترانہ راجپوت ‘ اور’نظم ِ راجپوت ‘پر اپنا اظہاریہ اس دعا پر ختم کرتا ہوں ۔ اللہ رے زور قلم اور زیادہ ۔
(28جوہائی2020ء)‘‘‘
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280697 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More