آن لائن کلاسز اور طلبا کے مسائل۔۔۔

دوپہر دو بجے کا ٹائم تھا میں گلگت پہنچ گیا گاڑی سے اترا مگر راستے میں کافی تھک گیا تھا اس لئے بہت نیند آرہی تھی لیکن ابھی میرا دوست شاہد جس کے پاس میں گیا تھا وہ مجھے لینے سٹیشن نہیں پہنچا تھا تو میں سٹیشن کے انتظار گاہ میں بیٹھ گیا اچانک زبردست نعرے سننے کو ملے میں نے دیکھا تو دور نوجوانوں کی ایک بڑی ریلی آگے بڑھ رہی تھی جس میں لڑکیاں بھی تھی ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈز بھی تھیں لیکن دور سے نظر نہیں آرہے تھیں جب ریلی نزدیک پہنچ گئی تو میں نے پلے کارڈز کو پڑھا جس پر لکھا تھا کہ آن لائن کلاسز نامنظور ، نوجوانوں کی مستقبل کے ساتھ کھلواڑ بند کرو اور یہی نعرے بھی لگا رہے تھے میں حیران ہوگیا کہ آن لائن کلاسز میں تو ان کا وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے اور ان کا مستقبل محفوظ ہوجایگا اس میں ان کا کیا نقصان ہے کہ یہ لوگ احتجاج کررہے ہیں کیونکہ کرونا وائرس کی وجہ سے تو یہ ممکن نہیں کہ تعلیمی ادارے کھول دیئے جائے اس لئے یہ زبردست اقدام ہے کہ ان کے ساتھ آن لائن کلاسز لی جاتی ہے اور ان کی مستقبل کو تباہی سے بچاتے ہے بحرحال میں نے یہ سوچا کہ ہر کوئی اپنا بھلائی چاہتا ہے کوئی اپنی بھلائی کے خلاف نہیں ہوتا، اس لئے ان کی احتجاج کے پیچھے کوئی لاجک ضرور ہوگا جو بحثیت طلباء صرف ان کو معلوم ہوگا اس لئے میں نے وہ وجہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اٹھ کر ان کی طرف آگے بڑا اور احتجاج میں موجود ایک نوجوان لڑکے سے احتجاج کے بارے میں معلوم کیا نوجوان نے مجھے کہا کہ آن لائن کلاسز کیلئے پہلے تو لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فون ضروری ہے جو کہ ہم میں سے زیادہ تر طلباء کیلئے غربت کی وجہ سے خریدنا مشکل ہے اور اگر کہی سے قرض پر خرید بھی لیں تو پھر اس کیلئے نیٹ پیکج کیلئے تقریباً 1500 روپے ماہانہ چاہیے جو کہ ہم غریب طلباء کیلئے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اس کے ساتھ وہ کہنے لگا کہ یونیورسٹیاں تو بند بڑی ہے مگر پھر بھی اس سمسٹر کا فیس معاف نہیں کرتے فیس ہم سے وصول کرینگے اگر یونیورسٹیاں فیس معاف کر جاتے تو انہی پیسوں پر ہم اپنے لئے آن لائن کلاسز کی بندوبست کرلیتے وہ لڑکا مزید فریاد کررہا تھا کہ میری نظر احتجاج میں موجود ایک خوبصورت لڑکی پر پڑی تو میں اس کی طرف بڑا اور لڑکی کو بہن کہہ کر اپنی طرف محاطب کرکے پوچھا بہن آپ کو بھی آن لائن کلاسز سے کوئی مسئلہ ہے؟ وہ نظرے نیچے کرکے اور آہستہ سی بولنے لگی بھائی ایک طرف اگر فنانشل مسائل ہے کیونکہ میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں میرا ابو ایک دیھاڑی دار مزدور ہے تو دوسری طرف ہماری علاقے میں نیٹ نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے کلاسز لینے کیلئے مجھے پہاڑ کی چوٹی پر جانا پڑتا ہے اور میں اپنی والدین کی اکلوتی بیٹی ہوں، میرا بھائی نہیں ہے اور ابو کام پہ جاتا ہے امی بھی بوڑھی ہوگئ ہے میرا کوئی ساتھی نہیں ہوتا کہ میرے ساتھ پہاڑ کے چوٹی پر جاسکے اور اکیلے جانا علاقے کی روایات کے برعکس ہے اس لئے میں آن لائن کلاسز لینے سے قاصر ہوں وہ مزید بولنے لگی کہ ہمارا ایچ ای سی سے پرزور مطالبہ ہے کہ اس سمسٹر کا فیس معاف کر دیا جائے کیونکہ یونیورسٹیوں میں زیادہ تر ہمارے جیسے غریب طلباء بھی پڑھتے ہیں اور دوسرا بڑا مطالبہ یہ ہے کہ یا تو آن لائن کلاسز کا یہ سلسلہ بند کردیا جائے اور یا ہمارے جیسے پسماندہ علاقوں کے طلبا و طالبات کیلئے نیٹ کا بندوست کردیا جائے وہ یہ باتیں کررہی تھی کہ ساتھ میں کھڑی ایک اور خوبصورت لڑکی خود سے بولنے لگی اور مجھ سے ایک ایسا عجیب سوال کیا جس نے مجھے خاموش کردیا ان کا سوال یہ تھا کہ کیا ہمارا ملک صرف ان اشرافیہ اور امیروں کیلئے ہے؟ میں نے نظریں جھکائے اور خاموش ہوگیا، میری خاموشی کو دیکھتے ہوئے وہ پھر بولنے لگی کہ جو بھی فیصلہ ہوتا ہے ان امیروں کی مفادات کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے اور وہ مزید کہنے لگی کہ امیر لوگ تو اپنی محلات میں آن لائن کلاسز آسانی سے آٹنڈ کرلینگے مگر پاکستان کے زیادہ تر لوگ پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں ان کا کیا ہوگا اور کہنے لگی کہ مجھے شکوہ ان لوگوں سے ہے جو ایسی پالیسیاں بناتی ہے کیا انہیں یہ معلوم نہیں، مگر پھر خود کو تصلی دیتے ہوئے کہنے لگی کہ آندھا کیا جانے بسند کی بہاریں، اور کہنے لگی کہ جو لوگ فیصلے کرتے ہے وہ اے سی روم میں سکون سے بیٹھے ہوتے ہیں ان کو ہماری مشکلات کا کیا پتہ مگر ہم ان سے یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ آپ ذرا ان پسماندہ علاقوں کا وزٹ کرکے پھر پالیسی بنائے تو پھر آپ کو کم از کم ہماری مشکلات کا احساس ضرور ہوگا وہ اپنا مزید درد کی داستان سنارہے تھے کہ مجھے اپنی دوست شاہد کا فون آیا جس کا میں انتظار کررہا تھا کہ ہم آپ کو لینے کیلئے آڈے میں پہنچ گئے ہے تو میں نے ان طلباء و طالبات کو اللّٰہ حافظ کہہ کر سیدھا روانہ ہوا مگر ان کی باتوں سے میرے اندر بھی ایک عجیب کیفیت پیدا ہوئی اور جیسا ہی میں اپنے دوست شاہد سے ملا تو سلام کلام کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیوں آپ تو افسردہ لگ رہے ہوں میں نے ان کو وہ داستان سنائی شاہد نے میری باتوں کو خاموشی سے سنیں کے بعد بولا کہ آج اگر ہم تعلیم میں دنیا سے اتنا پیچھے ہے تو اس کا یہی وجہ ہے کہ ہم قوم کیلئے پالیسیاں نہیں بناتے بلکہ اس ملک کی اشرافیہ کیلئے بناتے ہے اگر پالیسی میکرز کے ساتھ یہ احساس ہوتا کہ ہمارے زیادہ تر لوگ پسماندہ علاقوں میں رہتے ہیں تو آج ہم ٹیکنالوجی کی دنیا میں اتنا پیچھے نہیں ہوتے اور نہ ہی ہر چھوٹے بڑے چیز کو امپورٹ کرتے، آج اگر یہ ملک اتنے مسائل کے دلدل میں گرا ہوا ہے تو اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہماری پالیسیاں صرف کچھ اشرافیہ کیلئے ہے وہ یہ باتیں کررہے تھے کہ ہم ان کے حجرے میں پہنچ گئے اور گاڑی سے اترے تو وہ مجھے کہنے لگا کہ بہرحال اب ان باتوں کو چھوڑ دیں آپ جا کر فریش ہو جائے اور میں چائے لارہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
Abdul Sami Khan
About the Author: Abdul Sami Khan Read More Articles by Abdul Sami Khan: 8 Articles with 5405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.