تعلیمی ادارے تباہ، کچہریاں آباد

 تعلیمی اداروں کی تباہی ، کچہریوں میں رش ، اپوزیشن اور حکومتی میں شامل لوگوں کی جہدوجد اور تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے اٹھا ئے اقدامات ملک اور قوم کی ترقی حال بتا رہے ہیں ۔ دوسری جانب مال روڈ لاہور پنجاب اسمبلی کے سامنے صوبے بھر سے آئے اساتذہ بھوک ، پیاسے ، کھلے آسمان تلے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پارٹنر سکولوں کی ادائیگیوں،بقایا جات اور جائز ہ مطالبات کیلئے دوہفتوں سے جاری دھرنا اور احتجاج پر پولیس کا پہرہ اور حکومت کا سخت ردعمل اس بات کی گواہی دے رہاہے کہ تعلیمی ادارے تباہ، کچہریاں آبادرہیں گی ۔کسی دانشور کا قول ہے کہ تعلیم کا بنیادی مقصد اچھی زندگی گزارنا اور خود کو وقت و حالات کے مطابق بخوبی ڈھالنا ہوتا ہے۔

مغل بادشاہوں کی بداعمالیوں کے قصوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن استاد کا احترام وہ بھی خود پر واجب سمجھتے تھے۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کو ملا احمد جیون سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ شہنشاہ بننے کے بعد ایک روز استاد کی یاد ستائی تو انہوں نے ملاقات کا پیغام بھیجا۔ دونوں نے عید کی نماز ایک ساتھ ادا کی، وقت رخصت اورنگزیب نے محترم استاد کو ایک چوّنی چار آنے بصد احترام پیش کیے۔ مشہور ہے کہ خلیفہ ہارون رشید کے دو صاحبزادے امام نسائی کے پاس زیر ِ تعلیم تھے۔ ایک بار استاد کے جانے کا وقت آیا تو دونوں شاگرد انہیں جوتے پیش کرنے کیلئے دوڑے، دونوں ہی استاد کے آگے جوتے پیش کرنا چاہتے تھے، یوں دونوں بھائیوں میں کافی دیر تک تکرار جاری رہی اور بالآخر دونوں نے ایک ایک جوتا استاد کے آگے پیش کیا۔ خلیفہ ہارون رشید کو اِس واقعے کی خبر پہنچی تو بصد احترام امام نسائی کو دربار میں بلایا۔مامون رشید نے امام نسائی سے سوال پوچھا کہ، ‘‘استادِ محترم، آپ کے خیال میں فی الوقت سب سے زیادہ عزت و احترام کے لائق کون ہے مامون رشید کے سوال پر امام نسائی قدرے چونکے۔ پھر محتاط انداز میں جواب دیا،میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ احترام کے لائق خلیفہ وقت ہیں خلیفہ ہارون کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ اتری اور کہا کہ ہرگز نہیں استادِ محترم سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانے کے لیے خلیفہ وقت کے بیٹے آپس میں جھگڑیں۔

حقیقت یہ ہے کہ استاد علم کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ قوموں کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا رول اہمیت کا حامل ہوتاہے۔تعمیر انسانیت اور علمی ارتقاء میں استاد کے کردار سے کبھی کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔ ابتدائے افرینش سے نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی مقام حا صل ہے۔اساتذہ کو نئی نسل کی تعمیر و ترقی،معاشرے کی فلاح و بہبود ،جذبہ انسانیت کی نشوونما اور افرادکی تربیت سازی کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔استاد اپنے شاگردوں کی تربیت میں اس طرح مگن رہتا ہے جیسے ایک باغبان ہر گھڑی اپنے پیڑپودوں کی نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔ تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب اور معاشرے میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ لیکن یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیائے علم نے استاد کی حقیقی قدر و منزلت کو کبھی اس طرح اجاگر نہیں کیا جس طرح اسلام نے انسانوں کو استاد کے بلند مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے۔ اسلام نے استاد کو بے حد عزت و احترام عطاکیا۔

کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے۔ وہ ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں۔ ایک معمولی سے نوخیز بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہے۔ وہ ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اْستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرومحبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اْستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔معاشرے میں جہاں ماں باپ کا کردار بچے کے لیے اہم ہے، وہاں استاد کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ ماں باپ بچوں کو لَفظ بہ لفظ سکھاتے ہیں، ان کی اچھی طرح سے نشوونما کرتے ہیں، ان کو اٹھنے، بیٹھنے اور چلنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں مگر استاد وہ عظیم رہنما ہے جو آدمی کو انسان بنا دیتا ہے، آدمی کو حیوانیت کے چْنگل سے نکال کر انسانیت کے گْر سے آشنا کرواتا ہے۔ استاد آدمی کو یہ بتاتا ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کے ساتھ کیسے رشتے قائم رکھنے چاہئیں۔ استاد، ایک معمولی سے آدمی کو آسمان تک پہنچا دیتا ہے۔ استاد مینار نور ہے جو اندھیرے میں ہمیں راہ دکھلاتا ہے۔ ایک سیڑھی ہے جو ہمیں بلندی پر پہنچادیتی ہے۔ ایک انمول تحفہ ہے جس کے بغیر انسان ادھورا ہے۔دیکھا نہ کوئی کوہ کن فرہاد کے بغیرآتا نہیں ہے کوئی فن استاد کے بغیراستاد کو والدین کے بعد سب سے زیادہ محترم حیثیت حاصل ہے، بادشاہ ہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ، خلیفہ ہوں یا ولی اﷲ سبھی اپنے استاد کے آگے ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آئیں گے۔

حکومت وقت کو اپنے نظرئیے اور فیصلوں پر نظر ثانی کر نا ہو گی ۔ کیونکہ تعلیم ہر انسان چاہے وہ آمیر ہو یا غریب ،مرد ہو یا عورت کی بنیادی ضرورت میں سے ایک ہے یہ انسان کا حق ہے جو کوئی اسے نہیں چھین سکتا اگر دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہیں تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کیلئے ترقی کی ضامن ہے یہی تعلیم قوموں کی ترقی اور زوال کی وجہ بنتی ہے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول ،کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اسکے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور قتدار کا خیال رکھ سکے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹرنیٹ اور بجلی کی عدم دستیابی، کمپیوٹر سے متعلق کم معلومات اور غربت علم کی اس راہ کی بڑی رکاوٹیں ہیں تاہم ضروری ہے کہ وزارتِ تعلیم اس حوالے سے ایک مربوط پروگرام مرتب کرے اور تمام ذرائع ابلاغ بشمول ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، میگزین، کتب اور انٹرنیٹ کے ذریعے ملک کے طول و عرض میں پھیلے تمام طلبا کو علم و جستجو کے نت نئے مواقع فراہم کیے جائیں۔اس لیے بجائے اس بحث میں وقت ضائع کرنے کے کہ سکول، کالج اور جامعات کب، کہاں اور کیسے کھلیں گی اور امتحانات کیسے لیے جائیں گے، ضروری ہے کہ اس وقفے میں وزارتِ تعلیم ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرے کہ آئندہ سالوں میں کس طرح متبادل آن لائن اور ابلاغی تعلیم کو ترویج دی جائے گی۔
 

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 15 Articles with 12594 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.