کراچی کما کر دینے اور اذیت سہنے والا شہر۔
(Muhammad Arshad Qureshi, Karachi)
افسوس اس امر پر بھی ہے کہ شہر کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے، شہر تیزی سے وسعت پذیر ہے لیکن نظام وہی پرانا ہے ، نصف صدی پہلے بھی اس شہر میں ایک بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی تھی آج بھی وہی ہے ، ایک گیس سپلائی کرنے والی کمپنی تھی آج بھی وہی ہے، ایک پانی سپلائی کرنے والا ادارہ تھا آج بھی وہی ہے ، ایک سیورج کنٹرول کرنے والا ادارہ تھا آج بھی وہی ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو کمپنی یا ادارہ پچاس سال پہلے شہر کے محل وقوع اور آبادی کے لحاظ سے کنٹرول کررہے تھے وہ اس شہر کے محل وقوع اور آبادی کو پچاس سال بعد بھی اسی طرح کنٹرول کرسکتے ہیں ! افسوس ہم ان 50 سالوں میں نہ کوئی نیا شہر آباد کرسکے نہ اس شہر کو نئے انتظامی زون میں تقسیم کرسکے تاکہ شہر کو کنٹرول کرنا آسان ہو اور شہریوں کے مسائل تیزی سےحل ہوں ۔ |
|
|
دو کروڑ کی آبادی رکھنے والے، پاکستان کا معاشی حب کہلانے والے اور سب سے زیادہ کما کر دینے والے شہرِ قائد کراچی کی عجیب قسمت ہے کہ اس نے اپنے اندر بسنے والوں کو بہت کچھ دیا لیکن پلٹ کر اسے چند ایک نے ہی دیا ۔ کسی شہر کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ اس کی ترقی اور فلاح کے لیے کام کرنے والے اداروں اور وزارتوں پر اس شہر کے لوگ ہی مقرر نہ ہوں ۔ اس میں کسی بھی قسم کی دوسری رائے نہیں کہ کراچی صوبہ سندھ کا حصہ ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس شہر کو یہاں پید ا ہونے والا ، یہاں کے زمینی حقائق کو جاننے والا ، یہاں کے گلی کوچوں سے واقف ہی بہتر سمجھتا ہے کہ اس شہر کو کس طرح مسائل سے نجات دلائی جاسکتی ہے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ کراچی میں رہنے والے کسی شخص کو لاڑکانہ کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری دے دی جائے تو یقیناً یہ اس کے لیے ممکن نہیں کیوں کہ وہ اس علاقے کے حوالے سے بالکل واقف نہیں ۔ اب اگر یہاں کی وزارتِ بلدیہ، وزارتِ ٹرانسپورٹ، کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ ، کراچی پولیس ، کے ڈی اے ، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور دوسری اہم وزارتوں اور اداروں کو دیکھ لیں تو بات سمجھ آجاتی ہے کہ یہ شہر کیوں زوال پذیر ہے ۔ اگر اس بات کو منفی انداز میں سوچیں گے تو ان چند سطور میں آپ کو تعصب کی بو محسوس ہوگی۔ لیکن اگر اس کو مثبت انداز سے سوچیں گے تو آپ کو نہ صرف بات درست لگے گی بلکہ ملک اور بالخصوص اس شہر کے بہترین مفاد میں بھی نظر آئے گی۔ جتنا بہتر کسی بھی شہر میں مستقل رہنے والا اُسے جانتا ہے دوسرے شہر والا جان ہی نہیں سکتا۔
روشنیوں کا شہر کہلانے والا شہر جو اب دن بھر پانی میں ڈوبا رہتا ہے اور رات اندھیرے میں اس کی بدقسمتی دیکھیں کہ یہاں کے ووٹوں سے جیتنے والے اپوزیشن میں بیٹھے ہیں جب کے دوسرے شہر وں سے کامیاب ہونے والے حکومت میں ۔اس میں قصور یہاں کے شہریوں کا قطعی نہیں انہوں نے یہاں لوگوں کو جب بھی ووٹ دیا تو دل و جان سے دیا مگر زیادہ تر وفا نہ کرسکے ۔ زیادہ پرانی بات نہیں محض دوسال پیچھے چلتے ہیں جب اس شہر میں نعرے لگے اور لکھے نظر آئے وزیرِ اعظم کراچی سے لوگوں کو امید کی ایک کرن نظر آئی مسائل حل ہونے کی امید نظر آئی ، اس شہر نے روایت کے برعکس نئی آنے والی جماعت کو اور وزیرِ اعظم کے لیے عمران خان کو ووٹ دیا اور ثابت کیا کہ انہیں اپنے مسائل کے حل میں دلچسپی ہے گو کہ عمران خان نے بعد میں اس شہر کی نشست کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا مگر یہاں کے باسیوں نے ان کے نعرے کی لاج رکھی اور مسائل کے حل کی خاطر انہیں اور ان کی جماعت کو ووٹ دے کہ ایوانوں تک پہنچا دیا۔ صدرِ پاکستان، وزیرِ اعظم پاکستان اور گورنر سندھ تک کے عہدوں پر پہنچنے والوں نے یہاں سے ہی ووٹ لیا۔
اب جب مسائل حل ہونے کا وقت آیا تو مسائل مزید بڑھتے نظر آنے لگے لوگ پھر مایوس ہونے لگے ، آپ بہتر جانتے ہیں کہ انسان اُسی سے مایوس ہوتا ہے جس سے اس نے امیدیں وابستہ کی ہوتی ہیں ۔ شہر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع ہوا ، لوگوں کے برسوں سے بنے گھر اور کاروبار گرادیے گئے لوگ بیروزگار ، بے گھر بے ، آسرا ہوگئے ۔شہر میں کئی دہائیوں تک شراکت اور بلا شراکت غیرے اقتدار میں رہنے والی جماعت انتخابات میں شکست سے دوچار ہوکر صوبہ میں اپوزیشن اور وفاق میں اقتدار میں بیٹھ گئی۔جس کے بعد شہر میں ایک سیاسی خلا بھی محسوس کیا جانے لگا کئی نئی سیاسی جماعتیں بنیں کئی پرانی جماعت سے دھڑے بنے مگر شہر کی عوام کیا چاہتی ہے اس کا فیصلہ بلدیاتی انتخابات میں ہونا تھا سو شہریوں نے اس مایوسی کے عالم میں پھر ایک نعرہ سنا اپنے شہر کا اپنا مئیر ، مئیر تو اپنا ہوگا ، قصہ مختصر کہ شہر میں مئیر بھی ایم کیو ایم پاکستان کا کامیاب ہوگیا اور کامیابی کے بعد ہی انہوں نے یہ کہہ کر باقی ماندہ امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا کہ میں بے اختیار مئیر ہوں ۔ اب اس شہر کی صورت حال یہ ہے کہ صدرِ پاکستان ، وزیراعظم پاکستان، گورنر سندھ اور مئیر کراچی اسی شہر سے ووٹ لے کر کامیاب ہوئے مگر یہ شہر تیزی سے زوال کا شکار ہے ۔
قارئین کرام ! آپ جانتے ہیں کہ ہمارا پیارا وطن پاکستان کسی ملک سے جنگ کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا بلکہ اس کے وجود میں آنے کی وجہ ایک بہترین سیاسی قائد و رہنما اور ان کی بہترین سیاست اور سیاسی حکمتِ عملی تھی۔ کسی بھی شہر اور ملک کی ترقی میں سیاسی نظام کا گہرا عمل دخل ہوتا ہے ۔ اس شہر میں تیزی سے مسائل کا بڑھنے کی ایک اہم وجہ سیاسی خلا بھی ہے جو تاحال برقرار ہے ۔ ماضی میں اس شہر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں پر اگر غور کریں تو نظام کے پیچھے ایک سیاسی قوت بھی رہی ۔ چاہے وہ عبدالستار افغانی کا دور ہو یا نعمت اللہ خان کا ، چاہے وہ فاروق ستار کا دور ہو یا مصطفٰی کمال کا شہر میں کام ہوتے رہے اور ان میں تسلسل بھی قائم رہا۔ مگر اب شہر میں سیاسی خلا بھی موجود ہے ترقیاتی کام بھی جمود کا شکار ہیں اور مسائل تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں ۔
افسوس اس امر پر بھی ہے کہ شہر کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے، شہر تیزی سے وسعت پذیر ہے لیکن نظام وہی پرانا ہے ، نصف صدی پہلے بھی اس شہر میں ایک بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی تھی آج بھی وہی ہے ، ایک گیس سپلائی کرنے والی کمپنی تھی آج بھی وہی ہے، ایک پانی سپلائی کرنے والا ادارہ تھا آج بھی وہی ہے ، ایک سیورج کنٹرول کرنے والا ادارہ تھا آج بھی وہی ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو کمپنی یا ادارہ پچاس سال پہلے شہر کے محل وقوع اور آبادی کے لحاظ سے کنٹرول کررہے تھے وہ اس شہر کے محل وقوع اور آبادی کو پچاس سال بعد بھی اسی طرح کنٹرول کرسکتے ہیں ! افسوس ہم ان 50 سالوں میں نہ کوئی نیا شہر آباد کرسکے نہ اس شہر کو نئے انتظامی زون میں تقسیم کرسکے تاکہ شہر کو کنٹرول کرنا آسان ہو اور شہریوں کے مسائل تیزی سےحل ہوں ۔
گذشتہ دو روز کی بارش نے شہر کے بہت سے علاقوں کو ڈبو کر رکھ دیا ۔ وزیرِ بلدیات نے وضحات دی کہ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر لوگ پرانی تصاویر اور ویڈیو لگا کر ہمیں بدنام کر رہے ہیں ۔ جب کہ شہر کے 90 فیصد علاقوں سے پانی نکالا جاچکا ہے ۔ ان کی اس بات کے بعد شہر میں اگلے روز پھر بارش ہوئی تو لوگ وڈیو بناتے ہوئے تاریخ بھی بتانے لگے تاکہ تصدیق ہو کہ یہ آج کی وڈیو ہے ۔ وزیرِ موصوف کی یہ بات اس مضمون کی ابتدائی سطور کی جانب ہی اشارہ کرتی ہے کہ وزیرِ موصوف شہر سے واقف ہی نہیں یہ شہر شاہراہ فیصل ، کلفٹن ڈیفینس، گلشن اقبال ،صدر یا ملیر تک محدود نہیں ہے ۔ شہر کہ کئی علاقے اب بھی کئی کئی فٹ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ اب ہمیشہ کی طرح کہا جارہا ہے کہ برساتی نالوں پر آبادیاں بن گئیں ،تو کیا راتوں رات بنی ہوں گی یہ آبادیاں ! نہیں ہر گز نہیں یہ اسی طرح بنی ہیں جس طرح ایمپریس مارکیٹ میں کھڑے ہونے والے ٹھیلے چھپرے میں تبدیل ہوکر پھر آر سی سی کی پکی دکانوں میں تبدیل ہوگے تھے ۔ اب انہیں تو گرا دیا مگر ان کو بنانے کی اجازت دینے یا بنتے وقت کارروائی نہ کرنے والوں کی سزا کے طور پر ایک ماہ کی پینشن بھی نہ روکی گئی ۔ دوسری بات کہی جارہی ہے کہ مون سون کا دوسرا سسٹم شہر میں توقع سے زیادہ برس گیا ۔ ہے کوئی سمجھ میں آنے والی بات ! چلیں اگر آپ زلزلہ آنے پر ایسی کوئی بات کرتے ہیں تو بات سمجھ آتی ہے یہ مون سون کو تو ہر سال آنا ہوتا ہے اور اسے برسنا ہوتا ہے آپ کو تو شہر کو اس کے لیے تیار رکھنا چاہیے ۔
اب وزیرِ اعظم پاکستان کو چاہئے کہ اس شہر پر خصوصی توجہ دیں ، یہاں کے باسیوں کی تکالیف کا ازالہ کریں ، شہر کو چار زون میں تقسیم کرکے نیا انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے ، شہر میں بجلی، پانی، گیس کی سپلائی اور سیورج کے کنٹرول کے لیے مزید کمپنیوں کو لایا جائے ، مقامی حکومت کو بااختیار کرکے شہر کا نظام چلانے والے اداروں کو اس کے کنٹرول میں دیا جائے ۔کیوں کہ ملک کی ترقی اس شہر سے جڑی ہے یہاں مسائل حل ہوں گے تو یہ شہر ترقی کرے گا یہ شہر ترقی کرے گا تو ملک ترقی کرے گا ۔
|