سورۃ واقعہ
قرآن مجید ہمارے لئے مشعل راہ اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ قرآن مجید نے
زندگی کے ہر پہلو اور گوشے سے متعلق رہنمائی عطا کی ہے ۔ جن قوموں نے قرآن
پاک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا وہی عروج اور ترقی سے ہمکنار ہوئیں اور جن
قوموں نے قرآنی تعلیمات پر عمل نہ کیا وہ ذلیل و خوار ہو گئیں۔قرآنی
احکام زندگی کے ہر پہلو اور ہر گوشے پر حاوی ہیں ۔ معاشرت ، تجارت ، سیاست
، تعلیم غرضیکہ کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں کلام الہٰی ہماری رہبری نہیں کرتا
۔ قرآن کریم ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس کے لائے ہوئے ضابطہ حیات میں
اپنے مسائل کا حل تلاش کریں ۔ اللہ تعالیٰ کا حکم بالکل واضح ہے کہ ہم بغیر
کسی استشنا کے اپنی زندگی کو اسلامی قوانین کے تحت لے آئیں ۔ ہمارے خیالات
، طرز زندگی ، رہن سہن ، طور طریقے ، لین دین اور تمام معاملات سب کے سب
اسلامی احکامات کے مطابق ہوں اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ کھلی منافقت
ہے۔آئیے :سورۃ واقعہ کے بارے میں جانتے ہیں ۔
اس سورت میں 3رکوع، 96آیتیں ، 378کلمے اور 1703 حروف ہیں ۔( خازن، تفسیر
سورۃ الواقعۃ، ۴/۲۱۶، جلالین، تفسیر سورۃ الواقعۃ، ص۴۴۶، ملتقطاً)
’’واقعہ‘‘ قیامت کا ایک نام ہے اور اس سورت کا نام ’’واقعہ‘‘ اس کی پہلی
آیت میں مذکور لفظ’’اَلْوَاقِعَةُ ‘‘کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔
حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عبد اللہ بن مسعود
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس اس وقت تشریف لائے جب وہ مرضِ وفات میں
مبتلا تھے۔حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے
فرمایا’’آپ کس چیز کی تکلیف محسوس کر رہے ہیں ؟حضرت عبد اللہ بن مسعود
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا :اپنے گناہوں کی تکلیف محسوس کر
رہا ہوں ۔حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’آپ کو کس
چیز کی آرزو ہے؟حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے
جواب دیا’’مجھے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رحمت کی آرزو ہے۔حضرت عثمان غنی
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’آپ کسی طبیب کو کیوں نہیں بلوا
لیتے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا
’’طبیب ہی نے تو مجھے مرض میں مبتلا کیا ہے۔ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’کیا ہم آپ کو کچھ(مال) عطا کرنے کا حکم نہ
کریں !حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب
دیا’’مجھے ا س کی کوئی حاجت نہیں ۔حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہُ نے فرمایا’’ہم وہ مال آپ کی بیٹیوں کو دے دیتے ہیں ۔ حضرت عبد اللہ
بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا’’انہیں بھی ا س مال کی
کوئی ضرورت نہیں ، میں نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ سورۂ واقعہ پڑھا کریں
کیونکہ میں نے رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے سنا ہے کہ ’’جو شخص روزانہ رات کے وقت سورہ
ٔواقعہ پڑھے تو وہ فاقے سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔( مدارک، الواقعۃ، تحت
الآیۃ:۹۶،ص۱۲۰۵)
اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت کے دلائل
،حشر کے اَحوال اور لوگوں کا انجام بیان کیاگیا ہے اور اس میں یہ چیزیں
بیان کی گئی ہیں ،
(1) …اس سورت کی ابتداء میں قیامت قائم ہونے اور اس وقت زمین کے تھرتھرانے
اور پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہوجانے کا ذکر ہے۔
(2) …حساب کے وقت لوگوں کی تین قسمیں بیان کی گئیں ۔(1)دائیں طرف
والے۔(2)بائیں طرف والے۔(3)سبقت کرنے والے۔پھر ان تینوں اَقسام کے لوگوں کا
حال اور قیامت کے دن ان کے لئے جو جزا تیار کی گئی ہے اسے بیان فرمایا گیا۔
(3) …اللہ تعالیٰ کے وجود اوراس کی وحدانیّت کے دلائل،انسانوں کی
تخلیق،نَباتات کو پیدا کرنے اور پانی نازل کرنے میں اس کی قدرت کے کمال پر
دلائل بیان کئے گئے۔
(4) … قرآنِ پاک کا ذکر کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ قرآن پاک سب جہانوں
کے پالنے والے رب تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے۔
(5) …اس سورت کے آخر میں ان تین اَقسام کے لوگوں کا حال اور ان کا انجام
بیان کیا گیا۔(1)سعادت مند۔ (2)بد بخت ، اور (3)نیکیوں میں سبقت کرنے والے
۔
زندگی کے تمام مسائل میں قرآنی احکام ہماری رہنمائی کرتے ہیں مگر آج
ہماری نظر میں روحانی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں رہی ۔ زمانے کا ساتھ دینے
کی خواہش سے ہماری اخلاقی قدریں پامال ہو گئیں ، غیروں کا شعار اپنانے کے
شوق میں اپنے پرائے ، اچھے اور برے میں تمیز ختم ہو گئی ۔ اپنے اسلاف کی
روایات کو قدامت پسندی کا نام دے کر ختم کر دیا اور تو اور تمام اخلاقی اور
روحانی بندھنوں سے آزاد ہو گئے ۔ ان حالات میں کوئی بھی معاشرہ نا صر ف
ترقی نہیں کر سکتا بلکہ اپنی تمام اخلاقی قدریں بھی کھو دیتا ہے ۔ قرآن
حکیم کو جانتے بوجھتے نظر انداز کر کے ہم نے دوسروں کے قانون ، رسم و رواج
اور روایات کو اپنا لیا ہے جس وجہ سے معاشرہ مسلسل انحطاط کا شکار ہو گیا
ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآنی احکامات پر عمل کیا جائے ۔ معاشرے میں
اسلامی تصورات اور نظریات لاگو کئے جائیں۔اللہ پاک عمل کی توفیق عطافرمائے
۔آمین
|