انسانیت


انسانیت لفظ اب صرف سننے میں آتا ہے ورنہ انسانیت تو اب کہی کھو چکی ہے بلکہ اس کو کہی دفنایا گیا ہے بہت کم لوگ ہونگے اب جو انسانیت سے واقف ہونگے اب تو انسانیت کی جگہ ہوس نے لی ہے اب تو خواہشات ہے اور ان کو پورا کرنے کے لیے انسانیت کو چھوڑ کر درندے کی روپ اختیار کیا جاتا ہے ۔۔۔


لفظ درندہ تو کچھ بھی نہیں ہے تمہارے ہوس کے سامنے میں تو سمجھتی ہوں کہ کہ تمھارے کردار کے لیے کوئی لفظ ہی نہیں بچا پہلے حوا کی بیٹی محفوظ نہیں تھی لیکن تمھارے پاس اسلامی دلائل تھے کہ وہ بے پردہ ہے اس لیے وہ محفوظ نہیں ہے چلو یہ دلیل مان جاتے ہے مگر اب تو جانور محفوظ نہیں رہے اس کے لیے کیا دلیل دو گے اس کے لیے تو پردے کا بھی حکم نہیں ہے ۔۔۔۔۔

اب بھی تم خود کو مسلمان کہتے ہو تو میں تم پر غیر مسلم کو فوقیت دونگی وہ دین نہیں رکھتا مگر انسانیت تو رکھتا ہے اگر تم مسلمان ہو تو تمھیں مکافات عمل پہ یقین تو ہوگا کیا تمھارا دل نہیں کانپتا یہ سب کرتے ہوئے کل جب بات تم پہ آئے گی تم تو آواز اٹھاو گے انصاف مانگو گے مگر جب تم جانوروں کے ساتھ زیادتی کرتے ہو وہ تو بے زبان ہے وہ آواز نہیں اٹھاتے اس لیے تم ان کے ساتھ بھی ظلم کی انتہا کررہے ہو۔۔۔

تمہیں اب موت سے نہیں زندگی سے ڈرنا چاہیے کیونکہ تم مر چکے ہو تمھارا ضمیر مر چکا ہے تم مروگے نہ تو سمجھ لینا کہ تم پہ موت مہرباں ہو چکی ہے ورنہ تم زندگی پہ بوجھ بن کہ جی رہے تھے
اب خدارا اپنی انسانیت کو جگاو اب کتنی زندگیاں برباد کروگے اور کتنے جانداروں کے مجرم بنوگے دوسروں پہ نہیں خود پہ رحم کرو کیونکہ تم انسان نہیں درندوں سے بدتر ہو چکے ہو اب تھک جاؤ ظلم سے اب تو ظلم بھی تم سے تھک چکا ہوگا۔

 

گل صحرائی
About the Author: گل صحرائی Read More Articles by گل صحرائی: 10 Articles with 8796 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.