پیارےاللہ صاحب

ہیں۔ یہ کیسی پیاری بات ہے جس میں انتہائی درجے کا رحم‘ کرم‘ پیار‘ شفقت اور صلہ رحمی موجزن ہے۔ پیارے اللہ جی آپ سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی ہے ہی نہیں۔ یہ کرم کیا کم ہے کہ آپ نے مجھے اشرف المخلوق پیدا کیا۔ کچھ معاملات میں اللہ جی آپ نے انسان کو خودمختار بنایا اور بعض معاملات اپنی ہی دسترس میں رکھے۔ جیسے رزق‘ عمر‘ موت‘ پیدائش اور شکل و صورت کا معاملہ۔ آپ پتھر میں موجود کیڑے کو بھی رزق دیتے ہیں۔ کس نے کب دنیا میں آنا اور کب جانا ہے اور اُس کا رزق کتنا متعین ہے کوئی نہیں جانتا سوائے میرے اللہ جی آپ کے

پیارےاللہ صاحب آپ کے سوا دلوں کا حال کوئی نہیں جانتا۔ آپ تو میری شہ رگ سے بھی قریب ہیں۔ آپ کے بے شمار احسانات کے باوجود اِس دور کی جدت اور ترقی مجھے دنیا ہی کی دلدادہ بنا رہی ہے۔ یہ چکاچوند مجھے اس قدر مقدم ہے کہ قدم قدم پر آپ کی نافرمانی کا مرتکب ہو جاتا ہوں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ آپ کی ناراضی کا باعث ہے۔ اللہ جی مجھے اپنے سارے گناہ یاد ہیں اور نیکی یا بھلائی کب اور کہاں کی یا ہوئی یاد نہیں۔ آپ کا دین اسلام ہمیں گھر بیٹھے بٹھائے ہی مل گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں اِس کی قدر و منزلت سے واقف نہیں اور گھر کی مرغی دال برابر والا معاملہ بنا رکھا ہے۔ یہ آپ کے محبوبؐ کی دعا اور آپ کا کرم ہی تو ہے کہ میری برائیاں میرے چہرے سے عیاں نہیں ہوتیں اور نیکی کا کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا کام کر لوں اُس کے چرچے زبانِ زدعام ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی آپ کا فضل ہے جو دن میں دو بار آپ کے گھر حاضر ہو جاؤں‘ تو میری پیشانی پر محراب کی صورت نورانیت جھلکنے لگتی ہے۔ورنہ ہم سے پہلی اقوام کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پیارے اللہ جی آپ تو ذرا سی نافرمانی یا حکم عدولی کے بدلے نیست و نابود کرنے اور شکلیں بگاڑ دینے پر قادر ہیں۔

اللہ صاحب میں دانستہ آپ کی قہاری سے آنکھیں چراتا ہوں اور بغیر زادِ راہ کے آپ کی رحمت اور کرم کا طلب گار بھی ہوں۔ مالک دو جہاں میری اِس اُمید کا بھرم رکھنا میں دل و جان سے آپ کی راہ پر چلنا چاہتا ہوں مگر ماحول اور نفس اِس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ آپ تو دلوں کو پھیردینے پر قادر ہیں۔

اے مالک ارض و سما آپ اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتے ہیں اور ایک ماں کا بیٹا کتنا بھی نافرمان ہو جائے وہ کسی صورت گوارا نہیں کرتی کہ اُس پر کوئی آنچ آئے۔ آپ کے محبوب آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا وہ واقعہ مجھے یاد ہے۔ جب ایک ماں کا نافرمان بیٹا جانکنی کے عالم میں تھا اور کسی طور اُس کی روح قفس عنصری سے پرواز نہیں کر رہی تھی۔ جب یہ خبر نبی کریم شفیق مجسمؐ تک پہنچی‘ تو آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نافرمان کی ماں کو طلب فرمایا کہ وہ اپنے بیٹے کو معاف کر دے۔ جب وہ نہ مانی‘ تو حضور اقدسؐ نے صحابہؓ سے ارشاد فرمایا کہ ڈھیر ساری لکڑیاں اکٹھی کرو اور اُنھیں جلا کر اِس شخص کو اُس میں ڈال دو تاکہ اُسے اِس اذیت سے نجات دلائی جا سکے۔ یہ سن کر اُس کی ماں نے اُسی وقت اپنے نافرمان بیٹے کو معاف کر دیا اور اُس کی روح پرواز کر گئی۔ مالک کائنات مجھے بھی یقین ہے کہ آپ مجھ گناہگار کو جہنم کا ایندھن نہیں بنائیں گے۔

میں اسی پیار پر مان کر کے آپ کی وعید بھول کر نافرمانی کا مرتکب ہو جاتا ہوں بلکہ دل کے کسی نہاں خانے میں اُنھیں ماننے ہی سے انکاری ہو جاتا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں جو ستر ماؤں سے زیاد پیار کرے وہ اپنے بندے پر کوئی آنچ آنے دے۔

جب کبھی کوئی مشکل یا آزمائش آ پڑی میں نے اپنےپیارے اللہ صاحب کو نہایت مہربان اور شفیق پایا اور اِس حقیقت کا بھی ادراک ہوا کہ آپ اپنے بندے کی استطاعت سے زیادہ اُس پر بوجھ نہیں ڈالتے اور نہ ہی رنج و الم سے دوچار کرتے ہیں۔ آپ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے جو انسانی سوچ سے بالا ہے۔
میں نے بارہا کوشش کی کہ اپنے اندر آپ کی اور آپ کے پیارے محبوبؐ کی پسندیدہ صفات پیدا کر سکوں مگر ہر بار میں کہیں نہ کہیں سے کمزور پڑ جاتا ہوں۔ آپ کے محبوبؐ کا اخلاق اور آپ کی صفات اپنے اندر جاگزیں کرنا مجھ جیسے گناہگار کے بس میں نہیں۔اِس کے باوجود میری کوشش اور نیت ہے۔

میرے پیارے اللہ آپ کی شان ہے جو آپ دیتے ہیں اور دیتے ہی چلے جاتے ہیں اور اُس کا تقاضا بھی نہیں کرتے……

پیارےاللہ میرے محسوسات میں یہ بھی شامل ہے کہ اِس دور میں آپ کے پسندیدہ دین اسلام پر چلنا نہایت دشوار ہے…… ہر کوئی دولت ہی کو اپنے لیے راہ نجات سمجھتا ہے۔ حلال و حرام کی پروا کیے بغیر ”جانوروں“ کی طرح ”جنگل“ میں دوڑا پھرتا ہے۔ اللہ جی مجھے کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے

اپنی ناراضی اور خوشنودی کی راہیں دکھا کر ہماری لگامیں ڈھیلی چھوڑ رکھی ہیں۔ اللہ ہمیں اِس حال میں نہ چھوڑیں بلکہ سارے معاملات میں شامل حال رہیں۔

پیارے اللہ جی میں جانتا ہوں آپ سے جیسا گمان رکھو آپ رحمن و کریم ہیں۔اپنے بندے سے ویسا ہی سلوک فرماتے ہیں۔ یہ کیسی پیاری بات ہے جس میں انتہائی درجے کا رحم‘ کرم‘ پیار‘ شفقت اور صلہ رحمی موجزن ہے۔ پیارے اللہ جی آپ سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی ہے ہی نہیں۔ یہ کرم کیا کم ہے کہ آپ نے مجھے اشرف المخلوق پیدا کیا۔ کچھ معاملات میں اللہ جی آپ نے انسان کو خودمختار بنایا اور بعض معاملات اپنی ہی دسترس میں رکھے۔ جیسے رزق‘ عمر‘ موت‘ پیدائش اور شکل و صورت کا معاملہ۔ آپ پتھر میں موجود کیڑے کو بھی رزق دیتے ہیں۔ کس نے کب دنیا میں آنا اور کب جانا ہے اور اُس کا رزق کتنا متعین ہے کوئی نہیں جانتا سوائے میرے اللہ جی آپ کے……
مجھے اپنے گناہوں کی وجہ سے اللہ جی سے ندامت اور شرمندگی کا احساس بے چین رکھتا ہے۔ اللہ جی روزانہ آپ کے گھر سے پانچ بار یہ صدا آتی ہے ”آؤ فلاح کی طرف“ اور اِس حکم کی تعمیل میں کبھی بے پروائی‘ کبھی نیند‘ کبھی تھکاوٹ‘ کبھی سستی اور کبھی اپنے ہی تراشیدہ کئی عذر حائل ہو جاتے ہیں۔ آپ کی دی ہوئی جان کو سرد موسم میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا پہاڑ نظر آتا ہے۔ جب کبھی میں ”بوجھل“ قدموں سے آپ کے رُوبرو کھڑا ہو بھی جاؤں‘ تو دنیا کی طلب ہی ذہن کا احاطہ کیے ہوتی ہے۔ اللہ جی یہ کبھی بھولے سے بھی خیال نہیں آیا کہ میں آپ سے ہم کلام ہوں۔ یہ فانی دنیا چھوڑ جانا ایسے محو ہو جاتا ہے جیسے یہی عالم بالا ہے۔ دل و دماغ پر دنیاوی کام کاج ہی مسلط ہوتے ہیں اور آپ ہی کے دیے ہوئے وقت میں سے آپ کے لیے چند گھڑیاں نکالنا ایسے ہے جیسے نعوذباللہ آپ پر احسان کر رہا ہوں۔ یہ آپ کی کرم نوازی ہے جو مسجد سے باہر آتے ہوئے لوگ مجھے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ کی نسبت سے پکارتے ہیں۔ اللہ جی آپ تو سب جانتے ہیں اور ہر چیز پر قادر ہیں۔ مجھ میں گناہوں سے بچنے کی ہمت نہیں ہے۔ ذرا سا ماحول یا موقع مل جائے‘ تو بندہ آپ کے روبرو کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتا۔ اللہ جی میرے دل کی سیاہی بھی دور فرما دیجیے۔ میں کبھی بھی آپ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوا۔

پیارےاللہ بس میں اتنا جانتا ہوں کہ آپ مالک دو جہاں نہایت مہربان اور رحم کرنے والے ہیں اور روز ِ محشرآپ کے روبرو پیش ہونا اور دنیا میں کیے گئے اعمال کا حساب دینا ہے۔ آپ جزا و سزا کے مالک ہیں۔ اپنے گریبان میں جھانکوں تو سوائے نافرمانیوں اور حکم عدولیوں کے کچھ نظر نہیں آتا۔ اِس کے باوجود مجھ پر آپ کی رحمتیں اور احسانات بے شمار ہیں جن کا کسی صورت شکر ادا کیا ہی نہیں جا سکتا۔
اب بڑھاپے کی آمد آمد ہے اور میں تندرستی کے ساتھ اس کی جانب بڑھ رہا ہوں۔ یہ بھی میرےپیا رےاللہ صاحب کا مجھ پر خاص کرم ہے۔ یہ ساری عنایات اللہ صاحب نے مجھ ناچیز پر کیں اور خوب کیں۔
اللہ جی! آپ تو معاف کرنے والے ہیں اور معافی کو پسندکرتے ہیں۔ مجھے اور میرے والدین کو بھی معاف فرما دیں۔ مجھے جب تک زندہ رکھیں اسلام پر رکھیں اور موت دیں‘ تو میرا خاتمہ ایمان پر کریں۔

سچ تو یہ ہے

جان دی‘ دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا



 

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 41 Articles with 56135 views "I write to discover what I know.".. View More