یہ فیضان نظرتھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
ذی الحجہ بھی کی قربانی بھی کسی بڑے امتحان سے کم نہیں اسی لیے اﷲ پاک نے
حضرت ابراہیمؑ کو خلیل اﷲ کا لقب دیا کیونکہ آپ کڑے سے کڑے امتحان میں ثابت
قدم رہے اسی وجہ سے اﷲ پاک نے آپکواپنا(خلیل اﷲ)گہرادوست بنا لیا۔قربانی سے
قبل تین رات متواترآپ ایک ہی خواب دیکھتے رہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اے
ابراہیم تواپنے اکلوتے بیٹے کو ہمارے لیے قربان کردے اﷲ کا حکم بجا لاتے
ہوئے آپ نے اپنے بیٹے کو اپنا خواب بیان فرمایاکہ اے میرے بیٹے میں نے خواب
میں دیکھا کہ میں تجھے قربان کررہاہوں تیری کیامرضی ہے؟باپ خلیل اﷲ تھا تو
توبیٹا کیسے پیچھے ہٹتا تب جب سر اﷲ کے حضور تحفہ جانے والا ہو کیونکہ آپ
کے صلب اطہرسے آقائے دوجہاں تاجدارانبیاء حضرت محمدﷺ اس جہاں سے دائمی
روشنی سے منورکرنے والے تھے اسی وجہ سے آپ ؑ نے باپ کے آگے سرجھا دیا مگرآپ
نے فرمایا’’اے ابا جان آپ وہی کریں جو آپکو حکم ملا ہے اور اﷲ کے حکم سے آپ
مجھے صبرکرنے والوں میں پائیں گے‘‘۔حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ آپ نے
حضورنبی کریم ﷺ سے عرض کی کہ اے اﷲ کے پیارے حضور قربانی کا ہمیں کتنا
اجرملتا ہے توآپ ﷺ نے فرمایا قربانی کے جانورکے ایک ایک بال کے
برابرثواب(ابن ماجہ)اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اﷲ کے نزدیک قربانی سے زیادہ کوئی عمل زیادہ پیار
نہیں ہے قربانی کا جانورآخرت کے روز اپنے سینگ بال اور کھروں کے ساتھ آئے۔
قربانی کرتے ہوئے جانور کا خون زمین پرگرنے سے پہلے اﷲ پاک قبول کرلیتے ہیں
اسی وجہ سے قربانی خوش دلی سے کرو(ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ)حضرت عمرفاروق
فرماتے ہیں آپ ﷺ مدینے میں دس سال مقیم رہے اور ہرسال قربانی کی (ترمذی)۔قربانی
کواگرقرآن پاک کی روشنی میں دیکھیں توسورۃ کوثرآیت نمبر2میں واضع اﷲ پاک
کاحکم ہے کہ ’’توتم اپنے رب کیلئے نمازپڑھواورقربانی کرو‘‘ہرطرف عید سے
پہلے عید نظرآرہی ہے سب نے اپنی اپنی گنجائش سے زیادہ انتظام کیا ہوا ہے
کسی کے ہاں بکراہے تو کسی نے بکری منگوالی کسی نے دنبہ خریدلیاتوکسی نے
گائے میں حصہ ڈال لیا کوئی بیل گھرلے آیا تو کسی نے وچھے کو ترجیح دی کسی
کے پاس کئی کئی بکرے ہیں تو کسی نے ایک پر اﷲ کا شکرادا کیا ہوا ہے اور رات
دن ایک کرکے اس کی خدمت میں جت گئے ہیں کوئی اپنے بیلوں کو گاڑیوں میں
گھمانے نکل پڑتے ہیں تو کسی نے اپنے بکرے کو سجا کے گلیوں محلوں کے
چکرلگوارہے ہیں اور ہم لوگ ایسے کہتے رہتے ہیں کہ یار حاجی صاحب بڑے نیک
آدمی ہیں اتنی اچھی قربانی کی ہے کہ اسی بیل پربیٹھ کرجنت میں جائیں گے اب
صرف مرنے کی دیرہے اور یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سب دنیا داری اور دکھاوا ہے
کوئی دل سے قربانی نہیں کررہا اس کی قربانی قبول نہیں ارے بھئی ہم کون ہوتے
ہیں قبول نہ قبول کی سنددینے والے یہ قربانی کرنے والے اور اﷲ پاک کا
معاملہ ہے اسی وجہ سے ہمیں ان چیزوں سے پرہیز کرنی چاہیے تاکہ اﷲ کے حضورہم
نہ گناہ گارہوں۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ قربانی حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے
مگرلوگ یہ نہیں جانتے کہ اﷲ پاک کا قرب ایسے نہیں مل جاتا اس کیلئے کئی کڑے
امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے تب جا کرانسان سے خلیل اﷲ بنتا ہے یہ توہرمسلمان
مانتا ہے کہ اﷲ کے بعد انبیاء کرام کا درجہ سب سے افضل ہے جنہوں نے کئی کڑے
امتحانوں سے گزرکررب کے سامنے سرتسلیم خم کیاتب ہی جاکے رب کا قرب حاصل کیا
اﷲ پاک کے ہرنبی کو کئی الگ الگ امتحانوں سے گزرنا پڑا ان میں حضرت ابراہم
ؑ انہیں برگزیدہ انبیاء کرام میں سے ایک ہیں۔اﷲ پاک نے آپ کو خلیل اﷲ کا
لقب اسی وجہ سے دیا کیونکہ آپ کڑے سے کڑے امتحان میں ثابت قدم رہے اسی وجہ
سے اﷲ پاک نے آپکواپنا(خلیل اﷲ)گہرادوست بنا لیا۔قربانی سے قبل تین رات
متواترآپ ایک ہی خواب دیکھتے رہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابراہیم تواپنے
اکلوتے بیٹے کو ہمارے لیے قربان کردے اﷲ کا حکم بجا لاتے ہوئے آپ نے اپنے
بیٹے کو اپنا خواب بیان فرمایاکہ اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ
میں تجھے قربان کررہاہوں تیری کیامرضی ہے؟باپ خلیل اﷲ تھا تو توبیٹا کیسے
پیچھے ہٹتا تب جب سر اﷲ کے حضور تحفہ جانے والا ہو کیونکہ آپ کے صلب اطہرسے
آقائے دوجہاں تاجدارانبیاء حضرت محمدﷺ اس جہاں سے دائمی روشنی سے منورکرنے
والے تھے اسی وجہ سے آپ ؑ نے باپ کے آگے سرجھا دیا مگرآپ نے فرمایا’’اے ابا
جان آپ وہی کریں جو آپکو حکم ملا ہے اور اﷲ کے حکم سے آپ مجھے صبرکرنے
والوں میں پائیں گے‘‘۔حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ آپ نے حضورنبی کریم
ﷺ سے عرض کی کہ اے اﷲ کے پیارے حضور قربانی کا ہمیں کتنا اجرملتا ہے توآپ ﷺ
نے فرمایا قربانی کے جانورکے ایک ایک بال کے برابرثواب(ابن ماجہ)اسی طرح ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اﷲ کے
نزدیک قربانی سے زیادہ کوئی عمل زیادہ پیار نہیں ہے قربانی کا جانورآخرت کے
روز اپنے سینگ بال اور کھروں کے ساتھ آئے۔ قربانی کرتے ہوئے جانور کا خون
زمین پرگرنے سے پہلے اﷲ پاک قبول کرلیتے ہیں اسی وجہ سے قربانی خوش دلی سے
کرو(ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ)حضرت عمرفاروق فرماتے ہیں آپ ﷺ مدینے میں دس
سال مقیم رہے اور ہرسال قربانی کی (ترمذی)۔ آجکل درودیوار اخباروں اور سوشل
میڈیا پر قربانی کی کھالوں کے متعلق اشتہار لگے ہوتے ہیں ۔ قربانی اﷲ کی
اور کھال۔۔۔۔کی۔ارے بھئی میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو قربانی کا ثواب
حاصل کرسکتا ہے وہ کھال کا کیوں نہیں یا کھال کا ثواب آپ نے دینا ہے ؟ بہتر
ہے کسی علماء مصرف سے کھال کے متعلق معلومات لی جائے تب ہی کھال دی جائے یا
یہ بھی ہوسکتاہے کہ کھال بیچ کرکسی مستحق کو پیسے دی دیے جائیں مگرذراسوچ
سمجھ کراسی لیے کھال کوبوجھ نہیں سمجھنا چاہیے بڑی چھان بین کریں کہ جن ک
کھال دے رہے ہیں کیا وہ مستحق ہیں ان پرقربانی حج،زکوۃفرض ہویا کھل کا پیسہ
کسی جلسے جلوس،اسلحہ یا غلط جگہ پرتواستعمال نہیں کرے گا ۔یادرہے قربانی سے
قربانی کی کھال کی اہمیت زیادہ ہے ایسا نہ ہو قربانی اچھی ہواور کام کھال
پراٹک جائے جیسا کہ اوپربتا چکا ہوں کہ روز محشرقربانی کا جانورہماری سفارش
کرنے آئے گا تو اگرکھال بدن پرنہ ہوگی تو وہ کبھی ہماری شفاعت نہیں کرے گا
اسی وجہ سے کھال کے معاملے کو ایزی نہ لیں۔عظیم سنت ابراہیمی ہمیں اس بات
کا احساس دلواتی ہے کہ اﷲ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ہمیں اپنی پیاری سے پیاری
چیز کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ہم دین کی عظمت اور سربلندی اسلام کی ترویج
اسلام کی بقاء کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں بے شک جذبہ قربانی بارگاہ
الٰہی میں ہمارے تقویٰ کا اظہار اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ |