اب یا پھر کبھی نہیں

میں کس منہ سے اس بزرگ سیدصاحب کاشکریہ اداکروں جوہمیشہ مشکل وقت میں بھولاہواسبق یاددلادیتے ہیں۔جب بھی دل بہت بے چین ہوتا تھاتوفوری طورپران سے فون پررابطہ پرہمیشہ کی طرح دانش وحکمت کے ایسے موتی جھڑتے کہ روح تک سرشارہوجاتی اورہرمرتبہ تنگ دامنی کامعاملہ آن کھڑاہوتالیکن اب برسوں سےدوطرفہ پیغامات سے دل کی پیاس بجھاتا ہوں۔بزرگ سید کاپیغام موصول ہوا،ایک عرصے کے بعدپھوٹتی سحراچھی لگی،صبح نورکی تازگی دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی،رغبت سے کھاناکھایاا ورسجدہ شکراداکیا۔یوں محسوس ہورہاتھاکہ روح کاساراآلام دھل گیاہے اور روٹھے ہوئے الفاظ ایک دفعہ پھرایک قطار میں مسکراتے کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں،پھرسے ہمدم،ہمدرداورغمگسار،بڑھ کرگلے ملنے کیلئے متمنی،جونہی میرے قلم نے محبت سے بازو پھیلائے فوراًبغیرکسی تاخیرکے برچھی کی طرح سینے میں اتر گئے۔

یہ سب ایک بوڑھے،بیماروعلیل اورایک سفیدریش کے حامل بزرگ کی وجہ سے ہواجن سے ملاقات کی آرزوبرسوں سے دل کو بے چین کئے ہوئے ہے ۔میں نہیں جانتاکب یہ دل کی مرادبرآئےگی اورنہ ہی اس بات سے واقف ہوں کہ کبھی ان کودیکھ بھی سکوں گاکہ نہیں۔سید علی گیلانی جنہوں نے اپنی زندگی کے بیشترقیمتی سال بھارتی مکارہندوبنئے کی بنائی ہوئی جیلوں میں گزار دیئے اوراب برسوں سے گھرمیں نظربندہیں جہاں رابطے کے تمام ذرائع پر مکمل پابندی ہے۔ان کی اولاد پر بھی زندگی تنگ کر دی گئی۔کم ازکم پانچ مرتبہ جس کے مکان پرراکٹ برسائے گئے،جسے خلقِ خداکے قلب ودماغ سے اتارنے کی ان گنت سازشیں کی گئیں لیکن وہ اتناہی زیادہ قلب وروح کی جان بنتاجارہاہے۔جسے تھکا ڈالنے،دھمکانے اورخریدنے کاہرحربہ آزمایاگیالیکن وہ ہردفعہ تازہ دم،کسی خوف سےعاری اورکسی بھی خطرے کی پرواہ کئے بغیرمایوسی کودھتکارتے ہوئے منزل کی طرف بڑھتا ہی چلاجارہاہے………. .اور آج وہ اسی مظلوم شہرسرینگرمیں ایک عرصے سے اپنے گھرمیں نظربندہے جہاں دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ کرنے والے اس بزرگ سے اس قدرخوفزدہ ہیں کہ کرفیوکی حالیہ پابندی سے قبل بھی برسوں سے مسجد میں نمازِجمعہ پڑھنے کی اجازت ملی،نہ ہی وہ اپنے کسی عزیزیاہمدم کے ہاں کسی بھی خوشی یاغمی میں شریک ہوسکا،گویا اسے کشمیریوں سے دوررکھنے کی ایک سازش پرعمل جاری ہے لیکن اس تمام آلام ومصائب کے باوجود وہ اس شان اورعزم صمیم سے کھڑاہے کہ عظمت اس پر ٹوٹ ٹوٹ کربرس رہی ہے اوراس کی ایک اپیل پرسارے کشمیرکے مرد وزن اورجوان دیوانہ وارگولیوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونااپناایمانی فرض سمجھتے ہیں۔

دوسروں کاذکرہی کیا،ایک وقت ایسابھی آیاکہ مقبوضہ کشمیرکی جماعت اسلامی نے بھی اس کاساتھ دینے سے انکارکردیااور حریت کانفرنس سے مطالبہ کیاگیاکہ ان کوالگ کرکے جماعت کے کسی اورلیڈرکونمائندگی کااختیاردیاجائے۔کمالِ جرأت لیکن نہائت صبروتحمل کے ساتھ وہ اپنی راہ پرگامزن رہا۔ سرینگرکے ایک مزدورکابیٹاجس نے اپنی بھرپورجوانی میں اپنے لئے ایک راہ چن لی تھی اورپھرعمربھرناک کی سیدھ میں اس راہ پرچلتارہااورکبھی کسی موقع پراس کے قدم نہیں ڈگمگائے،جسے دیکھ کرتوحیرت ہوتی ہے،جس کے بارے میں سنوتودل سے بے اختیاراس کی درازیٔ عمرکی دعا ئیں نکلتی ہیں اورغور کروتو”اھدنا الصراط المستقیم”کامفہوم سمجھ میں آنے لگتاہے۔عمربھراس نے جھوٹ اورفریب کے سامنے جھکنے سے انکارکردیا اور عمربھراس کوکوئی مشتعل بھی نہیں کرسکا۔

وہ جانتاہے کہ راہ کٹھن بھی ہے اورطویل بھی لیکن وہ پھربھی اپنی ترجیحات اورمقاصدپریکسوہے۔وہ رازاس پرآشکارہے کہ جس سے مسلم دنیاکے اکثر رہنما بے خبرہیں کہ عرصہ گیرامتحان میں اصل اہمیت کامیابی اورناکامی کی نہیں،حسنِ نیت اور حسنِ عمل کی ہوتی ہے۔آدمی نتائج کانہیں جدوجہد کامکلف ہے،نتیجہ تواللہ کے ہاتھ میں ہے۔پہلے تووہ خوداپنی پارٹی قیادت کے خلاف صف آراء ہوا،جدجہدکے طویل برس اوران گنت قربانیاں بھی اسے تھکانے میں ناکام رہیں۔پارٹی کے کارکنوں کوآوازدی جوہمیشہ کی طرح اس پراعتمادکرتے ہیں کہ زندگی کی کتاب میں جاہ پسندی،ریااورمفادکاکوئی باب نہیں۔ اپنا سارااخلاقی دباؤڈال کراس نے جماعت کی قیادت کوبدل ڈالا،پھروہ حریت کانفرنس کی مصلحت کاشکارہونے والی قیادت کے خلاف اٹھا…..ایک آدمی ، متعدد لیڈروں اورگروہوں کے خلاف جوپاکستان کوبھول کربھارت سے مذاکرات پرآمادہ ہوگئے تھے ،جانتے ہوئے بھی کہ کن لوگوں نے انہیں آمادہ کیاتھا۔
اندلس کاجلیل القدرحکمران درباریوں کے ساتھ نوتعمیرمحل میں نمودارہواجس میں سونے کاقبہ جگمگارہاتھا۔جب دوسرے داد دے چکے توقاضی سعید کی طرف متوجہ ہوا”بادشاہ تم پرشیطان سوارہے”قاضی نے کہا کہ”سونے سے عمارتیں نہیں بنائی جاتی ”آسمان اورزمین کے درمیان ایک سناٹاتھااوردل تھے جوخوف اوراندیشوں سے دھڑک رہے تھے۔جب بادشاہ کی آواز ابھری’’سعید کو لوگ بے سبب ہسپانیہ کاضمیرنہیں کہتے،قبہ گرادیاجائے‘‘۔

کبھی کبھی ایک تنہاآدمی اٹھتاہے اورمنظرکوبدل ڈالتاہے۔علی گیلانی فرشتہ نہیں ہے۔چندلمحوں کیلئے مان لیتے ہیں کہ ان کے اپنے تعصبات ہوسکتے ہیں اور ناقص فیصلے بھی،ان کی ہررائے اورہراقدام سے اتفاق ضروری نہیں،نہ اس سے اختلاف کرنے والوں کی نیت پرشبہ کرنے کاکوئی جوازہے،ہوسکتاہے ان کی عقلیں وہی کہتی ہوں جس پروہ عمل پیراہیں؟دنیاکے بدلے ہوئے ناسازگارحالات اورپہاڑجیسی رکاوٹیں،لیکن بزرگ درویش ان سے مختلف ہے۔وہ ایک صاحبِ یقین ہے اورصاحبِ یقین کبھی مرجھاتااورمایوس نہیں ہوتا۔وہ اپنی ذات سے اوپراٹھ جاتاہے اورایک برترمقصدکیلئے ہرچیزکوتیاگ دیتاہے۔ قوموں کوایسے لوگ انعام کے طورپرعطاکئے جاتے ہیں اور کوئی الٹالٹک جائے ان کی راہ کھوٹی نہیں کرسکتا۔

سیدعلی گیلانی نے حریت کانفرنس کی درماندہ قیادت اوراس کے عقب میں سازشیں کرنے والے بھارتیوں اورشاطرامریکیوں کو بالآخرشکست سے دوچارکردیاجب استعمارسارازورکشمیریوں کو تنہا کرنے کیلئے صرف کررہاہے،جب پاکستانی حکومت بھی تھک چکی ہے اوردیگرادارے بھی راستہ بھول چکے ہیں۔
شاہ محمودقریشی نے بطوروزیرخارجہ پہلے بھی امریکی ایماءپرکشمیرکی بندربانٹ کرنے کیلئے ایک کشمیری لیڈرکے ساتھ سازبازشروع کرتے ہوئے خصوصی طورپرواشنگٹن میں آصف زرداری کے ساتھ اس کشمیری لیڈرکی ملاقات بھی کروائی تھی تو یہ مردِمجاہد سیدگیلانی ہی تھے جنہوں نے بروقت اس سازش کی دہائی دیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کی مددسے اس مذموم منصوبے کوکامیاب نہیں ہونے دیا۔ان دنوں بھی ٹیلیفون پرمیری جب ان سے بات ہوئی توایک دفعہ پھر سیدعلی گیلانی نے پاکستانی حکمرانوں کوبھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے پراپنی تشویش کااظہار کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھاکہ ممبئی میں دہشتگردی کاشورمچانے والابھارت اب بلوچستان ، سرحد،کراچی اورپاکستان کے دیگردوسرے بڑے شہروں میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مسلسل دہشتگردی کاارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک مستقل سنگین خطرات پیداکررہاہے اور پاکستانی حکومت ان کے ساتھ دوستی کیلئے مرتی جارہی ہے۔میں ان کی آوازکاکرب بڑی شدت اور ندامت کے ساتھ محسوس کر رہاتھااوردکھ کی بات تویہ ہے کہ اس مرتبہ سقوط کشمیرکامعاملہ بھی اسی وزیرخارجہ کے دور میں ہواہے۔

اب ضرورت اس امرکی ہے سیدعلی گیلانی کے حریت کانفرنس سے الگ ہونے کے اعلان کوسنجیدگی سے لیاجائے اورفوری طورپرموجودہ وزیرخارجہ کو تبدیل کرکے انہیں یقین دلایاجائے کہ کشمیرکاوکیل آئندہ انہیں کبھی بھی مایوس نہیں کرے گااور اس کے ساتھ ہی اقوام عالم کویہ واضح طورپربتائے کہ کوروناکی آڑمیں سفاک مودی کشمیرمیں خونی کھیل کی آڑمیں کشمیرکی آبادی کاتناسب بدلنے کی جوکوششیں کررہاہے اس سے اگرخطے میں جنگ کاآتش فشاں پھٹ گیاتونہ صرف جنوبی ایشیامیں تباہی و بربادی ہوگی بلکہ یہ عالمی جنگ کا بھی پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک میں بھی کشمیرکے حالات سے متعلق شدید تشویش اورغصہ پایاجاتاہے۔دنیاکے سامنے بھارت کامکروہ چہرہ عیاں کرنے کی پہلے سے زیادہ اشدضرورت ہے۔

اگر اب بھی بین الاقوامی سطح پراس معاملے میں سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تودنیاکوایک بڑی ہولناک جنگ کاسامنا کرنا پڑے گا جوکہ یقینی طورپہ ایٹمی جنگ ہوگی اوراس تباہی سے بچنے کاواحد حل یہی ہے کہ حقدارکواس کاحق دیاجائے تاکہ اس خطے میں امن قائم رہے۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم وبربریت کے پہاڑتوڑے ہوئے ہیں اور وہ نہتے اورمجبورکشمیریوں پرغیرانسانی اورغیراخلاقی دونوں طرح کے حربے آزمارہاہے ۔ کشمیری شہری یہ ظلم و ستم گزشتہ 73 سال سے سہہ رہے ہیں اوراپنے حق کیلئےسیاسی اورعسکری دونوں محاذوں پرمردانہ وارلڑرہے ہیں۔انڈین آرمی کی تقریباً ساڑھے دس لاکھ سے زائد تعداد(جوہرطرح سے مسلح ہیں) تحریکِ حریت کی آگ کوبجھانہیں پارہی اورنہ بجھاپائے گی۔بھارت تحریکِ حریت کوختم کرنے کی اورکشمیر پرمکمل قبضہ کرنے کی سرتوڑکوششیں کررہاہے اوران کوششوں میں اس کے ساتھ اب مزید خوارجی ممالک بھی شامل ہوگئے ہیں جن میں اسرائیل سرِفہرست ہے۔

5/اگست کوآرٹیکل370ختم کرنے کے بعدبھارت نے کشمیرکواپناحصہ بنانے کیلئے وہی حکمتِ عملی اپنائی ہے جوکبھی اسرائیل نے فلسطین پرقبضہ کرنے کیلئے بنائی تھی کہ سب سے پہلے کچھ اسرائیلی فلسطین جاکرآبادہوئے پھرانہوں نے اپنی آبادی میں اضافہ شروع کیااورمقامی فلسطینیوں سے منہ مانگی قیمتوں پرزمینیں اورجائدادیں حاصل کرناشروع کی اس کے بعد انہیں لالچ دیا اورپھر تیزی سے منہ مانگی قیمت پرزیادہ سے زیادہ زمینیں خریدنے لگے اورزیادہ ترفلسطینی علاقوں پراپنا تسلط قائم کرلیا۔ بالکل یہی طریقہ اب بھارت نے آرٹیکل 370 کاخاتمہ کرکے مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنایاہے۔

بھارتی آئین کی شق370کے خاتمے کااعلان کے بعدکشمیر میں انڈین آرمی کی تعداد میں مزید اضافہ کردیا ہے اور انڈین حکومتی اداروں نے کشمیرمیں کرفیو نافذکرکے نہتے ،مجبورومظلوم کشمیریوں پرظلم وستم کی انتہاءکردی ہے۔انڈین آرمی بلااجازت گھروں میں داخل ہوکرجسے چاہتی ہے اٹھالیتی ہے۔خاص طورپرجوان بچوں کوحریت پسندکہہ کراپنے ساتھ لے جاتی ہے اورپھر چند دن کے بعد ان کی تشدد شدہ لاشیں کسی اور علاقے سے ملتی ہیں اسی طرح مسلم عورتوں کوگھروں سے اٹھالیاجاتاہے اور عصمت دری کے بعد یاتوماردیاجاتاہے یاپھرانتہائی بری حالت میں مجبورخواتین کسی علاقے میں پھینک دی جاتی ہیں۔یہی نہیں کسی بھی گھرکو آگ لگاناگھرسے سامان لے جانااورتوڑپھوڑکرناتوروزکامعمول بن گیاہے۔بین الاقوامی میڈیاکوکشمیرسے دوررکھا جارہاہے ۔ مودی حکومت نے فیصلہ کرلیاہے کہ تحریک حریت کوبندوق کے زورپرکچل دیاجائے۔مودی حکومت برہان وانی شہیدکی برسی پرایک مرتبہ پھریہاں کے نوجوانوں کاجذبہ آزادی دیکھ کرحواس باختہ ہوگئی ہے جبکہ برسی سے پہلے ہی ہزاروں نوجوانوں کو پکڑکرعقوبت خانوں میں پہنچادیاگیاتھا۔

سید علی گیلانی کومیرا،ایک عام پاکستانی کاسلام پہنچے۔انہوں نے یہ کہہ کرہماری ساری مایوسی دھوڈالی ہے کہ حریت کانفرنس سے الگ ہوکربھی میرے موقف میں ذرہ بھرتبدیلی نہیں آئی۔ہمارے لئے انہوں نے ایک تابہ فلک ایک مشعل فروزاں کردی ہے اورہمیں یاددلایاہے کہ انسانیت کامستقبل ابلیس اورمایوسی پھیلانے والے اس کے کارندوں کے پاس نہیں بلکہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ جوامیدکارب ہے اورجس کی کتاب برملایہ کہتی ہے کہ “الیس اللہ بکاف عبدۂ”(کیا اللہ اپنے بندوں کیلئے کافی نہیں)۔ پچھلے ہفتے ایک خصوصی ملاقات میں انسانی بنیادی حقوق پرنگاہ رکھنے والی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل،واچ ڈاگ،ہیومن رائٹس انٹرنیشنل، اینٹی سلیوری انٹرنیشنل اورگلوبل رائٹس کوآپ پرہونے والی زیادتیوں سے جب آگاہ کیاتومعلوم ہواکہ یہ تمام ادارے بھی آپ کے انسانی حقوق اوردیگرحقوق تلفی کانہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ آپ کی ثابت قدمی پربھی نازاں ہیں اور ایک بارپھر آپ کے حقوق کی بازیابی کیلئے سرگرم ہونے کایقین دلایاہے۔جناب سید صاحب!آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ہمیں بھولاہواسبق یاددلادیا۔

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 316143 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.