میرا ذاتی خیال ہے کہ متقی وپرہیزگار اشخاص شکر،احسان اور
صبر کرتے ہیں حساب نہیں۔اہلِ تصوف یا صوفیا اکرام نے متقی و پرہیزگار کی
تعریف کچھ ایسے بیان فرمائی ہے کہ اپنے آپ کو سب سے کم تر درجے پہ ظاہر
کرنے والا شخص ہی دراصل متقی ہے۔بات ہے بھی درست کیونکہ کم تر نہ خیال کرنے
والا اپنے آپ کو برتری کے عہدے پر فائز دیکھنا چاہے گا اور یہی تکبر ہے
جبکہ کبریائی صرف او ر صرف ذاتِ باری تعالیٰ کو ہی زیب دیتی ہے۔انسانوں کو
نہیں،انسانوں میں وہ برتری خواہ دولت،علم یا طاقت کی کسی طور مالک کائنات
کو گوارہ نہیں ہے۔مولانا روم ؑ کا ایک واقعہ تفصیل سمجھانے کے لئے کافی
ہوگا ،مولانا روم ایک بار کہیں جا رہے تھے کہ ایک شخص سے ملاقات
ہوئی،مولانا نے اس سے پوچھا کہ سناؤ گزر بسر کیسے ہوتی ہے تو اس نے جواب
دیا کہ مل جائے تو شکر کرتے ہیں اور نہ ملے تو صبر کرتے ہیں۔اس پر مولانا
نے جواب دیا کہ یہ تو بغداد کے کتے بھی کرتے ہیں تم نے کون سا نیا کام کیا
ہے۔جس پر اس شخص نے پوچھا کہ اچھا مولانا صاحب آپ کیسے گزر بسر کرتے ہیں تو
مولانا روم ؑ نے جواب دیا کہ نہ ملے تو صبر کرتے ہیں اور مل جائے تو شکر
نہیں خیرات کرتے ہیں۔بس یہی ایمان اصل میں انسان کو دوسروں سے ممتاز کر کے
تقویٰ کے درجے پہ فائز فرما دیتا ہے۔ایسا ایمان اعمال اور رویوں میں مضمر
ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ باعمل صوفیا کرام جہاں بھی گئے اپنے اعمال اور رویوں
سے لوگوں کے دلوں پہ حکمرانی کی۔ویسے بھی افراد،خاندان،معاشرہ اور قوموں کی
تہذیب وتمدن اور ثقافت ان کے رویوں میں ہی پوشیدہ ہوتی ہے۔جیسے بزرگ کہتے
ہیں کہ دیگ کا اندازہ لگانے کے لئے اس میں سے ایک چاول چکھنے سے ہی اندازہ
ہوجاتا ہے۔اسی طرح کسی قوم کے رویوں کا اندازہ بھی کسی ایک شخص کے رہن
سہن،طور اطوار اور طرزِ حیات سے ہو جاتا ہے۔یہ لوگوں کے رویے ہی ہوتے ہیں
جو بتا دیتے ہیں کہ من حیث القوم مثبت یا منفی رویوں کی متحمل ہے۔انسی سے
پوری قوم کے رویوں کا اندازہ لگا لیا جاتا ہے۔
اسلام دین فطرت اس لئے ہے کہ اس مذہب نے لوگوں کے رویوں کو فطرت کے عین
مطابق بنا دیا ہے۔آقا ﷺ کی بعثت،اعلان نبوت اور مدینہ ہجرت ایک اعلان اور
سفر ہی نہیں تھا بلکہ اپنے اعمال سے لوگوں کے رویوں میں ایسی تبدیلی پیدا
فرمائی کہ یثرب بھی مدینہ کہلایا جانے لگا۔یہ آپ ﷺ کی شخصیت کا فیضان ہی
تھا کہ معرکہ بدر میں 313 نے ایک ہزار پر فتح حاصل کی،احد کی جنگ میں
منافقین کی اصلیت ظاہر فرما کر اسلام کو آنے والے مسائل سے محفوظ فرما
دیا،خندق میں حضرت عبداﷲ کی ایک بکری اور چند صاع کی دعوت پر ایک ہزار
اصحاب کو طعام سے سیر شکم کیا۔تاریخ اسلام کے اوراق کو آپ ﷺ کے ایسے معجزات
سے ناز ہوگا۔یہ سب صرف اور صرف آقا ﷺ کے قول وفعل میں تواز کی بنا پر تھا
جس کی دور حاضر میں شدت سے کمی محسوس کی جا رہی ہے۔آپ ﷺ کو تو عرب کا کوئی
بچہ بھی اگر یہ کہہ کر چلا جاتا کہ حضور میں تھوڑی دیر بعد آتا ہوں تو آپ ﷺ
اس وقت تک وہیں کھڑے ہو کر انتظار فرماتے جب تک کہ وہ بچہ واپس لوٹ نہ
آتا۔یہ ہے وہ اعلی کردار جو آج عنقا دکھائی دیتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم
نے آج اسلام،اسلامی تشخص ،قول وفعل میں تفاوت کو اپنی زندگیوں میں ایسے
شامل کر لیا ہے کہ ہماری قوم کی اخلاقی اقدار کا معیار ہی تبدیل ہو کر رہ
گیا ہے۔یعنی ہم اسلامی اوتار والے حاجی صاحب کی چکنی چوپڑی باتوں پر اس لئے
یقین کر لیتے ہیں کہ حاجی ہے اوپر سے نورانی چہرہ ہے تو جھوٹ کیسے بول سکتا
ہے۔حالانکہ قیمتوں میں گرانی،ملاوٹ ملی اشیا اور درشت لہجہ اسی حاجی صاحب
کے ہاں ہی ملے گا۔ایسے ماڈلز نے سادہ لوح انسانوں کو بے وقوف بنا رکھا ہے
یقین نہ آئے تو ایک عام دوکاندار اور حاجی صاحب کے سٹور سے ایک پاؤ مرچ لے
کر دیکھ لیں ۔دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔بلکہ حاجی دودھ
فروش سے دودھ ہی خرید فرما لیں آپ کو دودھ میں پانی مقدار کا اندازہ ہو
جائے گا۔مجھے یاد ہے ایف اے کے بعد میرے ایک دوست نے ایک پنسار کی دوکان پہ
ملازمت کر لی کہ چلووقت بھی پاس ہو جائے گا اور مجھے کچھ رقم بھی مل جایا
کرے گی۔اس نے مجھے ایک دن بتایا کہ آج عرق گلاب میں چوہا مرا پایا تو حاجی
صاحب نے اسے اپنے ہاتھوں سے نکال باہر پھینکا یہ کہتے ہوئے کہ ایک چوہے کے
لئے ہم اتنا عرق گلاب تو ضائع نہیں کر سکتے۔
یقین کے لئے ایک اور مثال پیش کئے دیتا ہوں تاکہ آپ کو پتہ چل جائے کہ عملا
اصلا اور بناوٹ میں کیا فرق ہوتا ہے۔آپ اپنے کسی ایسے پڑوسی جو کہ
حاجی،پابند صوم وصلوۃ ہو اس سے اور سادہ لوح پڑوسی سے کسی روز ایک پلیٹ
چاول یا دہی کی ایک کٹوری مانگ کے دیکھ لیجئے گا رویوں کے فرق سے ہی پتہ چل
جائے گا کہ عین اسلام کون ہے اور بناوٹ کون اختیار کئے ہوئے ہے۔کیونکہ
ہلاکت ایسے لوگوں کی ہے جو عام استعمال کی اشیا نہیں دیتے ہیں۔میری طرح آپ
کو بھی کبھی نہ کبھی زندگی میں ضرور تجربہ ہوا ہوگا کہ کسی مسجد میں نماز
سے فارغ ہو کر جب آپ باہر نکلتے ہیں تو کچھ خواتین اپنے کمسن بچوں کے ساتھ
مانگتے دکھائی دیتی ہیں۔باقاعدہ نمازی انہیں اس طرح سرزنش کرتے ہیں جیسے کہ
انہوں نے کوئی گناہ کبیرہ کر دیا ہو ،محض یہ بتانے اور دکھانے کے لئے کہ ہم
نماز پڑھ کر پتہ نہیں کون سا احسان اپنے اﷲ پر کر آئے ہیں۔حالانکہ حضرت علی
ؓ کا قول ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی شخص گھوڑے پر بیٹھ کر آئے اور آپ سے دست
سوال دراز کرے تو اسے بھی ضرور دیں اگر ایسا نہیں کر سکتے تو اسے ڈانٹنے کی
بجائے اسے کہئے کہ اﷲ معاف فرمائے۔مگر ہمارا تو حال یہ ہے کہ
دستِ دولتِ آفریں سے مزد یوں ملتی رہی
جیسے اہل ثروت دیتے ہیں غریبوں کو زکات
اسلام کہتا ہے کہ صدقہ و خیرات ایسے دو کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر
نہ ہو،مگر ہم ایسے دیتے ہیں کہ پورے شہر کو خبر ہو۔زکوۃ ایسے دیتے ہیں جیسے
ان پہ احسان کر رہے ہوں۔حالانکہ اسلام تو کہتا ہے کہ اگر کوئی تمہاری خیرات
قبول کر لیتا ہے تو تمہیں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔پیاس کا اندازہ بروز
قیامت اس وقت ہو جائے گا یہ لوگ عطش عطش پکار رہے ہوں گے مگر ہمارے ہاں تو
کسی ہسپتال میں اس وقت تک پانی کا ڈسپنسر نصب نہیں کیا جاتا جب تک کہ اس کے
ماتھے پہ لکھا نہ ہو کہ عطیہ فلاں بن فلاں برائے فلاں ہسپتال۔جبکہ بغیر غرض
کے کتے کو پانی پلانے والے کو اﷲ اپنی قدرتِ کاملہ سے ولی اﷲ بنا دیتے
ہیں۔کیونکہ اﷲ کے ہاں ظاہری شباہت نہیں بلکہ خلوص، اعمال اور تقویٰ کی
اہمیت ہے۔اسلام کہتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے ہم دو لاکھ کا جانور اﷲ کے
راستے میں سنت ابراہیم ؑ کو پورا کر دیتے ہیں لیکن چند سو روپوں سے گھر کے
باہر پھینکی ہوئی آلائشیں اٹھوا کر حضور ﷺ کے فرمان کی بجا آوری میں سستی
کر جاتے ہیں۔ہم اپنے گھر کا کچرا دوسروں کے دروازے کے باہر اس لئے پھینک
آتے ہیں کہ وہ مجھے پسند نہیں جبکہ اسلام تو کہتا ہے کہ رشتہ داروں کے بعد
پڑوسیوں کے سب سے زیادہ حقوق ہیں۔ان سب کی وجوہات کیا ہیں؟اس کے حقائق
جاننے سب سے ضروری ہیں۔میری نظر میں ان سب کی بڑی وجہ ہے خلوص کی کمی۔ہم
میں بناوٹ اور دکھاوا زیادہ ہے عمل کم ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں نیک پاک
صاف کہیں مگر اندر سے صاف ہونا نہیں چاہتے کیونکہ لوگ مذہب کے لئے لڑتے
ہیں،تقاریر فرماتے ہیں،اس کی خاطر جان لینے دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں
لیکن مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کو تیار نہیں۔اﷲ ہمیں نیک دل سے اسلام کے
بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا سلیقہ و قرینہ عطا فرمائے۔آمین
|