پاکستان میں مختلف ادوار نے مختلف تحاریک نے جنم لیا جس میں اس وقت کے طلباء کا ایک موثر اور بھرپور کردار نمایاں مقام رکھتا ہے۔ طلباء کا یہ کردار صرف سیاسی یا سماجی جماعتوں اور اداروں تک محدود نہیں رہا بلکہ طلباء یونین نے ملکی تاریخ میں جو اہم کردار ادا کیا وہ آج بھی سنہرے اوراق کی زینت ہے مگر افسوس ملک کے ایک طاقتور رجعت پسند طبقے نے طلبہ سیاست پر جو شب خون مارا اس کا خمیازہ نہ صرف پاکستان کی ساکھ پر ہوا بلکہ اس ملک میں بسنے والے 98 فیصد محکوم طبقے پر بھی اپنے نقش چھوڑ گیا۔ وقت اپنی رفتار سے بڑھتا رہا، 2008 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے طلبہ یونین پر سے پابندی اٹھانے کا اعلان کیا تو اک امید کی کرن پھوٹی مگر پھر شاید وہ اعلان مصالحت کا شکار ہوگیا مگر وقت نے ایک مرتبہ پھر کروٹ لی اور طلبہ کے ایک گروہ نے کراچی تا خیبر دوبارہ اپنے حقوق کی جدوجہد کے لئے آواز اٹھائی بلکہ اس کے لئے عملی طور پر ملک گیر احتجاج بھی کیا۔ سندھ میں طلباء کی نمائندگی واحد طلبہ تنظیم پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کرتی نظر آئی جو عرصہ دراز سے غیر فعال تھی۔ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے حوالے سے ایک رائے عام تھی کہ یہ پیپلزپارٹی کی ذیلی تنظیم جو پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں جاسکتی مگر پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے پیپلزپارٹی کی ہی حکومت میں طلبہ یونین کی حمایت میں ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کرکے اس تاثر کو نا صرف مسترد کیا بلکہ یہ بھی ثابت کردیا کہ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن طلبہ حقوق پر ہرگز سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ حال ہی میں کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے جہاں ہر طبقہ متاثر ہوا وہیں طلبہ بھی شدید مالی مسائل کا شکار ہوئے مگر آفرین ہماری تبدیلی سرکار پر جس نے باوجود ان تمام مسائل کے نہ صرف تعلیم کا بجٹ کم کردیا بلکہ کسی ریلیف پیکیج کا اعلان نہ کر کے اپنے تعلیم دشمن ہونے کا ببانگ دہل اعلان کیا مگر پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے منصور شاہانی، لالا مراد خان، شہریار بھگت، کلیم بھٹہ، نادر لاکھیر و دیگر طالب علم رہنماؤں کی قیادت میں ہر فورم پر اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ حالیہ دنوں میں کے الیکٹرک کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے شہر بھر میں پیدا ہونے والے بجلی کے بحران کی وجہ سے جہاں ہر طبقہ متاثر ہوا وہیں طلبہ بھی کلاسوں میں خلل کی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار ہوئے۔ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر طلبہ اور مزدور طبقہ پر ہونے والے اس ظلم کے خلاف بھی بھرپور احتجاج کیا اور ایک کثیر تعداد میں اپنے طالب علم ساتھیوں کی آواز بنے۔ مگر اب بھی ایک طویل اور کٹھن سفر باقی ہے اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنماؤں کے حوصلے نظر آتے ہیں۔ مستقبل قریب میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی کے طلبہ کی واحد نمائندہ تنظیم نظر آرہی ہے۔ شہریار بھگت اور کلیم بھٹہ کراچی کے حوالے سے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے طلبہ کو ان کے حقوق کی جنگ کے لئے منظم کرنے کے لئیے سرتوڑ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں وہیں اندرون سندھ میں یہ کام منصور شاہانی، لالا مراد خان، نادر لاکھیر و دیگر رہنما خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔ طلبہ کو بھی چاہیے کہ وہ بھی اب اپنے حقوق کی جدوجہد کا آغاز کریں کیونکہ اس ملک کی باگ دوڑ انہوں نے ہی سنبھالنی ہے۔ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن جس طرح طلبہ مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہے وہ دن دور نہیں جب دوبارہ اس ملک میں سرخ سویرا ہوگا اور ہمارا وطن رجعت پسند، مذہبی ٹھیکیداروں سے پاک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔ |