464 ۔ ڈی

مری روڈ پر جی ٹی ایس کی اومنی بس کا 6th روڈسٹاپ تھا۔ کپڑے بستر اور بہت کچھ لادے اس سٹاپ سے 6th روڈ پر واقع شعبہ ریاضی تک کا پیدل سفر خاصہ طویل تھا مگرکالج سے ایک نئی یونیورسٹی پہنچنے کا شوق اس طوالت اور مشقت پر غالب تھا۔ہم لاہور سے چلے تھے۔ مبلغ سات روپے نقد ادا کرکے صبح صبح لاہور سے راولپنڈی لیاقت باغ بس اڈے پر پہنچے اور وہاں سے نقد دس پیسے دے کر بس کے ذریعے 6th روڈ پر موجود تھے۔یہ اکتوبر 1971 ، آج سے تقریباً پچاس سال پہلے کی بات ہے۔ ذہن میں بہت سی تصویریں دھندلا چکی ہیں مگر جب بھی وہ واقعات ذہن کی پردہ سکرین پر آتے ہیں میں مسکرانے لگتا ہوں۔ جوانی اور پختہ شعور کی وہ منزلیں شاید زندگی کا سب سے خوبصورت دور اور انتہائی قیمتی اثاثہ ہوتا ہے۔ اس وقت بھی میرے چہرے پہ وہی مسکراہٹ ہے اور میں سوچ کر ان لمحوں کو یاد کرتا کاغذ پر منتقل کر رہا ہوں۔ ہڑتالوں اور ہنگاموں کے باعث تعلیمی حالات ابتر تھے۔ حکومت کی گرفت کمزور تھی۔ تعلیمی سال کے مکمل ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ خدا خداکرکے بی اے کے امتحان ہوئے ۔ہمیں یقین تھا کہ اب رزلٹ چھ ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے بعد آئے گا۔پھر داخلے ہوں گے اور پڑھائی شروع ہو گی۔مگر قسمت کی بات ، ابھی امتحان کی تھکاوٹ بھی دور نہیں ہوئی تھی کہ اخبار میں اسلام آباد میں جنم لینے والی نئی یونیورسٹی’’اسلام آباد یونیورسٹی‘‘ میں داخلے کا اشتہار نظر آ گیا۔ٹسٹ اور انٹریو پاس کرنے کے ساتھ شرط تھی کہ اپلائی وہی کر سکتا ہے جس کی میٹرک اورایف ایس سی میں کہیں تھرڈ ڈویژن نہ ہو اور اس کا سابقہ کالج یہ لکھ دے کہ کالج کی کارکردگی کی بنیاد پر وہ یقین دلاتے ہیں کہ طالبعلم کم از کم سیکنڈ ڈویژن لے لے گا۔ ساری شرطیں اور کڑے ٹسٹ ، انٹریو اور انتہائی زیادہ میرٹ ثابت ہونے کے بعد آج ہم داخلہ فیس جیب میں ڈالے اک عجیب مسرت سے سرشار کیمپس کی طرف رواں دواں تھے۔ اس وقت ساری یونیورسٹی 6th روڈ پر گرلز کالج اور ہولی فیملی ہسپتال کے دائیں بائیں تھی۔بڑی سونی سونی ویران اور انتہائی خاموش سڑک پر ہماری جذباتی آوازوں کے سوا کوئی گونج نہ تھی۔

کچھ دھندلا سا یاد ہے ، سٹیلائٹ ٹاؤن کا ایف بلاک تھاآمنے سامنے دو بڑے بڑے بنگلے تھا۔ ایک میں فزکس اور دوسرے میں ریاضی کا ڈیپارٹمنٹ تھا۔اس وقت یونیورسٹی میں کل چار ڈیپاٹمنٹ تھے، دو دوسرے ڈیپارٹمنٹ کیمسٹری اور اکنامکس تھوڑی دور تھے۔ ہم چہکتے ہوئے، شور مچاتے ڈیپارٹمنٹ کی بلڈنگ میں داخل ہوئے تو بحکم چوکیدار ایک دم مکمل خاموشی اختیار کرنا پڑی ۔ پتہ چلا کہ یہاں صرف سرگوشیوں کی اجازت ہے۔ اس پوری یونیورسٹی میں بولنے پر مکمل پابندی ہے۔ فیس جمع کرانے کے بعد ہمیں لائبریری میں جانے کا حکم ہوا۔ لائبریری میں ایسا سکوت تھا کہ اس کے آگے سکوت مرگ بھی ماند تھا، مرگ پہ بھی لوگ رو تو لیتے ہیں مگر یہاں ایسی کوئی چھوٹ بھی نہیں تھی۔ چند طالب علم بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ پتہ چلا کہ بارہ لوگ ہم سے سینئر ہیں ۔ تین کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے وہ چھٹیوں کے بعد ابھی تک نہیں لوٹے۔ باقی دو لڑکیاں اور سات لڑکے وہیں کتابوں میں سر دئیے بیٹھے تھے۔بہت دھیمے لہجے میں رسمی سی بات چیت جاری تھی کہ آواز آئی ۔ ’’غوری صاحب آرہے ہیں‘‘۔ پوری لائبریری کو سانپ سونگھ گیا۔ اتنے میں ایک منحنی سے درمیانہ قد کے صاحب مسکراتے ہوئے آئے، نئے آنے والوں سے حال چال پوچھا اور کہ بیٹا ، تمہارے ماں باپ نے ہمارے پاس تمہیں پڑھنے بھیجا ہے۔کوئی پھرتا نظر نہ آئے۔ یہاں لائبریری میں جو کتاب پسند آئے پڑھو ۔ کلاسوں کا بعد میں بتاتے ہیں۔پتہ نہیں کیا جادو تھا، وہ وقت کا بہترین استاد پیار سے جو بات کہہ گیا کسی میں عدولی کی جرات نہ تھی۔ لائبریرین نفیس انسان تھا، اب نام یاد نہیں، اس کی مدد سے ہم نئے آنے والے بھی کتابیں اور رسالے لے کر سہمے بیٹھ گئے۔دو بجے ہوسٹل جانے کا حکم ہوا اور یونیورسٹی کا ایک ملازم ہمیں وہاں پہنچا آیا۔ اس وقت دو ہوسٹل تھے۔ ایک میں مغربی پاکستان کے طلبا مقیم تھے، دوسرے میں مشرقی پاکستان کے بنگالی طلبا۔ مشرقی پاکستان کے بگڑے حالات کے پیش نظر وہاں کا کوئی طالب علم واپس نہیں آیا تھا۔ یہ ہوسٹل خالی تھا۔ ہمارے حصے وہی ہوسٹل آیا اور ہم دس کے قریب میتھ اور کیمسٹری کے طلبا دوپہر کے بعد 6th روڈ پر اس ہوسٹل میں موجود تھے۔ یہ ہوسٹل ایک بنگلے 464-D میں تھا۔ آج شاید وہاں UCP کا کیمپس ہے۔ہم نے نئے کیمپس کے نئے ہوسٹل ون میں شفٹ ہونے سے پہلے کوئی پندرہ دن لگ بھگ20اکتوبر سے 5 نومبر تک464-Dمیں گزارے ۔یہ ہوسٹل میں رہنے کا میراپہلا تجربہ تھا اور وہ بھی انوکھا اور یکتا۔

ہوسٹل میں ایک بنگالی ملازم تھا منان۔ بڑی اچھی طرح خوش آمدید کہنے کے بعد اس نے ہمیں ہمارے کمرے دکھائے اور کہا کہ منہ ہاتھ دھو کر چائے کے لئے آ جائیں۔ اس دوپہر ہم نے چائے پر گزارہ کیا۔ منان نے خوش خبری دی کہ رات آٹھ بجے وہ کھانا تیار کر لے گا۔آپ لوگ آ جائیں۔رات آٹھ بجے بنگالیوں کی خاص ڈش مچھلی ہماری منتظر تھی۔ہم نے شوق سے کھائی گو اس میں کانٹے حد سے زیادہ تھے۔ اگلی دوپہر ہم آئے تو پھروہی مچھلی کھانا پڑی۔ ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ منان بھائی اتنی مچھلی ہمارے لئے کافی ہے ۔ شام کو ئی سبزی پکانا۔ شام کو ہم آئے تو مچھلی آلو کا سالن ہمارا منتظر تھا۔ آلو بھی بہت تھوڑے تھے بس مچھلی ہی مچھلی تھی۔ حد تھی بعض لوگ چیخ اٹھے کہ بھائی اب مچھلی مزید برداشت نہیں ہو سکتی اسلئے اب کسی سالن میں نظر نہ آئے۔ صرف سبزی پکاؤ۔ اگلی دوپہر سبزی کی آس میں کھانا کھانے بیٹھے تو شوربہ ہی شوربہ نظر ، اتنا شوربہ کہ نہایا جا سکتا تھا۔ کسی نے نعرہ لگایا منان بھائی صرف شوربہ پکایا ہے۔ جواب ملا ، نہیں ذرہ چمچ کو ڈبو کے دیکھو، آلو گوبھی پکایا ہے۔ ہم نے چمچ ذرہ گہرائی میں ڈالا تو آلو بھی تھے اور گوبھی بھی۔ گوبھی اس طرح تھی کہ لگتا تھا کہ چھوٹے چھوٹے درخت کاٹ کر سیدھا اس میں ڈال دئیے گئے ہیں۔ کھایا تو آلو ٹھیک تھے مگر گوبھی بڑی کرسپی کرسپی تھی۔ ہنستے اورکسی طرح کھاتے رہے۔ کسی نے منان کو کہا کہ بھائی یہ کیا پکایا ہے، گوبھی آلو میں کبھی شوربہ نہیں ہوتا تم نے شوربے کا تالاب تیار کر دیا ہے۔ منان بھائی نے بڑی معذرت کی اور کہا کہ شام کو ہمارے مزاج کے مطابق دوسرے ہوسٹل کے کک سے مشورے سے بہترین سالن بنائے گا۔رات کو آلو کی بھجیا تھی ۔ ذرہ کم شوربے میں مگر وہ کم بھی اتنا تھا کہ منہ ہاتھ دھویا جا سکے۔ ہمارا ایک ساتھی رونے لگااور اس نے ایک تاریخی جملہ ادا کیا۔’’ پتہ نہیں کہاں آ گیا ہوں۔ یہ کھانا ہے۔ گھر میں اماں شاندار کھانا بناتی اور کھلاتی تھی۔ نوکرانی رات کو دودھ بھی پلاتی تھی‘‘۔ زور دار قہقو ں میں اسے غلطی کا احساس ہو گیا، تو بولا ، یار مذاق نہ اڑاؤ، سونے سے پہلے دودھ کا گلاس میر ے بیڈ کے پاس رکھنا اس کی ذمہ داری تھی۔کیا کیا جاتا ، ہوسٹل میں ماں کی پکی روٹی اور ایسی ملازمہ کہاں ملتی ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ دن یہاں قیام ہے، قریبی ہوٹلوں سے کھا کر گزارہ کریں گے۔

ہم لوگوں کوڈیپارٹمنٹ میں جاتے اور چپ چاپ لائبریری میں بیٹھ کر کتابوں کی ورق گردانی کرتے، ڈرتے ڈرتے آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کرتے پانچ دن گزر گئے۔ روز پوچھتے کہ کلاسیں کب ہوں گی ، یہی جواب ملتا کہ بتاتے ہیں۔ اس دوران رسمی سی چند کلاسیں ہوئیں جن میں اساتذہ سے تعارف ضرور ہوا۔ ڈاکٹر قدیر خان غوری،ڈاکٹر منیر رشید، ڈاکٹر محمد حسین، شیر علی شنواری اور ہنگری کے ڈاکٹر رچرڈ وی گانٹ جیسے نایاب لوگ اس وقت شعبہ ریاضی کے سرخیل تھا۔ شاید اتنے اچھے ٹیچر کسی یونیورسٹی کو کبھی میسر نہ آئیں۔اس دن اعلان ہوا کہ ہم سب اگلے چند دن میں یونیورسٹی کے نئے کیمپس شفٹ ہو رہے ہیں ۔ پہلے ڈیپارٹمنٹ کا سامان جائے گا۔ اور پھر ہم لوگ منتقل کئے جائیں گے۔ اس دن شام کو یا اگلے دن بہت سے ساتھی دو تین دن کے لئے گھروں کو روانہ ہو گئے۔واپس آئے تو ٹرکوں کی ہلچل جاری تھی سامان بہت تیزی سے شفٹ ہو رہا تھا۔ ہم انتظار کرنے لگے۔ جیسے بتایا گیا کہ بہت خوبصورت جگہ پر پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع رقبے پر خوبصورت سا کیمپس وجود میں آ چکا ہے ہم اس کی تصوراتی خوبصورتی میں گم تھے۔ اگلے کئی دن ہم اس خوبصورت کیمپس کی خیالی تصویریں بناتے اور بگاڑتے رہے اور اس نئی یونیورسٹی کے بارے سپنے دیکھتے رہے۔

اسلام آباد یونیورسٹی کے نام پر آباد بنگلے ایک ایک کر کے خالی ہوتے رہے۔ ٹرک گزرتے اور ہم حسرت بھری نظروں سے روز اپنی باری کا انتظار کرتے ۔تین چار دن بڑے مایوس گزرے مگر سب سے آخر ہم ایسٹ پاکستان ہوسٹل کے مکینوں کی باری بھی آ گئی۔پہلے سامان بس پر لادا گیا اور پھر ہم۔ اس وقت اسلام آباد آنے کے لئے بیسیوں راستے نہیں تھے۔ 6th روڈ سے مری روڈ پر۔ چند عمارتیں اور پھر ویرانہ۔ شاہراہ اسلام آباد پر مڑنے سے پہلے فیص آباد پر چند کھوکھے اور پھر شاہراہ اسلام آباد پر مڑ جائیں۔اس وقت کی شاہراہ اسلام آباد پر صرف ایک چھوٹا سا راستہ تھا جو شکر پریاں کو جاتا تھا، باقی دیوار کی طرح بنا ہوا سر سبز ٹیلا سا ہر جگہ موجود تھا۔ زیرو پوا ئنٹ سے جو سڑک آبپارہ آتی تھی وہ آج بند کر دی گئی ہے ۔ اس سے ذرہ ہٹ کر ایک پگڈنڈی نما سڑک تھی جو آج ایک بڑی سڑک ہے اور جس پر ساری ٹریفک رواں دواں ہے۔ زیرو پوانٹ اور آب پارہ کے درمیان اس پرانی سڑک پر سوائے دو بلڈنگوں گورنمنٹ پریس اور فائر بریگیڈ کے آبپارہ تک کچھ نہیں تھا۔ آب پارہ سے گزرتے ہم اسمبلی موڑ پر پہنچ گئے۔ آج یہاں سے آگے جانے پر پابندی ہے ۔ اس وقت ہماری بس بے ڈھرک اس سڑک پر تین چار کلو میٹر چلتی رہی ۔ اس دوران عمارت تو دور کی بات،کوئی ذی روح، کوئی بھولابھٹکا بھی اس سڑک پر نظر نہیں آیا۔

آخر ایک بلڈنگ نظر آئی۔ پتہ چلا کہ رشین ایمبیسی ہے۔ وہاں سے تھوڑا آگے بس بائیں مڑ گئی۔ یہ بھی ویران سڑک تھی،سڑک کے درمیان پہنچے تو بائیں جانب سڑک سے کچھ پرے ایک گاٗوں اور دور پولینڈ ایمبیسی کی زیر تعمیر بلڈنگ نظر آئی۔ آگے جا کر بس نے دائیں موڑ لیا اور ایک چھوٹی سی چڑھائی کے بعد اس جگہ پہنچی جہاں آج باب یونیورسٹی ہے تو سامنے ڈبے نما بہت سی خوبصورت عمارتیں نظر آئیں۔ اعلان ہوا کہ ہم یونیورسٹی پہنچ گئے ہیں۔ خوشی کے عالم میں نعرے بازی شروع ہو گئی ۔ ہم اپنے خوابوں کی سرزمین پر پہنچ چکے تھے ۔ بہت سی ڈبا نما عمارتوں کو پیچھے چھوڑتے ہم تھوڑا راستہ پتھروں پر رقص کرتی بس میں ہوسٹل کے تین ڈبوں کے درمیان موجود تھے۔ ہوسٹل ایک اور دو تقریباً مکمل تھے جب کہ تیسرا زیر تکمیل تھا۔ بس سے اترنے کے بعد ہم اس یونیورسٹی کے پہلے ہوسٹل کے پہلے مکین خوشی سے سرشار ، اپنے سپنوں کی وادی میں پہنچ کر اپنے کمروں میں منتقل ہو رہے تھے۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500164 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More