بچوں۔ ایک دفعہ میں بڑے مزے سے
پیدل ہی سیر کے لئیے جا رہا تھا۔ موسم بڑا اچھا تھا۔ آسمان پر بادل چھائے
ہوئے تھے اور میں گانے گاتا ہوا جا رہا تھا۔ گانا کچھ یوں تھا۔
تیرے مست مست دو نین
میرے دل کا لے گئے چین
راستے میں ایک کتا بیٹھا ہوا تھا۔ اور وہ اپنی دنیا میں مگن سویا ہوا تھا۔
میں نے شرارت سے اس کی دم پر اپنا پاؤں رکھ دیا جس سے اس کی نیند میں خلل
پڑ گیا۔جس پر اس کو ہمارے پر بڑا سخت غصہ آیا۔ لیکن وہ چپ کر کے دوبارہ لیٹ
گیا ۔اور ہم دوبارہ آگے چل پڑے۔ اور خوب مزے مزے کی چیزیں کھائی۔
مثلاً: سموسے ہائے ہائے کیا مزے کے سموسے تھے۔ پھر دہی بھلے کھائے اور
ہماری طبیعت بلھے بلھے ہو گئی۔اور بھی کافی کچھ کھانے کو دل چاہ رہا تھا
لیکن ہمارا معصوم سا پیٹ بھر گیا۔
خیر ہم یوں ہی ادھر اُدھر گھومنے کے بعد تھک ہار کر گھر کی طرف چل پڑے اور
یوں ہی ہم آدھے راستے میں آئے تو ہمیں وہ ہی کتا دوبارہ سویا ہوا ملا۔
ہمارے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ ہم نے دوبارہ اس کی دم پر پاؤں رکھ دیا۔جس
پر اس کی آنکھ پھر کھل گئی۔اس نے ہمیں غور سے دیکھا اور جیسے ہمیں دیکھتے
ہی پہچان گیا اور ہماری طرف غصے سے دیکھ کر غرغرارنے لگا۔ ہم نے اس کو نظر
انداز کر دیا۔
لیکن جناب اس نے نے تو جیسے ہمارے سے بدلہ لینے کی ٹھان لی اور لگا ہمارے
پیچھے دوڑنے ہم تو پہلے ہی تھکے ہوئے تھے ۔
لیکن چار و نا چار ہم نے بھاگنا شروع کر دیا ۔ ہم آگے آگے کیا پیچھے پیچھے۔
گویا ہمارا اور کتے کے درمیان میراتھن ریس ہو رہی ہو۔
ہمارے تو حواس جواب دے گئے۔ اور ہم کسی چیز سے ٹکرا کر گر پڑے اور ہمیں کسی
چیز کا ہوش نہ رہا۔
جب آنکھ کھلی تو ہم نے اپنے آپ کو اپنے کمرے میں پایا۔ دراصل جب ہم بے ہوش
ہو کر گرے تو ہمارا ایک دوست راستے سے جا رہا تھا۔
اور اس نے ہمیں گھر پہنچایا۔ اور ہمارے گھر والوں کو تمام واقعہ بتا دیا۔
جب ہم ہوش میں آئے تو ہمارے ابو نے کہا کیوں جناب اب تو کسی کتے کو تنگ
نہیں کرو گے ۔میں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ کی آج کے بعد میں کسی
جانور کو تنگ نہیں کرو گا خاص طور پر کتے کو۔
اتنی دیر میں میرے کزن نے کتے کی آواز والی ٹیون چلا دی تو ہم ایک دم سے
اُٹھ کر بھاگنے لگے تو ساروں کی ہمیں دیکھ کر ہنسی نکل گئی۔ اور ہم بھی
مجبور ہو کر ہنسنے لگے۔
نتیجہ:
جانور بھی اللہ کی مخلوق ہے اور بے زبان ہے لہٰذا ہمیں کسی جانور کر بلا
وجہ تنگ نہیں کرنا چاہیے نہیں تو ہمارا حال آپ کے سامنے ہی ہے۔ |