‎قاضی بڑا کہ غازی؟

صورتحال کی نوعیت کے باعث ہم اپنی تحریر کا آغاز مجبوراً ایک لطیفے سے کر رہے ہیں ۔ ایک بزرگ نے کئی سالوں کی مقدمہ بازی کے بعد بالآخر کیس جیت لیا جج نے فیصلہ ان کے حق میں دے دیا ۔ بزرگ نے خوش ہو کر اسے دعا دی اللہ تجھے تھانیدار بنائے ۔ جج نے کہا بابا جی! جج تھانیدار سے بڑا ہوتا ہے ۔ بزرگ نے کہا ، نہیں!تھانیدار جج سے بڑا ہوتا ہے اس نے پہلے ہی دن مجھ سے کہا تھا کہ پانچ ہزار روپے مجھے دے دو تو میں معاملہ یہیں رفع دفع کر دیتا ہوں ۔ اس وقت میں اس کی بات مان لیتا تو میرا اتنا وقت اور پیسہ خرچ ہونے سے بچ جاتا ۔

بالکل اسی طرح سے کسی گستاخ رسالت کا مقدمہ سالوں سال عدالت میں چلتا رہتا ہے جج فیصلہ سنا کے نہیں دیتا بس تاریخ پہ تاریخ ڈالتا رہتا ہے پھر کوئی عاشق رسول عاجز آ کر قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اس نابکار کو ایک ہی وار میں جہنم واصل کر دیتا ہے اور قوم اس مرد مجاہد کو غازی کا خطاب عطا کرتی ہے پھر یہ غازی پھانسی چڑھ کر شہادت کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے اور تاریخ میں امر ہو جاتا ہے اور اس کا مقام اس قاضی سے بہت بلند ہوتا ہے جو عدالت میں بیٹھا فیصلے کو لٹکائے رکھتا ہے اور نتیجے میں کسی سرپھرے کو لٹکنا پڑ جاتا ہے ۔ اور اسی طرح سے منبر پر بیٹھا ہؤا ایک مولوی اچھل اچھل کر کسی توہین رسالت کے مرتکب ملعون کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ تو صادر کرتا ہے مگر اسے قتل کرنے والے کے لیے کسی معیار اور اہلیت کا تعین نہیں کرتا کہ عشق رسول میں کسی کی جان لینے سے پہلے وہ خود بھی کچھ جان لے ۔ اور مولوی کبھی یہ نہیں بتاتا کہ اس کام کے لیے وہ خود اپنی خدمات یا اپنا بیٹا پیش کیوں نہیں کرتا؟
 
چار روز پہلے پشاور کے ایک کمرہء عدالت میں ایک نوعمر لڑکے نے ختم نبوت کے منکر اور خود اپنے نبی ہونے کے دعویدار ایک نابکار مخبوط الحواس شخص کو ایک اہلکار سے چھینے گئے ہتھیار سے جہنم رسید کر دیا کیونکہ اس کے خلاف تمام ثبوت و شواہد اور خود اس کے اعترافی بیانات کے باوجود وہاں بیٹھا قاضی دو سال بعد بھی کسی نتیجے پر پہنچ نہیں پایا تھا لہٰذا عشق رسول میں سرشار ایک نوخیز نوجوان نے خود اپنے ہاتھوں سے اس گستاخ کو دوزخ میں پہنچا دیا اور اب وہ خود پھانسی کے پھندے تک پہنچے گا کیونکہ بقول اس کے اس قتل کا حکم اسے خود حضور محمدﷺ نے اس کے خواب میں آ کر دیا تھا اور اسے جنت کی ضمانت دی تھی ۔ سیدھے صاف لفظوں میں کہا جائے تو یہ پیارے نبیﷺ پر کتنا بڑا بہتان ہے اس کے لیے ایک مضمون الگ سے تحریر کرنا ہو گا ۔

بہرحال ایک غریب و نیم یا مطلق ناخواندہ سادہ لوح نوجوان کے ہاتھوں ایک گستاخ رسالت کی ہلاکت نے ساڑھے چار برس قبل ممتاز قادری کی پھانسی کے واقعے کی یاد تازہ کر دی جس نے سلمان تاثیر پر توہین رسالت کے الزامات اور مفتی حنیف قریشی کی دھؤاں دھار تقریر سننے کے بعد سال دو ہزار گیارہ کے چوتھے دن اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی تھی ۔ وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا سوائے اس مفتی کی تقریر سننے کے بعد خود کو بحیثیت ایک عاشق رسول ایک گستاخ رسول کو جہنم واصل کرنے کے ۔ مقدمہ چلا سزائے موت سننے کے بعد ممتاز قادری نے رحم کی اپیل کی جو مسترد ہو گئی اور اس کی پھانسی نے پچاسی برس قبل پھانسی چڑھنے والے غازی علم دین کی یاد تازہ کر دی تھی ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ غازی خالد خان کے مقدمے کا کیا فیصلہ سامنے آتا ہے منظر نامہ تو تقریباً وہی ہے پس پردہ حقائق بھی رفتہ رفتہ سامنے آ ہی جائیں گے ۔ ابھی تک تو نوجوان بہت پرعزم مسرور و شادمان نظر آتا ہے اصل امتحان تو تب شروع ہو گا جب پھانسی کا پھندہ آنکھوں کے سامنے جھولتا نظر آئے گا ممتاز قادری نے تو سپر ڈال دی تھی اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا تھا مفتی حنیف کو بالواسطہ ذمہ دار ٹھیرایا تھا اور رحم کی اپیل کر دی تھی ۔ اسی وجہ سے ، ممتاز قادری کی سزائے موت پر عملدرامد کے بعد ہم نے ھماری ویب پر جو تبصرے تحریر کیے تھے ان میں سے چند کو ہم مکرر تحریر کرنے پر مجبور ہیں ۔

* ‎پاکستان میں آج تک سابقہ آقاؤں کے بنائے ہوئے قوانین رائج ہیں اور جن کی وجہ سے قائد اعظم تک غازی علم دین شہید کو بچا نہیں پائے تھے ۔ اور دوسری بات یہ کہ علم دین بھی غریب تھا اور ممتاز قادری بھی غریب تھا ۔ اگر حرام کا پیسہ ہو تو پاکستان میں بیگناہوں کے قاتل بھی اسی کالے اندھے قانون کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھ لیتے ہیں ۔

* ‎پاکستان میں قانون غریب کے لئے کچھ اور ہے اور حرامخور دولتمندوں کے لئے کچھ اور ۔ اسی لئے ان میں غیرت ہوتی ہے اور نا ہی ناموس رسالت کا پاس ۔ سب سے بڑے بےغیرت حکمران ہیں بہت سے نام نہاد مذہبی رہنما دین کے ٹھیکیدار ایک نمبر کے منافق اور موقع پرست ہیں انہی کی وجہ سے پھر کسی غریب عاشق رسول کو قانون اپنے ہاتھ میں لینا پڑتا ہے ۔

‎* علم دین کو اشتعال علماء کی تقریروں اور ان کے سوتے جاگتے دیکھے ہوئے خوابوں اور ان میں ملنے والی ہدایات کے تذکروں نے دلایا تھا ۔ جب قائد اعظم نے ان سے متنازعہ کتاب کے مندرجات کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ سب باتیں ہماری کتابوں میں موجود ہیں ۔ اسی وجہ سے قائد اعظم نے غازی کو اپنے اقدام کا اعتراف نہ کرنے کے لئے کہا ۔ مگر انہوں نےانکار کر دیا کیونکہ عشق رسول میں اپنی جان دینے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا سبق علماء یا ان کی آل اولادوں کے لئے نہیں تھا وہ عشق رسول میں ایک غریب آدمی کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کے لئے تھا ۔ کسی بھی گستاخ رسول کو جہنم واصل کرنا صرف اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اسے اس سعادت کو حاصل کرنے پر اکسانے والے گفتار کے غازیوں پر خود ان کے فتووں کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ انہیں جب اپنی موت سر پر کھڑی نظر آتی ہے تو معاملے سے قطعی لاتعلقی کا بیان حلفی بھی داخل کراتے ہیں اور سیکیورٹی گارڈز کی گود میں بھی جا بیٹھتے ہیں ۔ یہ حقائق بھی تاریخ کا حصہ ہیں انہیں مسخ نہیں کیا جا سکتا ۔

* ممتاز قادری نے بالآخر عدالت میں یہ بیان دیا کہ اس کے ہاتھوں سلمان تاثیر کا قتل ایک وقتی اشتعال کا نتیجہ تھا اس سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی ۔ محلے کی مسجد کے خطیب کی اشتعال انگیز تقریر سن کر اس کے اندر تاثیر کو قتل کرنے کی تحریک پیدا ہوئی اور وہ اس خطیب سے ملا تو اس نے اسے گستاخ رسول کو قتل کر کے عاشق رسول کی سند حاصل کرنے پر اکسایا ۔ مگر قادری کے اس بیان کے بعد اس خطیب نے معاملے سے لاتعلقی اور ممتاز قادری نامی شخص سے قطعی لاعلمی کا بیان حلفی داخل کرا دیا ۔ پھر قادری نے رحم کی اپیل کر دی جس کی ذرائع ابلاغ پر خبریں آتی رہیں ۔ پھر سرعام سڑکوں پر بےگناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں اور بیوہ ماؤں کی گود اجاڑ دینے والے سفاک قاتلوں کا بال بھی بیکا نہ کر سکنے والی حرامخور خبیث حکومت نے یہ رحم کی اپیل رد کر دی ۔ اور ایک غریب معصوم نیم خواندہ سیدھا سادہ آدمی پھانسی کے پھندے تک پہنچا دیا گیا ۔آپ ایک بات بتائیں جب کسی توہین رسالت کے مرتکب کے خلاف اس کے واجب القتل ہونے کا فتویٰ صادر کیا جاتا ہے تو کیا وہ خود اس مفتی پر لاگو نہیں ہوتا؟ وہ خود اس سعادت کو حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا ۔ تحفظ ناموس رسالت کا علمبردار اور عشق رسول کا دعویدار ہونے کے باوجود گستاخ رسول کو جہنم واصل کرنے کی ذمہ داری ایک عام آدمی کے سر کیوں لگاتا ہے؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہاں قانون امیر کے لئے کچھ اور ہے اور غریب کے لئے کچھ اور ۔آئندہ سے کوئی غریب عام آدمی ان کی باتوں میں آ کر قانون اپنے ہاتھ میں نہ لے ۔

‎* قادری کی پھانسی کے موضوع پر ہماری ویب پر چھپنے والی جو بھی تحریریں میری نظر سے گذری ہیں ان میں کہیں بھی اس مولوی کا ذکر نہیں ہے جس کی اشتعال انگیز تقریر سن کر قادری کے دل میں سلمان تاثیر کو قتل کرنے کی تحریک جاگی ۔ جس کا عاشق رسول نے اپنے بیانات میں واضح طور پر ذکر کیا یوٹیوب پر اس تقریر کی وڈیو موجود ہے اورآپ خود چیک کر سکتے ہیں کہ کیسے ایک مولوی اچھل اچھل کر منہ سے کف اڑاتا عام لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے اور پھانسی کا پھندہ اپنے گلے میں پہن کر اپنی بیوی کو بیوہ اور معصوم بچوں کو یتیم کر جانے پر اکسا رہا ہے ۔

‎میرا سوال صرف اتنا ہے کہ اس شرپسند فسادی ملا نے یہ کار خیر خود اپنے ہاتھوں سرانجام کیوں نہ دیا اور ایک غریب سادہ لوح شخص کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کا سبب کیوں بنا؟ یہ سارے دوغلے فسادی ملا صرف عوام سے ہی قربانیاں کیوں مانگتے ہیں خود کیوں نہیں کوئی قربانی دیتے ۔ لوگوں کو قتال و جدال کی پٹیاں پڑھا کر ان کے بچوں کو مرواتے ہیں اور خود اپنے بچوں کو اپنے افکار عالیہ سے کوسوں پرے رکھتے ہیں ۔ اور یہ مولوی اتنے بڑے ثبوت کے باوجود اپنے جرم سے صاف مکر گیا اور معاملے سے لاتعلقی کا بیان حلفی داخل کرا دیا ۔ عوام کو عقل کب آئے گی؟

‎* آپ کو پتہ ہے اس عاشق کو قاتل کس نے بنایا؟ ایک منافق بےعمل موقع پرست نام نہاد عالم دین نے ۔ جس کی اشتعال انگیز تقریر سن کر قادری نے اسی شخص کو فنا کے گھاٹ اتار دیا جس کی حفاظت پر وہ مامور تھا ۔ اس غریب سادہ لوح محافظ نے یہ تک نہ سوچا کہ اگر قانون اپنے ہاتھ میں لے کر توہین رسالت کے کسی ملزم محض کو قتل کردینا عشق رسول کا ثبوت ہے اور درجہء شہادت پر فائز ہونے کی ضمانت ہے تو پھر یہ چرب زبان ملا خود یہ سعادت حاصل کیوں نہیں کر لیتا؟ سیدھے جنت میں جانے کا جھانسہ دے کر کسی غریب کو پھانسی کے پھندے کی راہ کیوں دکھا رہا ہے ۔ جبکہ کسی پر ذاتی مخاصمت کی بناء پر صرف الزام ہیں ثبوت کوئی نہیں ۔ سلمان تاثیر کسی بیگناہ غریب عورت کو سزائے موت سے بچانے کی کوششوں میں خود اپنی زندگی کی بازی ہار گیا ۔ اس ملا کی اس , لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لے کر گورنر پنجاب کے قتل پر اکسانے والی تقریر کی وڈیو یوٹیوب پر موجود ہے وہ جو بھی تھا جیسا بھی تھا ایک غریب محنت کش بیگناہ عورت کو جھوٹے الزام میں سزا سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ جس قانون کو اس نے کالا کہا تھا وہ انسانوں کا بنایا ہؤا ہے اور یہاں تو دن دہاڑے بیوہ ماؤں کی گود اجاڑ دینے والے قانون کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں ۔ بس سلمان تاثیر کے ساتھ ساتھ قادری کو بھی اپنے جرم سادہ لوحی کی سزا ملی ۔ اس فسادی مولوی نے حکمرانوں کو کیوں نہیں للکارا غیرت نہیں دلائی سلمان تاثیر کو گرفتار کرنے کی ۔ اپنا بیٹا کیوں نہیں بھیجا اسے قتل کرنے کے لئے؟ اس کے شر کی وجہ سے دو خاندان اجڑ گئے ۔ یہ بھی تو قاتل ہے اسے پھانسی کے پھندے تک کون پہنچائے گا؟

‎* بہت مجبور ہوکر یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آئندہ کوئی غریب قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نا کرے اس کا حق صرف طاقتوروں اور حرامخوروں کی بگڑی اولادوں کو حاصل ہے ۔ عشق رسول میں صرف کوئی غریب ہی اپنی جان کیوں دیتا ہے؟ کسی گستاخ رسول کو جہنم واصل کرنا صرف اسی کی ذمہ داری کیوں ہوتی ہے؟ مگر یہ کردار کی بات ہے جسے ہم جیسے گفتار کے غازی کیا جانیں ۔

پاکستان کی عدالتوں کے بارے میں ایک امریکی اخبار نے جو سرخی جمائی تھی اس میں موجود ایک لفظ کا جو صحیح ترجمہ ہے وہ تو اس لائق بھی نہیں کہ یہاں تحریر کیا جا سکے ۔ ان میں بیٹھے منصف چوروں اور لٹیروں کے مددگار بن جاتے ہیں اور کمزوروں لاچاروں کے لیے فرعون ۔ قاتلوں کو ضمانت پر رہا اور انہیں باعزت بری کرنا اور بیگناہوں کو پھانسی چڑھا دینا یا پھر انہیں بیس بیس سال جیل میں قید رکھنا کوئی ان سے سیکھے ۔ ایسا ہی ایک قاضی ایک مصدقہ کذاب کے مقدمے کا دو سال میں بھی فیصلہ نہیں سناتا ۔ ایسے میں کوئی غریب ان پڑھ غازی اٹھتا ہے اور ایک ہی جست میں سارا حساب بےباق کر دیتا ہے تو پھر بڑا کون ہؤا؟
(رعنا تبسم پاشا)



 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 226 Articles with 1693429 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.