عید قربان آن پہنچی ، حضرت خلیل کی سنت عاشقانہ کو یا د
کرنے اور دہرانے کا وقت ایک مرتبہ پھر قریب آپہنچا۔ حضرت خلیل ؑ کی عاشقانہ
اداء تھی جس کو خدانے ہمیشہ اپنے ماننے والوں میں محفوظ کردیا ۔ لاکھوں
کڑوڑوں مسلمان جانوروں کو خدا کے حکم پر قربان کرتے ہیں ۔ اس حکم کی تعمیل
میں ماحول ، معاشرہ ، ضرورت ، فوائد سب چیزیں ثانوی درجہ رکھتی ہیں اصل چیز
خدا کا حکم ہے ۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے قربانی کو ابا ابراہیم کی سنت قرار دیا
، دس سال تک مدینہ میں قربانی کرتے رہے ، جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہ
کرے اس کے بارے میں فرمایا وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔
قربانی کا موسم آتے ہی اس پر شبہات کا دروازہ ایک مرتبہ پھر کھل جاتاہے ۔
کچھ لوگ مذہبی حوالوں سے اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کچھ سماجیاتی پہلؤوں سے
۔ بعض لوگوں کو یہ نظر آتا ہے کہ قربانی قدیم دور میں دیوتاؤں کو خون دیا
جاتا تھا ، اولادیں تک ان کی راہ میں قربانی کی جاتی تھیں اسی کا یہ تسلسل
ہے ۔جبکہ خدا کا یہ کہنا ہے کہ اسے قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا اس
کو تمہارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے ۔ ایک شخص جس کی نظر میں اس سارے عمل
اور اصطلاحات کہ خدا کا حکم ، عشق کی اداء ،نبی کی سنت ، تقوی ان چیزوں کی
کوئی اہمیت اور معنویت ہی نہیں ہے ، وہ اس فریم ورک سے ہی مختلف سوچ رہا ہے
تو اس کا اختلاف صرف اس مخصوص جزئی سے نہیں ہے بلکہ اس پورے فریم ورک سے ہے
جس کو مذہب کے نام سے تعبیرکیا جاتاہے ۔
مولانا مودودی کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ آج
لوگ جن چیزوں کو نئی سمجھ رہے ہوتے ہیں اور اپنی عقل کی کرامتوں میں شمار
کررہے ہوتے ہیں وہ جاہلیت کا ہی قدیم روپ نئے انداز میں ظاہر ہوتاہے ۔ بے
خدا تہذیب کے بارے سمجھا جاتاہے یہ دور جدید کے انسان کی عقل کی معراج ہے
جبکہ یہ جاہلیت خالصہ ہے جس کے تاریخ میں مختلف ورژنز رہے ہیں ۔ اس لئے کسی
دوسرے کے نظریے کو صرف اس بنیاد پر کہ تاریخ میں اسی طرح کے نظریات غلط
صورتوں میں رہے ہیں انہی کا تسلسل قرار دیدینا درست نہیں ہے ، اور صرف اسی
چیز کو رجیکشن کی بنیاد اگر بنایا جائے تودور جدید کی اقدار جاہلیت کا
تسلسل ہیں کوئی قدر نئی نہیں ہے ۔ مسلمان ہر حال میں کتاب و سنت کو دیکھے
گا اس کو اس سے غرض نہیں ہے کہ یہ نظریہ تاریخ میں کن صورتوں میں رہا ہے ۔
قربانی کی بجائے غریب کی مدد نہیں کی جاسکتی ؟ جس خدا نے قربانی کا حکم دیا
ہے اس نے غریب کی مدد کے لئے بھی مسلمانوں کے مالوں میں حصہ مقرر کیا ہے
جبکہ قربانی کے گوشت کی صورت میں بھی غریبوں کی مدد ہوتی ہے ۔ اس کا پورا
پیکج ہے جس میں ہر چیز کے لئے حصہ مقرر ہے ۔ غریب کی مدد کرنا بھی اگر اس
لئے ضروری یا مستحسن ہے کہ اس کاخدا نے حکم دیا ہے تو پھر دوسری جگہ اس حکم
کو کیوں نظر انداز کیا جائے ۔ اگر مذہب سے ہٹ کر اخلاقیات کو طے کیا جائے
تو اس میں تو وہی سروائو کرے گا جو فٹ ہے جو فٹ نہیں ہے اس کو مرجانا چاہیے
یا اس کو بالاخر مرنا ہی ہے ۔ انسانوں کی ابتدائی آبادیوں یا جنگلات کے
زمانے کی زندگی میں اگر بیماروں یا کمزوروں کو کا ٹ دیا جاتا تھا تو اسی
اخلاقیات کو آج کیوں نافذ نہیں کیا جاسکتا ؟ آخر جب خدا کے حکم سے ہٹ کر ہی
سوچنا ہے تو کسی بھی چیز کا حسن و قبح طے شدہ تو نہیں ہے انسان جو سوچ لیں
طے کرلیں وہ اچھا ہے ۔
کیا قربانی جانوروں پر ظلم ہے ؟ ظلم کسے کہتے ہیں ا س کو متعین کون کرے گا
؟ایک چیز جس میں انسانوں کی اکثریت شریک ہے ، جانور کاٹتے ہیں کھاتے ہیں تو
کیا وہ ایک مخصوص موقع پر آکر ظلم بن جاتی ہے ؟ بعض لوگ یہ کہتے پائے جاتے
ہیں کہ سماجی عوامل کہ کتنے جانوروں کی ضرورت ہے ، معاشرہ اس کا متحمل ہے
کہ نہیں ، ماحولیات کو اس سے کس قدر خطرہ ہوسکتاہے ان سب چیزوں کو اس میں
مد نظر رکھنا چاہیے ۔ لیکن اس میں آپ کی پریشانی سمجھ سے باہر ہے جب جانور
کم ہوں گے تو خود ہی قربانی بند ہوجائے گی ؟ قربانی ہونی ہوتی ہے اسی لئے
تو ان جانوروں پر اتنی توجہ دی جاتی ہے ، اتنے لوگ پالتے ہیں بڑا کرتے ہیں
اتنی اکثریت میں یہ نظرآتے ہیں ورنہ لوگ اس پر توجہ ہی نہ دیں ، اس کی نسل
کی اس قدر افزائش ہو ہی نہ سکے ۔ ماحولیات کو بہتر بنانا کوئی مشکل کام
نہیں اگر اس پر تھوڑی سی توجہ دی جائے ۔ بیس کڑوڑ کے ملک میں اگر پانچ دس
لاکھ لوگ تین دنوں میں اتنے جانور ذبح کریں تو آلائشوں کو ٹھکانے لگانا
حکومتی مشنری کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے ۔ حکومت کی جانب سے کبھی نہیں کہا
گیا یہ مشکل یا ناممکن کام ہے ۔
قربانی میں چار پانچ قسم کے جانور صرف ذبح کیے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ
جانوروں کی لاکھوں قسمیں ہیں ۔ لیکن ہمارے سمجھدار لوگوں کو صرف انہی قسموں
کی یاد ستاتی ہے جن کو قربانی میں ذبح کیا جاتاہے ۔ جانوروں کی جن قسموں کو
قربانی میں ذبح کیا جاتاہے ان پر توجہ ، ان کی نسل کی افزائش ،ان کی خوراک
کا خیال اگر دوسری نسلوں سے زیادہ رکھا جاتاہے تو پھر اس میں تکلیف کیسی ؟
جانوروں کے معاملے میں ہمارے بہت حساس لوگوں نے ان چار پانچ قسم کے جانوروں
سے ہٹ کر کبھی کسی جانور کی زندگی دیکھی ہے ؟ یہ لوگ باتوں کے پہاڑ بنانے
اور قربانی کرنے والوں پر صرف اعتراضات کرنے کی بجائے جانوروں کی کسی نسل
کی ذمہ داری اٹھائیں اور میدان میں آئیں ۔ ہمارے ہاں گلی محلوں میں بے شمار
آوارہ کتے نظر آتے ہیں ۔ ان کی خوراک ، افزائش ، ضرورت کبھی ان دانشوروں کا
موضوع نہیں بن سکی ؟ کیا یہ جانور نہیں ہیں ؟ اسی طرح بلی ، چوہے اور دیگر
بہت سی نسلیں جن کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتاہے ۔ قربانی کرنے والے ان تین
چار نسلوں کے بارے خودی دیکھ لیں گے ، جانوروں کی تین چار قسمیں آپ بھی
اپنی ذمہ میں لیں ۔
انسانوں کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ ماحولیات کا ہے ۔ اس ظلم میں دور جدید کے
بے خدا ، پیسے اور سرمایہ کے پجاری انسان نے سب سے بڑھ کر حصہ لیا ہے جس نے
فطرت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ پیسہ ہی جن کا رب ہے ان کو ماحول سے کوئی
غرض ہے نہ انسانوں کی کوئی پرواہ ہے ۔ آلودگیوں سے پانی ، ہوا ، مٹی اور
زمین کس قدر متاثر ہورہے ہیں ۔ جنگلات دن بدن کم ہورہے ہیں ، جانوروں کی
بہت سی نسلیں آبادی کے مسلسل بڑھنے سے خطرے میں پڑ چکی ہیں ، فیکٹریوں سے
کڑوڑوں انسانوں کی زندگی داؤ پر لگ چکی ہے ۔ ہر سال لاکھوں کڑوڑوں انسا ن
ان کی نظر ہوتے ہیں ، بیمار جو پڑتے ہیں وہ الگ ہیں ، اور جوز ندہ ہیں ان
کی معاشی حالت بھی ایسی ہے کہ وہ بھی موت کے منہ میں ہیں نہ جینے کے قابل
ہیں نہ مرسکتے ہیں لیکن ہم نے صنعتی ترقی تو کی نا ۔ آگے بڑھتی سائنس
انسانوں کے لئے کس قدر خطرناک ہوچکی ہے ہم نے اس پر غور کرنے کی زحمت کبھی
کی ؟ نہری ، سمندری پانی ، ہوا ، فضا ء ، زمین ، کوئی چیز بھی موجودہ دور
کے بے خدا انسان کے ہاتھوں تباہ ہورہی ہے لیکن ہماری تان ٹوٹتی ہے تو
قربانی پر ۔
قربانی سے کونسی نسل کو معدوم ہونے کا خطرہ پیدا ہوا ہے ؟ قربانی سے
ماحولیات میں کیا تغیر آیا ہے ؟ اس حوالے سے اگر ریسرچ رپورٹ پیش کی جائے
اس کی روشنی میں بات ہوسکتی ۔ لیکن آپ اگر صرف یہی چاہتے ہیں کہ ہم آپ پر
بنا سوچے سمجھے ایمان لے آئیں تو بہت معذرت ۔ آپ خود کسی پر ایمان لائے
ہوئے یہ باتیں کررہے ہیں اور ہم آپ پر ایمان لے آئیں ۔
|