ہم جب یکجہتی کشمیر کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد کشمیر پر بھارتی ناجائز تسلّط کے خلاف کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کے ساتھ کھڑا ہونا ہے، ریاست جموں و کشمیر کی عوام سات دہائیوں سے بھارتی ظلم و جبر سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں، بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرے، تقریباً تیس سالوں سے ہر سال پانچ فروری کو پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر قومی سطح پر منایا جاتا ہے اور پوری دنیا میں مقیم پاکستانی جوش و جذبے کے ساتھ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں، تقریباً تمام طبقات سے افراد جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کرتے ہیں ،مختلف پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ہر سطح پر کشمیریوں سے یکجہتی کا عزم دوہرایا جاتا ہے۔
یوم یکجہتی کشمیر کےذریعے ایک طرف تو کشمیریوں سے اپنائیت و حمایت کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اس دن بھارتی ظلم و جبر کی گونج پوری دنیا میں زور و شور سے سنائی دی جاتی ہے، کشمیر جسے جنت ارضی کہا جاتا ہے، جس قدر خوبصورت ہے، اتنا ہی مظلوم بھی ہے کہ سرزمین کشمیر پہ بسنے والے پہلے ایک صدی تک ڈوگرا راج کے ظلم و جبر سے لڑتے رہے، پھر جب تاج برطانیہ کا ہندوستان میں سورج غروب ہوا تو وہ کشمیر کے مسئلے کو ادھورا چھوڑ کر چلا گیا بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گورداس پور کا مسلم اکثریتی ضلع بھارت کے حوالے کر گیا، جہاں سے بھارت کو کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرنے کا راستہ مہیا کیا گیا۔
ریاست جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تو بھارت نے اعتراض کیا کہ جونا گڑھ کی اکثریت ہندو آبادی پر مشتمل ہے، لہٰذا یہ بھارت میں شامل کیا جائے، جس پر پاکستان نے اصول کی پاسداری کی، حیدرآباد دکن کی مسلمان حکومت نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا تو بھارت نے ہندو اکثریت کا جواز بناکر اس پر قبضہ کرلیا، کشمیر مسلمانوں کی اکثریت پہ مشتمل تھا لیکن بھارت نے کسی اصول کسی قانون کا احترام نہیں کیا اور دھوکے سے کشمیر پر قابض ہوگیا، بھارتی ہٹ دھرمی اور ڈوگرا ظلم و ستم کے ردعمل میں مسلمان مجاہدین نے دونوں کی جم کر پٹائی شروع کردی، آزاد کشمیر لینے کے بعد ابھی مجاہدین پونچھ کا گھیراو کیے ہوے تھے کہ بھارتی درخواست پر اقوام متحدہ نے جنگ بندی کی درخواست کی جسے پاکستان نے قبول کرلیا تو مجبوراً مجاہدین کو بھی پیچھے ہٹنا پڑا، جس کے بعد اقوام متحدہ نے استصواب رائے کرانے کی قرارداد منظور کی اور ابتک بیس سے زائد قراردادیں منظور کرچکا ہے لیکن افسوس ہے اقوام متحدہ آج تک بھارت سے ان درخواستوں پر عمل کروانے میں مکمل ناکام رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی کمزوری اور بااثر اقوام کی خودغرضی و غیرسنجیدگی کا فائدہ اٹھا کر بھارت ستر سالوں سے کشمیریوں کو ظلم کی چکی میں پیستا آرہا ہے، پانچ اگست 2019 سے ابتک کشمیر کو بھارت نے جیل میں تبدیل کر رکھا ہے اور انسانیت سوز ظلم و بربریت ڈھا رہا ہے، آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا حصہ قرار دے دیا ہے، جس پر پاکستان اور دنیا بھر کے اسلامی ممالک میں شدید غم و غصہ اور تشویش پائی جاتی ہے، پاکستان کے سخت احتجاج کے بعد سے کشمیر ایک بار پھر عالمی مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے، جس پر بظاہر تو اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا لیکن دو بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آن کیمرہ اجلاس ضرور ہوچکا ہے، جس کی معلومات دنیا کے سامنے فی الحال تو نہیں آئی
بھارت نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاؤن کے دوران موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی اور پارلیمنٹ سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کو تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا اور قرار داد اکثریت کی بنیاد پر منظور کرلی
(سیاق و سباق) کشمیریوں نے جدوجہد آزادی کا آغاز 1931 میں کیا تھا جس کی حمایت علامہ اقبال نے بھی کھلے بندوں کی تھی 13 جولائی 1931 کو سری نگر کی سینٹرل جیل کے باہر مظاہرین پر پولیس نے اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 17 کشمیری شہید ہوئے اور یوں کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
تحریک پاکستان، مسلم لیگ کے بینر تلے چل رہی تھی تو اس موقع پر سری نگر میں کشمیریوں نے آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
اس حوالے سے آل انڈیا کشمیر کمیٹی بھی بنائی گئی جس کے زیر انتظام 14 اگست 1931 کو سیالکوٹ میں جلسہ ہوا، کہتے ہیں اس جلسے میں کم و بیش ایک لاکھ افراد نے شرکت کی تھی اور کشمیریوں کی حریت کی حمایت کا اعلان کیا تھا جبکہ 14 اگست 1931 کا دن یوم کشمیر کے طور پر بھی منایا گیا تھا۔
بھارت کی ماضی کی حکومتوں، چاہے کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، نے اپنے آئین کے آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت کشمیر کی متنازع حیثیت کو کبھی نہیں چھیڑا، یہ الگ بات ہے کہ مقبوضہ علاقے میں فوج، پولیس اور دیگر نوعیت کے ظلم و ستم بدستور جاری رہے لیکن کشمیریوں کی خصوصی حیثیت ختم نہیں کی گئی مگر 2019 میں نریندر مودی کی حکومت نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی سرکردگی میں اس تار کو بھی چھیڑا دیا اور گزشتہ 5 اگست کو 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا، جہاں تعلیمی ادارے مسلسل6 ماہ سے بند ہیں، غذائی اجناس کی صورت حال سے دنیا ناواقف ہے، ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں بلکہ وہاں پر بھارتی فوج کا بسیرا ہے، کسی کو نہیں معلوم لیکن پاکستان سمیت پوری دنیا کو یہ معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اسلحے کے زور پر ظلم و جبر کا نیا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔
5 اگست سے آج تک کشمیر میں انسانی حقوق کا چراغ گل ہے اور روشنیوں کے اس خطے میں جبر کی گھنگور گھٹائیں تڑ تڑا رہی ہیں۔
اس بار 5 اگست کے حوالے سے سب میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور معاشرے کے تمام طبقات سب ایک پیچ پر نظر آرہے ہیں۔ پوری دنیا کوایک مثبت پیغام گیا کہ ہم واقعی کشمیر کے ساتھ کھڑے ہیں، یہ یقینا ان کشمیریوں کے لیے بھی حوصلے کا باعث ہوگا۔جن کا یہ کہنا ہے کہ ہم دن میں چھ نمازیں پڑھتے ہیں۔ فجر،ظہر، عصر، مغرب،عشا اور نماز جنازہ!
آج حالات کی سنگینی اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ ہمیں اب کچھ حقیقی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔
کشمیریوں سے علامتی یکجہتی ، کوئی تقریر یا ٹویٹ کر دینا موثر حکمتِ عملی نہیں ہے۔
اب واقعی میں ایک نئے بیانیے اور نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو ان زمینی حقائق کا جواب دے
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے کشمیریوں کی نظریں پوری امت باالخصوص پاکستان کی راہ تک رہی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ یوم یک جہتی کے بعد یہ تحریک عملی شکل اختیار کرتی ہے یا بات پھر دعووں تک دھری رہ جائے گی۔
محترم شاعر نامور قطعہ نگار اقبال راہی نے بہت ہی حسب حال اشعار کہے ہیں۔
کرفیو اب بھی ہے اس وادی میں قائم دائم
کچھ نہ تم کر سکے ہمدردی جتانے والو
جلسوں سے اور جلوسوں سے نہیں کچھ حاصل
یوم یک جہتی کشمیر منانے والو
(میرے چند اشعار اس حوالے سے)
دیو کی قید میں جیسے ہو اک شہزادی
سسک رہی ایسے کشمیر کی یہ وادی
منجمد سی نظروں میں برفیلی آس
بوڑھے کندھے پائیں گے کب آزادی
مردہ ضمیر جاگیں تو کچھ بات بنے
مائیں آنچل پھیلائے ہیں فریادی
منصف عالم تیرا عدل کہاں کھویا
ہر زنجیر جہاں کی ہم نے ہلا دی
|