محمد بن سلمان کی سیاسی سرگرمیاں

تاریخ اسلامیہ کے اوراق مسلم حکومت کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں، جس کی سرخیوں میں امن آشتی، جس کی سطروں میں صلح وصفائی اور جس کے جملوں سے محبت ومؤدت اور بھائی چارگی کاجام چھلکتا ہے اور کتب تاریخ میں ان کی وفاداری وغم خواری، جذبۂ ایثار، خالص دوستی اور عدل انصاف کی خوشبو آج بھی مشام جان کو معطر کررہی ہے، کیونکہ اس حقیقت سے کسی بھی فردِ بشر کو مجال ِ انکار نہیں کہ مسلم بادشاہوں نے اپنے مذہب اسلام کی سربلندی اور اعلائے کلمۃ اللہ میں سرفروشی، عروج وترقی اور لوگوں کے مابین مختلف المذاہب ہونے کے باوجود انسانیت وانسانیت نوازی میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے


مملکت سعودیہ کے تخت شاہی پر جلوہ افروز محمد بن سلمان کی سیاسی سرگرمیوں سے حرم کا ریزہ ریزہ نوحہ خواں ہے اورعقل ورطۂ حیرت میں ہے کہ آخریہ گل گوں انسان انسانیت وشرافت کے قبائیں اتارکر کس شرمناک درندگی پر اتر آیاہے اوراس کانیک صالح، حق گو وحق پرست علماء کرام کو بے جا قیدوبند کی صعوبتوں میں ڈھکیل دینا یہ ایک شرمناک وقابل مذمت عمل ہی نہیں بلکہ حجاج بن یوسف کے زمانہ میں کئے جانے والے مظالم کے عین مشابہ ہے، جو تاریخ کا بدترین ومکروہ ترین فعل ہے، گویاوہ امریکہ نوازی اور اس کے حکم کی پیروی میں ہر دن شرارتوں کے نئے گل کھلارہاہے، ظلم وستم کے نئے پینترے بدل رہا ہے، اب حالت ایسی بن چکی ہے کہ اسے جبر وتشدد کے زہر میں مئے نشاط کا مزاآنے لگا ہے اور ظلم وجور، بغض وحسد کی بھٹی میں تبائی ہوئی تلواریں انسانیت کے خلاف برہنہ ہوچکی ہیں اور محمد بن سلمان اور اس کے ہمنواؤں اوران کی ریشہ دوانیوں پرتف ہو!اس پس منظر میں طائف کے موقع پر دولت کی فراوانی میں ڈوبے ہوئے سنگ دل، متکبرلوگوں کی رحمۃ للعالمین کی ذات اقدس پر ڈھائے گئے مظالم کی وہ داستان درد والم کانوں میں گونج رہی ہے اورشاید اہل طائف کی دیوانگی اور اخلاق باختگی جیسامنظر عربوں نے کبھی نہ دیکھاہوگا، وہی دیرینہ قصے وارثین نبیﷺ کے ساتھ دہرائے جارہے ہیں اور ان پر ظلم وجبر کے تازیانے برسائے جارہے ہیں، محو حیرت ہوں کہ کیوں نہیں ان زرپرست جاگیرداروں کی محل سرائیں ان پر آگریں ؟کیوں نہیں زمین پھٹ پڑی کہ یہ ان سماگئے ہوتے؟کیوں نہیں کوئی طوفان، کوئی زلزلہ، کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا کہ وہ اسی میں رل مل گئے ہوتے؟!
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت بھی ہے کہ تاریخ اسلامیہ کے اوراق مسلم حکومت کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں، جس کی سرخیوں میں امن آشتی، جس کی سطروں میں صلح وصفائی اور جس کے جملوں سے محبت ومؤدت اور بھائی چارگی کاجام چھلکتا ہے اور کتب تاریخ میں ان کی وفاداری وغم خواری، جذبۂ ایثار، خالص دوستی اور عدل انصاف کی خوشبو آج بھی مشام جان کو معطر کررہی ہے، کیونکہ اس حقیقت سے کسی بھی فردِ بشر کو مجال ِ انکار نہیں کہ مسلم بادشاہوں نے اپنے مذہب اسلام کی سربلندی اور اعلائے کلمۃ اللہ میں سرفروشی، عروج وترقی اور لوگوں کے مابین مختلف المذاہب ہونے کے باوجود انسانیت وانسانیت نوازی میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے اس کی نظیر تاریخ ِعالم میں ملنی مشکل ہے اور انہوں نے جس شعلۂ عشق ووفا میں ڈوب کر، سراپا مردانِ باصفا بن کردین اسلام کو جس اونچائی اور بلندی پر پہنچایا تھا اور اپنے خونِ جگر سے اس کی آبیاری کرکے ثمر آور اور پھلدار بنایا تھا، کتب ِ تاریخ کے صفحات آج بھی ان کے کارناموں پر شاہد ہیں۔

ہائے یہ کیسی تیرہ وتاریک فضاہے، یہ کیسا دلدوز سماں ہے، اہل حرم وپاسبان حرم کا یہ کیسا سفاکانہ سلوک ہے، انسانی فطرت کے تضادات کا یہ کیسا حیرت ناک پہلو ہے، جس سے خود حرم کی آنکھیں نم ہیں اور امت اسلامیہ اپنے مرکزروحانی اور اس کے پاسبانوں کی طرف سے پھیلائے گئے مسموم فضاسے پریشاں ہیں جنہوں نے اسلامی نظریۂ حیات کا قلادہ اتارپھینک کر امریکہ نوازی واعدائے اسلام کی غلامی کا طوق اپنی گردنوں پر سجالیا ہے اور ان شکیب رباونامساعد حالات اور جبروتشدد کے اندوہناک واقعات سے دلوں سے بیداریٔ نوکی امیدیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں اور جمال خاشقجی کی شہادت سے اس حقیقت کی پردہ کشائی ہوئی ہے کہ اہل عرب وشاہان عرب بالخصوص موجودہ سربراہان مملکت سعودیہ عیش وطرب کی شادمانیوں میں مگن عقل سلیم وجوہر حق سے عاری زندگیوں سے شاداں وفرحاں، گہری نیند میں سرگرداں اور خواب خرگوش میں سرمست ہیں، جنہیں اپنی شکم پروری ومفادپرستی اور شادمانی وخوش حالی کے سوانہ اپنوں کی فکر ہے اور نہ دین اسلام کی، اب ان پاسبان حرم سے امت مسلمہ پر سایہ فگن یاس انگیز ودردانگیز بادل کے چھٹ جانے اور موسم خزاں میں شاخ نازک پر شاخ تازہ کی امید بے جااور انجام گلستاں کی پیہم بربادی وبدنامی یقینی معلوم ہوتی ہے۔

ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام ِ گلستاں کیا ہوگا ؟

یہ الگ بات ہے کہ رب کعبہ جس طرح یہودیوں ونصرانیوں اور اعدائے اسلام کی دشنام طرازیوں اور ناپاک سازشوں سے پہلے بھی حفاظت کرتاآرہا ہے، آج بھی اور کل قیامت تک بھی حفاظت کرتا رہے گا، مگر بے وفا وبے شعار حکمرانوں وپاسبانوں سے نسیم سحر کاانتظاربے کار معلوم ہوتاہے، کیوں کہ ایک طرف قدم قدم پر ننگ دین، ننگ ملت غداروں کی ضمیر فروشی کے بھبکے اور شکست وہزیمت کے رستے زخم بھی ہیں تو دوسری طرف دل ودماغ پر ساون کے بادلوں کی طرح عیش پرستی وتن آسانی کی گھٹائیں بھی چھائی ہوئی ہیں، اسی طرح ایک طرف ان کی منافقانہ روش زندگی، سرمایہ دارانہ خسیس ذہنیت، ان کی سنگ دلی وسرکشی اور اخلاقی گراوٹ بھی طشت ازبام ہے تو دوسری طرف حیاسوز کردار کی پستی، اخلاق سوز تنزلی اظہر من الشمس ہے، لیکن قنوطیت ویاس کی اس دہلیز پر بھی ہمارے دلوں میں امید ِصبح نو کی کرنیں روشن ہیں، کیوں کہ مایوسی کفر ہے اور یہ بھی حقیقت برمبنی امر ہے کہ ہر شام اپنے ساتھ نورسحر کی نوید لاتی ہے۔

طول غم حیات سے نہ گھبرا اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو


 

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 45 Articles with 63501 views "I write to discover what I know.".. View More