کوئی ڈیرھ عشرہ پہلے میرے لڑکپن کے دن تھے جب وزیرآباد کے
نوجوان غازی عامر چیمہ شہید رحمہ اللہ نے ڈنمارک کے گستاخ ایڈیٹر کو واصل
جہنم کرنے کے انعام میں شہادت کا مقام پایا، ان کے تاریخی نمازجنازہ کے
مناظر آج بھی مجھے اچھی طرح سے یاد ہیں۔ لاکھوں کا مجمع شمع رسالت صلی اللہ
علیہ وسلم کے جاں نثار کا آخری دیدار کرنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے
کی تگ و دو کررہا تھا ، لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور چار بہنوں کے
اس اکلوتے بھائی کی قسمت پہ رشک کر رہے تھے جس کے ماتھے پہ اللہ نے عزت و
سربلندی کا ایسا تاج رکھ دیا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے پورے خاندان
کے لئے باعث فخر بن گیا ہے ۔
میری زندگی کا دوسرا بڑا واقعہ لاہور میں غازی ممتاز قادری کاسلمان تاثیر
کو قتل کرنا تھا۔ سلمان تاثیر حرمت رسول کے قانون کو کالا قانون کہتا تھا
اور سرعام توہین رسالت کی مرتکب مسیحی خاتون آسیہ مسیح کی حمایت کرتا تھا
جس کا ہولناک نتیجہ اس کے قتل کی صورت میں نکلا۔
اور اب بدھ کے روز سیشن کورٹ پشاور میں نوجوان خالد نے طاہر قادیانی ساکن
پیشتخرہ کو جس نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا تھا اور 2018 میں تھانہ سربند میں
اس کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا کو سر میں گولی مار کر قتل کردیا ۔
کسی کو اس بات میں شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ مقتول ایک گستاخ اور بے ادب
گمراہ شخص تھا ، گزشتہ رات سوشل میڈیاء پہ وائرل کئی ویڈیوز میں میں نے
دیکھا کہ مقتول ایک غیر زمہ دار طرزگفتگو کا عادی اور جھوٹی نبوت کا
دعویدار تھا، اس کی پشت پناہ کئی این جی اوز تھیں یہی وجہ تھی کہ دوسال سے
مقدمہ عدالت میں تھا یہ کوئی تیرہویں پیشی تھی مگر کیس میں کوئی خاص پیشرفت
نہیں ہوپارہی تھی کہ خالد نامی نوجوان نے انتہائی قدم اٹھایا۔
ماورائے عدالت اقدام قتل یقینا" کسی بھی مہذب معاشرے کے لئے اچھا اور قابل
قبول عمل نہیں ، اس سے حیوانی معاشرے کا تاثر قائم ہوتا ہے تاہم جب حکومت
اور عدالتیں اپنا کام بحسن و خوبی سرانجام نہ دیں تو عام آدمی کی قوت
برداشت ایک حد تک ہی قائم رہ سکتی ہے اور معاملہ جب مزہب اور عقائد کا ہوتو
ہم پاکستانی ضرورت سے ذیادہ جذباتی اور انتہاءپسند ہونے میں دیر نہیں لگاتے
۔
میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ ایسے گستاخ لعین مجرموں کو عدالتی نظام
کے تحت ہی قتل ہونا چاہیے۔ ایک عام شخص کو ہرگز قانون ہاتھ میں نہیں لینا
چاہئے، لیکن چونکہ ہمارا عدالتی نظام بہت پیچیدہ اور سست ہے ، اور یہاں
انصاف نہیں ہورہا بلکہ اکثر واقعات کا نتیجہ انصاف کے برعکس ہی نکلتا ہے،
لہذا ہر شخص خود اپنی عدالت لگاتا ہے اور اپنا فیصلہ سناکر اس پہ عمل درآمد
کرنا چاہتا ہے اور یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر ایسے واقعات ٹھنڈے پیٹوں
برداشت کئے جائیں تو ہر کتا بلا منہ اٹھاکر پاکیزہ اطوار ہستیوں پہ بھونکنا
شروع ہوجائے گا.
ایسے انتہاء پسندانہ واقعات کا اصل محرک تو خود ریاست اور اس کے ادارے ہیں
جو خود مجرم اور انصاف کے درمیان ایسی سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں جو نہ
توڑی جاسکتی ہے اور نہ اسے پھلانگ کر عبور کیا جاسکتا ہے ، حالانکہ کوٸی
ایک بھی ایسا مجرم ان عدالتوں کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچا ہوتا تو نوبت
یہاں تک ہرگز نہ پہنچتی اور یوں ہمارے سیدھے سادے معصوم بچوں کو قانون اپنے
ہاتھ میں نہ لینا پڑتا۔
غازی خالد خان نے جو کیا وہ ایک ایسے بچے کا شدید ردعمل تھا جو ایک طرف
اپنے آقا ومرشد صلی اللہ علیہ وسلم کی زات پہ اٹھتی کوئی انگلی برداشت نہیں
کرسکتا تو دوسری طرف اپنی عدالتوں سے بھی مکمل طور پہ مایوس تھا اس نے تیرہ
پیشیوں تک انصاف کا انتظار کرنے کے بعد یہ کام کیا ۔
گستاخ مدعی نبوت کے قتل کے بعد اب ہماری حکومت بڑا سخت ایکشن لے گی ، دنیا
بھر میں شیطانیت کے چیلے اور جھوٹے امن پسند لبرل اب اس واقعہ کو لے کر
پاکستان مخالف پروپیگنڈا تیز کردیں گے اور کچھ میری طرح سادہ لوح پاکستانی
مسلمان منفی باتوں سے اثر لے کر سمجھیں گے کہ ایسے کاموں سے پاکستان کا
امیج دنیا میں خراب ہوتاہے اور جنگل کے قانون والا تاثر پیدا ہوتا ہے ۔
لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے آخر اس میں ایسی نئی کونسی بات ہے جس سے ہم خوفزدہ
ہوں ؟ ۔
ہم اس وقت کیوں نہیں مرجاتے ، ہمیں اس وقت شرمندگی کیوں نہیں ہوتی جب ہم
امیر اور غریب کے لئے دو الگ الگ قانون دیکھتے ہیں ، جب غریب کی تنخواہ
سترہ ہزار طے ہوتی ہے اور اراکین پارلیمنٹ کی لاکھوں میں ، جب ہم لوگ خود
اپنی بیٹیاں اور بیٹے اٹھا کر امریکہ کو ڈالروں کے عیوض بیچتے ہیں اور اپنی
کتابوں میں اعتراف کرتے ہیں ،
جب سرعام تین پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لئے حکومت ، جج ،
جرنیل اور اپوزیشن چاروں جت جاتے ہیں اور بالآخر اپنااپنا حصہ لے کر اسے
بحفاظت امریکہ بھیج کر دم لیتے ہیں ،
جب گستاخ آسیہ کو مجرم ثابت ہونے کے باوجود اپنے ایمان کا سودا کرکے جرمنی
فرار کرایا جاتا ہے ، جب عبدالشکور قادیانی پانچ سال سزا سنائے جانے کے
باوجود امریکہ پہنچا دیا جاتا ہے، جب امریکی فورسز ہمارے گھر سے اسامہ بن
لادن کو اٹھا کر لے جاتی ہیں تب ہماری غیرتیں کیوں بیدار نہیں ہوتیں تب
ہمیں کیوں نہیں لگتا کہ ایسے شرمناک کاموں سے ساری دنیا میں ہمارا امیج
خراب ہوگا ۔
تب جنگل کے قانون کا تاثر کیوں نہیں پیدا ہو تا؟ ۔
یہ تو مقدر کی بات ہے کہ جو فیصلہ قاضی نے کرنا تھا وہ غازی نے کردیا ،
انجام تو ہر دوصورتوں میں ایسے بدبختوں کا یہی ہونا چاہئے ۔ ہاں البتہ جب
قاضی کے فیصلے غازی کریں تو عدالت اور حکومت دونوں کو اپنے نظام انصاف کا
جائزہ ضرور لینا چاہئے ۔
|