حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
سربراہی میں جب مسلمانوں نے مکہ فتح کر لیا تو اس وقت آپ نے دیکھا کہ مکہ
کی ایک ضعیف عورت سر پر ایک بھاری گٹھری لیے بھاگی جارہی ہے۔
سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بوڑھی عورت پر ترس آیا کہ بڑھاپے
کے باوجود اس نے سر پر گٹھری کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے۔چنانچہ آپ اس بڑھیا کے
قریب آئے اور اس سے وجہ پوچھی کہ وہ اتنا بوجھ سر پر اُٹھا کر کہاں جارہی
ہے؟ اس بڑھیانے کہا: اے بیٹے!میں محمد نامی ایک شخص کے خوف سے مکہ چھوڑ کر
جارہی ہوں کہ کہیں وہ مجھ سے میرا مذہب نہ چھڑا دے۔آپ اس بڑھیا کی بات سن
کر مسکرائے اور فرمایا : مائی اتنی بھاری گٹھری تو کیسے اُٹھائے گی، لا یہ
بوجھ مجھے دے دے، میں تجھے تیری منزل تک پہنچا دیتا ہوں۔
یہ کہہ کر آپ نے وہ گٹھری اپنے سر پر اُٹھالی اور بڑھیا کے ساتھ چل پڑے،
تمام راستے وہ بڑھیا محمد کو برا بھلا کہتی رہی اور آپ نہایت صبر وتحمل سے
سنتے رہے۔پھر جب بڑھیا اپنی منزل پر پہنچ گئی تو آپ نے بڑھیا کی گٹھری اس
کے حوالے کر کے واپسی کی اِ جازت چاہی۔ بڑھیا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کا بیحد شکریہ اَدا کیا اور کہا کہ اے سعادت مند انسان! میں تجھے ایک
نصیحت کرتی ہوں کہ مکہ میں محمد آگیا ہے، وہ بڑا جادوگر ہے، اس سے بچ کر
رہنا۔
آپ نے بڑھیا کی بات سن کر نہایت ملائمت سے فرمایا: مائی میں ہی وہ محمد ہوں
جس کے خوف سے تو مکہ چھوڑ آئی ہے۔ بڑھیا نے جب یہ سنا تو وہ بہت شرمندہ
ہوئی اور کہنے لگی کہ اگر آپ محمد ہیں تو میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ اللہ کے
نبی ہیں؛ کیوں کہ آپ دشمنوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک روا رکھتے ہیں۔
پیارے بچوں! وہ بڑھیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار اور
حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے اپنا مذہب چھوڑ کر فوراً دین اسلام
قبول کرلیا۔اچھے اخلاق کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگاؤ :
’’میزانِ عمل پر اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہ ہوگی‘‘۔
مَا مِنْ شَیْیئٍ أثْقَلُ فِي الْمِیْزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ
(سنن ابودائود: ۱۲؍۴۲۱حدیث: ۴۱۶۶) |