میں بقلم خود بچپن سے محو حیرت ہوں،بس ایک
ہی سوال مجھ سے سراپا ء احتجاج ہے۔آخر یہ جوتیاں کب اس کرہ ارض پر تشریف
لائی تھیں؟
وہ کون سا پہلا خوش نصیب شخص ہو گا جس نے سب سے پہلے اپنے پاؤں میں جوتا
پہنا ہوگا۔اس نا چیز جوتے پر تحقیق شدہ کوئی کتابچہ بھی دستیاب ہوگا یا
نہیں؟
میں تھوڑی سی حیران اس لیے بھی ہوں کہ کسی مؤرخ یا سائنسدان نے اپنی تحقیق
کا رخ اس طرف موڑتے ہوئے جوتیوں کا سن پیدائش معلوم کرنے کی کوشش کیوں نہیں
کی؟
آخر کوئی تو میری طرح جوتیوں کا دلدادہ ہوتا جو پتا لگانے کی کوشش کرتا کہ
جوتیوں کی پیدائش اس جہاں میں کیونکر اور کیسے ممکن ہوئی؟
جہاں تک بات میرے اپنے تئیں کی ہے تو میں نے بابے گوگل کے علاوہ بہت چھان
بین کی،بہت ساری کتابیں اور رسائل کنگال مارے مگر مجال ہے جو کہیں سے جوتوں
کے پہلے خاندان کا تعین کیا جا سکتا،جہاں جہاں انسان کا ذکر ملتا ہے وہاں
جوتوں کے ہونے کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
ہاں البتہ زمانے کے ساتھ ساتھ ان کی نسلیں بھی تبدیل ضرور ہوئی ہیں جیسے کہ
چمڑے کے جوتے،لیلون،چاولہ،لیزہ وغیرہ وغیرہ۔
اور پھر آج کل تو فینسی برادر کا دوردورہ ہے۔
نہ جانے کیوں کیوں ان غریب زادوں اور زادیوں کو اتنا غیر اہم سمجھ لیا گیا
ہے کہ موضوع کلام بنایا ہی نہیں جاتا۔حالانکہ میرے خیال سے جتنی اہم جوتیاں
ہیں اتنے ہم انسان بھی نہیں ہیں۔میری طرح شاید آپ کو بھی یاد ہوگا کہ جب
بھی ہماری خواتین کی لڑائی ہوتی ہے وہ ایک دوسرے کو جوتے کی نوک پر ہی
رکھتی نظر آتی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک مشہور ومعروف مقولہ بھی جوتیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہی
نظر آتا ہے۔
٫٫تجھ سے تو ڈرتی ہے میری جوتی،،
اس کے علاوہ مرد حضرات خواتین کی اہمیت جوتیوں کے برابر گردانتے ہیں اور
خواتین کو سر پر چڑھانا خود اپنے سر پر جوتیاں مارنے کے مترادف سمجھا جاتا
ہے۔ان جوتیوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک
نیا نویلا دولہا سوٹ چاہے ایک ہزار کا واش اینڈ وئیر پہن لے مگر جوتا ضرور
پانچ ہزار کا تلے والا ہی پہنتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جوتیوں کا ہر انسان کے ساتھ مختلف ادوار میں مختلف ناتا
ہوتا ہے،بس عمر کے ساتھ ساتھ جوتیوں سے وابستہ یادیں بھی بدلتی رہتی
ہیں۔مثلابچپن کے زمانے میں اماں کا جوتا اس قدر بھیانک اور خوفناک ہوتا ہے
کہ کیا بتائیں،مجھ جیسے کاہل اور ناچار لوگوں نے بچپن میں فجر کی نماز پڑھ
کر جو نیکیاں سمیٹی ہیں،سچ کہیں تو اماں کے جوتے کی بدولت ہی ممکن ہوئیں۔
اماں کا جوتا اس قدر توانا اور فارایور ہوتا ہے کہ چاہے جتنا بھی پرانا ہو
جائے جہاں پہ پڑتا ہے نشان چھوڑ ہی جاتا ہے،میرےکانوں میں تو اب تک کبھی
کبھی ایک آواز گونجتی ہے۔
٫٫اتاروں جوتی،،
کچھ مرد حضرات کیلئے بھی جوتیوں کی یادیں نہایت ہی ہیبت ناک ہوتی ہیں جو
بسوں،ٹیکسیوں اور رکشوں میں اپنی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے جوتوں سے نوازے
جاتے ہیں،جب ان پر جوتے سے تابڑ توڑحملہ ہوتا ہے،ان بیچاروں کو تو خبر بھی
تبھی ہوتی ہے کہ جوتا ایک ہتھیار بھی ہو سکتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ جوتیوں کی روایات بھی بدلتی جا رہی ہیں۔مثلاپہلےزمانوں
میں چمڑے کے جوتے محض پاؤں کو سردی،گرمی اور گندگی سے بچانے کےلئے استعمال
ہوتے تھے۔اس وقت جوتے اس قدر پائیدار ہوتے تھے کہ چٹخا چٹخا کر گھس جاتے
مگر ٹوٹتے نہیں،اگرتھوڑی بہت اونچ نیچ ہو بھی جاتی تو کیل،ٹانکہ لگانے
کےلئے موچی موجود ہوتے،تقریباایک جوتا ایک انسان کی آدھی زندگی کےلئے کافی
ہوتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوتیوں کو پاؤں کی زیبائش اور بطور فیشن استعمال
کیا جانے لگا،فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے زمانوں میں جہاں ایک مہمان ایک سوٹ
اور ایک جوتا پہن کر جاتا،وہی مہمان ایک بیگ کپڑوں اور ایک بیگ جوتوں کے
ساتھ جانے لگا۔جہاں دوکانداروں کا کاروبار ٹھپ تھا وہیں موچیوں کا گل ہو کہ
رہ گیا۔
اب تو بات اس سے بھی آگے بڑھ چکی ہے،اب تو ہمیں ہر نئی تقریب میں نئے سوٹ
کے ساتھ نئے جوتے کی بھی ضرورت ہوتی ہے،پھراسےایک بار استعمال کرنے کے بعد
دوبار پہن بھی نہیں سکتے،کیونکہ وہ تو لوگ دیکھ چکے ہوتے ہیں۔دیکھاواکرتے
کرتے نتیجہ یہ نکلا کہ جوتیوں کی تعداد نہایت ہی تشویشناک حد تک بڑھ چکی
ہے۔پہلےپہل جہاں جوتے صرف پاؤں میں ہوتے تھے،پھرالماریوں،پیٹی سٹینڈز اور
بیڈسائیڈٹیبل کی زینت بننے لگے،بات ذرہ اس سے بڑھی تو جوتوں کےلئے علیحدہ
الماریاں خریدی جانے لگیں،اب تو ان میں بھی جگہ کم پڑنے لگی ہے،کمروں میں
فرش پر بھی جگہ جگہ جوتے ہی نظر آتے ہیں،یہاں تک کہ ابھی بھی میرے سامنے
پڑے دس بارہ جوڑے جوتے ہاتھ جوڑ کر دھائی دیتے ہوئے اپنی آبادی کو کم کرنے
کی درخواست کررہے ہیں۔
اب اپنے تئیں یہ بیچارے بھی سچے ہیں ،کیونکہ پاکستان میں 22کروڑآبادی پر کم
از کم جوتیوں کی آبادی پانچ یا چھ عرب ہونے کے قوی امکان ہیں۔اب ان بیچاروں
کی منصوبہ بندی کےلئے نہ ہی حکومت نے کوئی بل بورڈ لگایا ہے اور نہ ہی
انہیں خرید خرید کر عوام کا جی بھرتا ہے۔
اب تو یہ بیچارے سپر پلازوں سے ہوتے ہوئے سیلز کے راستے لنڈابازاروں تک
پہنچ گئے ہیں،مگرانکے خریدار کم نہیں ہوتے،مجھے تو لگتا ھے کہ مستقبل قریب
میں شاپر مکاؤ کی طرح جوتیاں مکاؤ کی بھی مہم چلائی جاۓ گی۔یا پھر ہو سکتا
ہے آنے والے دنوں میں جوتا ساز کمپنیاں ایسے جوتے متعارف کروانے میں کامیاب
ہو جائیں جو انسانی پاؤں کے ساتھ لگتے ہی خوشبو بن کر فضاء میں اڑ
جائیں۔ایسےجوتوں کے دو فائدے ہوں گے ایک تو فضائیں معطر ہو جائیں گی اور
دوسرا ان جوتیوں کی آبادی پر خاطر خواہ اثرات مرتب ہونگے۔بہرحال اس سے پہلے
کہ ہمیں ہر طرف جوتیاں ہی جوتیاں نظر آئیں ہمیں ان کا کچھ سدباب کرنا ہوگا۔
ایس۔کے ۔نیازی،پپلاں
|