ٹرین میں ٹکٹ نہ ہونے پر ٹکٹ چیکر سے بچنے کے لیے ہزار نفل کی نیت باندھ لی، بھوک و افلاس سے امارت تک کا سفر طے کرنے والا کامیڈین رنگیلا

image
 
تاریخ گواہ ہے کہ کامیابی ہمیشہ ان لوگوں کے سر کا تاج بنتی ہے جنہیں اس کے حصول کا جنون ہوتا ہے- ایسے ہی اداکار رنگیلا بھی تھے جن کا اصل نام محمد سعید خان تھا اور ان کا تعلق پارا چنار کے پٹھان قبیلے سے تھا رنگیلا کو پاکستان فلم انڈسٹری کے جیری لیوس کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا- ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو کہ جیسے ہی اسکرین پر آتے تھے لوگوں کے چہرے پر خود بخود مسکراہٹ آجاتی تھی- مگر ان کے حوالے سے بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ وہ فلم انڈسٹری میں کامیڈین بننے نہیں آئے تھے بلکہ وہ خود کو ہیرو سمجھتے تھے-
 
صرف ایک سال کی عمر میں ماں اور باپ دونوں سے محروم ہونے کے بعد اپنی بہن کے ساتھ پشاور آگئے تھے اور دو وقت روٹی کے حصول کے لیے بہت ہی چھوٹی عمر میں مزدوری کرنی شروع کر دی- مگر دلیپ کمار کی فلموں کو دیکھ کر خود کو دلیپ کمار سے کم سمجھنے پر تیار نہ تھے اسی لیے پشاور سے لاہور کا خالی جیب قصد کر لیا-
 
بغیر ٹکٹ ٹرین میں سوار ہوئے تو ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر ہزار نفل کی نیت باندھ کر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے- ٹکٹ چیکر ان کی نماز کی طوالت سے پریشان ہوا تو اس موقع پر ایک ادھیڑ عمر نے ان کا ٹکٹ ادا کر کے ان کی جان بچائی-
 
image
 
لاہور آکر فلموں کے پوسٹر پینٹ کرنے لگے خود کو مزید اسمارٹ بنانے کے لیے تن سازی بھی کی مگر جب اسٹیج پر آکر لوگوں کو اپنے پٹھے دکھاتے تو لوگ ان کے چہرے کے انداز دیکھ کر ان کے جسم کو بھول کر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے- یہ وہ لمحہ تھا جب انہوں نے ہیرو کے بجائے کامیڈین بن کر لوگوں کو ہنسانے کا فیصلہ کیا-
 
اور انہیں فلم جٹی میں مختصر سا رول بطور کامیڈین ملا جس میں ان کی اداکاری نے دیکھنے والوں کو بہت متاثر کیا- یہ وہ موقع تھا جب کہ رنگیلا نے سعید خان کے نام کو خدا حافظ کہہ کر رنگیلے کا نام اختیار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ باقاعدہ پنجابی زبان میں عبور حاصل کیا تاکہ فلم انڈسٹری میں پیر جما سکیں-  اور اس کے بعد رنگیلا کی جوڑی منور ظریف کے ساتھ کامیابی کی سیڑھیاں تیزی سے طے کرنے لگے- منور ظریف کو اگر اپنی برجستگی میں کمال حاصل تھا تو چہرے کے تاثرات کے معاملے میں رنگیلا کا کوئی ثانی نہ تھا- یہی وجہ تھی کہ یہ جوڑی کسی بھی ہیرو ہیروئين سے زیادہ مقبول ہوتی گئی اور انہوں نے چھ سو سے زائد فلموں میں کام کر کے نہ صرف اپنی غربت کا خاتمہ کر لیا بلکہ اپنی تمام ادھوری خواہشوں کو بھی پورا کرنے کا فیصلہ کیا-
 
اس موقع پر انہوں نے فلم سازوں کے سامنے یہ شرط بھی رکھ دی کہ وہ گلوکاری بھی کرنا چاہتے ہیں جس پر اس وقت کے فلم ساز سر پیٹ کر رہ گئے مگر رنگیلا ان کی فلموں کی کامیابی کی ضمانت تھی اس وجہ سے انہیں اس خواہش کو پورا کرنا ہی پڑی- اس موقع پر رنگیلا نے اپنی آواز میں میرے منوا گاتا جا رہا رے اس گانے کی مقبولیت نے بھی ریکارڈ قائم کر دیے-
 
image
 
یہ وقت ایسا تھا کہ رنگیلا مٹی میں بھی ہاتھ ڈال رہے تو وہ سونا بن جاتی تھی رنگیلا کا معاوضہ کسی بھی ہیرو کے برابر تھا اس وقت رنگیلا نے اپنی فلمیں بنانے کا بھی اعلان کر دیا اور اس شعبے میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے شروع کر دیے-
 
مگر جس طرح ہر عروج کو ایک زوال ہوتا ہے اسی طرح رنگیلا کے ساتھ بھی ہوا مگر وہ اتنی کامیابیوں کے بعد اس ناکامی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے اور وہ پے درپے اپنا سرمایہ لگا کر فلمیں بناتے رہے جو کہ ناکام ہوتی رہیں اور ان کے ساتھ ساتھ رنگیلا کی ساری جمع پونجی بھی ڈوبتی گئی- یہاں تک کہ وہ خالی ہاتھ ہو گئے اور مجبوراً بڑی اسکرین کو چھوڑ کر اسٹیج پر کام کرنے پر مجبور ہو گئے- اس وقت میں ان کا جگر اور گردے بھی ان کا ساتھ چھوڑ بیٹھے اور مارچ 2005 کو اس کامیڈین نے کسمپرسی کے عالم میں اس دار فانی سے کوچ کر لیا-
YOU MAY ALSO LIKE: