چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن (سی این ایس اے) کے مطابق ، روانگی کے چھتیس منٹ بعد اس راکٹ سے ایک آربٹر اور خلائی گاڑی علیحدہ ہو کر زمین- مریخ مدار میں پہنچ گئے جہاں سے وہ کامیاب سفر کرتے ہوئے اگلے سات ماہ میں سرخ سیارے پر پہنچ جائیں گے ۔ چین کے پہلے مریخ مشن کا نام تیان وین -1 رکھا گیا ہے ، جس کا مطلب ہے آسمانوں سے سوال، یہ اقتباس چین کے مشہور شاعر چویوآن کی ایک نظم سے لیا گیا ہے۔ سی این ایس اے نے کہا ، یہ نام سچائی اور سائنس کے حصول اور فطرت اور کائنات کی تلاش میں چینی قوم کی ثابت قدمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ مریخ کے پہلے تحقیقی مشن کے انجینئرنگ مقاصد میں مخلتف امور شامل ہیں: مریخ کے گرد چکر لگانا، مریخ کی سطح پر لینڈنگ کرنا اور مریخ کی سطح کا معائنہ کرنا۔ اس مشن کے دوران طویل فاصلے سے مواصلات کے نظام کو چانچنے کا کام بھی کیا جائے گا۔ مشن مریخ کی سطح کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ، سطح کے نیچے پوشیدہ وسائل کا اندازہ لگا نے کی بھی کوشش کرے گا۔ مشن مریخ کی آب و ہوا، مریخ پر زندگی کے آثار اور مریخ کے حوالے سے دیگر قابل قدر معلومات جمع کرے گا۔ چین کی جانب سے مریخ پر مشن بھیجنے کے حوالے سے ابتدائی کام کا آغاز جنواری 2016 میں شروع کیا گیا تھا۔اس حوالے سے چین کی نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن نے منظم اور مربوط کوششوں کا آغاز کیا تھا۔ اس مشن پر کام پانچ بڑے شعبوں پر محیط تھا ، جس میں مجموعی طور پر انجینئرنگ اور تحقیقات ، لانچ گاڑیاں ، لانچ سائٹس ، پیمائش اور کنٹرول ، اور زمینی اپلیشکنز شامل ہیں۔ چین کے اس مشن کی تیاری میں چائینز مین لینڈ کے علاوہ ہانگ کانگ اور مکاؤ کے محققین کی ایک بڑی تعداد نے بھی حصہ لیا۔ ۔چین نے ای ایس اے ، فرانس ، آسٹریا ، ارجنٹائن اور دیگر ممالک اور تنظیموں کے ساتھ بھی تعاون کیا ہے۔ مریخ نظام شمسی کا چوتھا سیارہ ہے۔ یہ سیارہ زمین کے قریب ہےاور اس کا ماحول زمین کے ماحول سے ملتا جلتا ماحول ہے۔ ایک جیسے قدرتی ماحول کی وجہ سے دنوں سیارے" سسٹرپلینٹ" بھی کہلاتے ہیں۔مریخ کا ایک دن چوبیس گھنٹے اور انتالیس منٹ کا ہوتا ہے جبکہ ہماری کرہ ارض پر یہ دورانیہ تیئیس گھنٹے اور چھپن منٹ ہوتا ہے۔ دونوں سیاروں کے درمیان کئی چیزیں مشترک ہیں لہذا مختلف ممالک کے لیے مریخ کی مزید کھوج نسبتاً آسان ہے اور انسان نظام شمسی سے متعلق جاننے کا خواہش مند بھی ہے۔
چاند کی تسخیر کے بعد مریخ بیرونی خلا میں انسانوں کی جانب سے تحقیق کا نیا پسندیدہ مقام بن چکا ہے۔ مریخ پر اب تک کی جانے والی تحقیق کے شاندار نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس بات کے بہت سے شواہد ملیں کے مریخ کی سطح پر پانی نہ صرف موجود تھا بلکہ اب بھی کئی جگہوں پر موجود ہے۔ ان شواہد نے مریخ پر زندگی کی تلاش کی جستجو کو اور بھی جلا بخشی ہے۔ ماضی میں ، یہ میدان امریکہ ، سوویت یونین ، جاپان ، اور یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں تک محدود تھا۔ اب ، عالمگیریت کی ترقی اور ترقی پذیر ممالک کے ابھرنے کے ساتھ ، ترقی پذیر ممالک جیسے چین،بھارت اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے کے بعد "مریخ ایکسپلوریشن کلب" میں شامل ہو گئے ہیں ۔ چین نے ہمیشہ مساوات اور باہمی فائدہ ، پرامن استعمال اور جامع ترقی کی بنیاد پر بیرونی خلا کے میدان میں گہرائی سے بین الاقوامی تبادلے اور تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ "تیان وین -1" مارس روور ، مریخ کے مقناطیسی میدان اور مٹی کا پتہ لگانے کے لئے ، متعدد سائنسی آلات سے آراستہ ہے جن میں ای ایس اے ، فرانسیسی نیشنل اسپیس ریسرچ سنٹر ، اور آسٹریا ریسرچ پروموشن ایجنسی کے تحقیقی آلات شامل ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ چین کا "تیان وین -1" تحقیقی مشن بذات خود بین الاقوامی تعاون کا نمونہ ہے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کی ایک ٹھوس کوشش ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ مستقبل قریب میں ، دنیا کے مختلف ممالک گہری خلا کی کھوج کی وجہ سے ، کسی اور دنیا سے نیا علم حاصل کرنے اور اس کا اشتراک کرنے کے لئے مزید بین الاقوامی تعاون کریں گے، جس سے جدید ٹیکنالوجی اور پیداواری صلاحیتوں کی مشترکہ پیشرفت کو فروغ ملے گا اور آخر کار پوری انسانی نسل اس سے مستفید ہوگی۔خلائی تحقیق کو منظم کرنے والے اداروں کی جانب سے ہر 26 ماہ کے بعد مختصر وقت کے لیے مشن روانہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ سال 1996 سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی موقع خالی گیا ہو جب مریخ کا جانب کوئی مشن روانہ نہ ہوا ہو۔ اس دوران وقت کی کمی کی وجہ سے کئی ممالک نے مل کر بھی مریخ کی جانب مہم جوئی کی ہے۔ یہ پہلا موقع ہوگا کہ مریخ پر امریکہ، متحدہ عرب امارات اور چین کے مشن بیک وقت موجود ہوں گے۔ چینی مشن میں مریخ کے مدار میں چکر لگانے والا خلائی جہاز، سیارے کی سطح پر اترنے والا جہاز اور ایک روور شامل ہیں، جو مریخ کی سطح پر موجود مٹی پر تحقیق کریں گے۔ چین کے پہلے مریخ مشن کا نام تیان وین -1 رکھا گیا ہے ، جس کا مطلب ہے آسمانوں سے سوال، یہ اقتباس چین کے مشہور شاعر چویوآن کی ایک نظم سے لیا گیا ہے۔ سی این ایس اے نے کہا ، یہ نام سچائی اور سائنس کے حصول اور فطرت اور کائنات کی تلاش میں چینی قوم کی ثابت قدمی کی نشاندہی کرتا ہے۔
|