پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پرتین بڑی
جنگیں لڑی جا چکی ہیں 1947 میں ریاستوں کے الحاق کے بارے میں بنایا گیا
فارمولا جموں وکشمیراور چند دیگر ریاستوں پر لاگو نہ ہوسکنے کا سب سے بڑا
سبب انگریز اور ہندوں رہنماؤں کی مکاریاں تھیں وائسرائے ہندوستان لارڈ
ماؤنٹ بیٹن ،نہرو اور مہاراجہ کشمیرکے گٹھ جوڑ نے جو غیر منصفانہ فیصلہ کیا
اِس کا خمیازہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان گزشتہ تہترسال سے بھْگت رہے ہیں
مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر جبر ظلم وزیادتیوں کا لا متناہی سلسلہ آج تک
جاری و ساری ہے تقسیم ہند کے وقت یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مسلم آبادی والے
علاقے پاکستان اور ہندو آبادی والے اکثریتی علاقے بھارت میں شامل کیے جائیں
گے اور ریاستیں دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت سے الحاق کے فیصلہ میں آزاد
ہونگی لیکن وائسرائے جو کہ برطانوی حکومت کا نمائندہ اور ہندوں کے لیے نرم
گوشہ رکھتا تھا اس نے جموں وکشمیر کے مہاراجہ اور نہرو کے ساتھ ساز باز ہو
کر جموں و کشمیر بھارت کی جھولی میں ڈال دیا جبکہ حقیقت میں وہاں مسلمانوں
کی اکثریتی آبادی تھی اس بنیادپر کشمیر کی وادی کاپاکستان کے ساتھ الحاق
ہونا چاہیے تھا لیکن غیر منصفانہ فیصلہ نے کشمیری مسلمانوں کے لیے آزادی کی
تحریک شروع کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہ چھوڑا کشمیریوں کے ساتھ مظالم کی
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے 16 مارچ 1846 کو معاہدہ امرتسر ہوا
گلاب سنگھ نے انگریز سے 75 لاکھ میں جموں و کشمیر اور ہزارہ ،گلگت بلتستان،
کارگل اور لداخ کے علاقوں پر قبضہ جمایا مہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں پر ظلم
و ستم کی انتہا کردی 1846 کے بعد ڈوگرہ حکمرانوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے
مسلمان بالکل بے بس ہو چکے تھے کشمیر کی وادی پر گلاب سنگھ 1846 تا1857
،رنبیر سنگھ 1857تا 1885 ،پرتاب سنگھ 1885تا1925 ،ہری سنگھ 1925تا1949تک
حکمران رہے تقسیم ہند کے وقت ڈوگرہ حکمرانوں کی خواہش تھی کہ ریاست کو
بھارت کا حصہ بنایا جائے یا اس کی خود مختار حیثیت کو بحال رکھا جائے جبکہ
وہاں کے مسلمانوں کا مطالبہ ریاست کو پاکستان کا حصہ بنانا تھا آخر کار
ڈوگرہ کے تاخیری حربے کامیاب رہے 26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ کشمیر نے
بھارتی فوج کو مدد کے لیے پکارااور بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست بھی دے
دی بھارت پہلے سے ہی کشمیر پر قبضہ کے لیے موقع کی تلاش میں تھا 27 اکتوبر
1947 کو بھارتی فوج کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی، سری نگر پر
بھارتی قبضہ ہوگیا جبکہ آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم ہوگئی یکم نومبر
1947 کو گلگت میں ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے اسلامی جمہوریہ
گلگت کی بنیاد رکھی گئی جبکہ بلتستان اور وادی گریز(تراگبل، قمری، کلشئی،
منی مرگ) اور دیگر علاقوں میں 1948 تک جنگ ہوتی رہی 16 نومبر 1947 کو
پاکستان نے اس پر کنٹرول حاصل کیا ،بھارت کی ہٹ دھرمی ہے کہ وہ 1947سے
مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت دینے سے انکاری ہے آج تک ایک لاکھ
سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے بھارتی درندوں نے بیس ہزار سے زائد
مسلمان خواتین کی عصمت دری کی ہزاروں نوجوانوں کو آزادی کی تحریک میں
شمولیت کی بنا پر شہید اور جسمانی طور پر مفلوج کر دیا سینکڑوں بچے حسرت
ویاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں،قارئین کرام ! کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے
گزشتہ تہتر سال سے کوششیں جاری ہیں جنوبی ایشیاء کے دو اہم پڑوسی ممالک
پاکستان اور بھارت ہیں بھارت کو سمجھ جانا چاہیے کہ پاکستان ایک مسلمہ
حقیقت ہے اور دونوں ملکوں کی عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے مسئلہ کشمیر کا
فوری حل وقت کی ضرورت ہے پاکستان پہلا اسلامی ایٹمی طاقت رکھنے والا دنیا
کا ملک ہے جسکا دفاع ناقابل تسخیر ہے پاکستانی فوج نے 22 اکتوبر 1947 تا1
جنوری 1949 اور1965اور کارگل کے محاذ پر دشمن کو ناک چنے چبوا دیے تھے اب
بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج مقبوضہ وادی میں نہتے مسلمانوں کے ساتھ برسر
پیکار ہے مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کا واحد حل وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کو
حق خود ارادیت دینا ہے وادی کشمیر کے مسلمان پاکستان سے والہانہ محبت اور
الحاق چاہتے ہیں جس کا مظاہرہ پوری دنیادیکھتی اور جانتی ہے انشااﷲ اب وہ
دن دور نہیں جب ہزاروں کشمیری مسلمانوں کا خون رنگ لا ئے گا اورمقبوضہ
کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت میں حائل رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی اس کے لیے
باون مسلمان ممالک کو متفقہ لائحہ عمل بنا کر اقوام متحدہ اور سپر طاقتوں
کے سامنے ڈٹ جانا ہو گا تاکہ مقبوضہ کشمیر سمیت کسی بھی جگہ پر مسلمانوں کے
ساتھ ناروا سلوک نہ ہو اور زبردستی مسلمانوں کومحکوم نہ رکھا جا سکے
72 سال پہلے 27 اکتوبر 1947کو بھارت نے ریاست جموں و کشمیر میں اپنی فوج کے
زریعے قبضہ کیا ،سات دہائیوں سے پاک بھارت تعلقات کشیدہ چلے آرہے ہیں جسکی
سب سے بڑ ی وجہ کشمیریوں کے ساتھ بھارت کا ناروا سلوک اور وادی پر زبردستی
قبضہ جمائے رکھنا ہے ،بھارت کا کشمیری خاص طور پر کشمیری مسلمانوں سے روا
رکھے جانے والا سلوک ناقابل برداشت ہے ، آج بھی بھارت اور پاکستان کے
تعلقات میں جو تلخی اور تناؤ موجود ہے اسکی سب سے بڑی وجہ یقینا مسئلہ
کشمیر ہے ، پاکستان اور دنیا بھر کے کشمیری 27 اکتوبر کو بھارتی قبضے کے
خلاف یوم سیاہ مناتے ہیں لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کشمیری بھارت کے
ظلم وستم کے خلاف احتجاجی ریلیاں اور تقریبات منعقد کر کے عالمی دنیا کو یہ
پیغام دیتے ہیں کہ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک بھارت کو اقوام متحدہ کی
قرار دادوں کے مطابق حق خود ارادیت کے لئے دباؤ ڈالیں ، مسئلہ کشمیر پر
موجودہ تلخی کی ایک بڑی وجہ بھارتی حکومت کا شدت پسند وں کے ہاتھ میں آنا
ہے ، بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کا سیاسی پس منظر اس بات کی گواہی دیتا
ہے کہ مودی نے ہمیشہ اقتدار مسلمانوں کے خلاف اقدامات کر کے حاصل کیا، اگر
تاریخ کو دیکھا جائے تو 1965کی جنگ نے پاک بھارت تعلقات میں عوامی سطح پر
نفرت اور دشمنی کو گہرا کیا 1971 کی جنگ کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان کی
علیحدگی اور بنگلہ دیش کا قیام عظیم سانحہ ہے ، محدود پیمانے پر جھڑپیں
سیاچین کے مسئلہ اورکارگل کے محاذ پر ہوئیں بعد ازاں ممبئی حملہ اور دیگر
واقعات کی وجہ سے پاک بھارت کشیدگی میں کمی واقع نہ ہوسکی ، قائد اعظم محمد
علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا لیکن بھارت کے غاصبانہ
قبضے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر سات سے زائددہائیوں سے دونوں ممالک میں کشیدگی
کا سبب بنا ہوا ہے آزادکشمیر کے رہنے والے اور پاکستان کی عوام مقبوضہ وادی
کے نہتے شہریوں کی اخلاقی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں ،کشمیری نوجوان برہان
وانی کی شہادت کے نتیجے میں کشمیر میں شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک کو
کچلنے کیلئے بھارتی فوج کی جانب سے ظلم و ستم اور بربریت نے مقبوضہ وادی کے
رہنے والوں میں جذبہ آزادی کو مزید تقویت فراہم کر رکھی ہے ، اگر بھارت
مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے میں
سنجیدہ ہو جائے تو دونوں ممالک کے ڈیڑھ ارب سے زائد افراد کوایٹمی جنگ کے
منڈلاتے سائے سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے ،بھارتی حکومت کشمیریوں پر ظلم
بربریت کا جو پہاڑ 5اگست 2019 کو آئین میں تبدیلی اور کرفیو کے نفاذ کے بعد
توڑ رہی ہے وہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے لئے ایک
چیلنج کی حثیت رکھتا ہے ،یاد رہے کہ انڈیا نے پانچ اگست کو کشمیر کو خصوصی
حیثیت دینے والی آئینی شق 370 کوختم کردیا تھا،جس کے بعد سے پوری وادی میں
حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں بھارتی فوج کشمیریوں پر ظلم وستم کی تمام
حدیں عبور کر چکی ہے کشمیر کا دنیا بھر سے مواصلاتی رابطہ منقطع کر دیا
گیاوادی میں نظامِ زندگی معطل ہو چکی ہے کہا جاتا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے
ہزاروں سے کشمیریوں کو حراست میں لے رکھا ہے ،لاکھوں کشمیریوں کی زندگیاں
خطرے میں ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ کشمیر میں نسل کشی کی جارہی ہے تو بے جا
نہ ہوگا ،انسانوں سے انسانیت سوز سلوک پر عالمی میڈیا پر بھی آواز بلند
ہوئی ہے ، کشمیریوں کو بنیادی حقوق اور آزادی سے محروم رکھنے کے لئے بھارتی
حکومت آئے روز نئے نئے اقدامات کر رہی ہے جس سے کشمیریوں میں بھارت کے خلاف
زبردست غم وغصہ پایا جاتا ہے ،خاص طور پر نوجوانوں اور خواتین کے ساتھ
بھارتی فوجیوں کا ناروا سلوک انسانی حقوق کے علمبرداروں اور عالمی برادری
کے لئے لمحہ ہونا چاہیے ،مذہبی بنیادوں پر تشدد کے واقعات کے خلاف عالمی دن
منانے والوں کو کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وتشد د کے خلاف بھی
بھارت کو واضح طور پر پیغام دینا چاہیے ،سانچ کے قارئین کرام !کشمیر کے
مسئلہ پر پاکستانی قوم اور میڈیا عالمی سطح پر اس کو اُجاگر کر تے ہوئے
کشمیریوں کی حق خودارادیت کی حمایت کررہے ہیں سوشل میڈیا پربھی کشمیریوں کے
حق کے لئے آواز بلند کی جارہی ہے،سانچ کے قارئین کرام !5اگست2020 کویوم
استحصال پاکستان سمیت دنیا بھر میں رہنے والے کشمیری منا رہے ہیں ،
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کشمیر پر بھارتی قبضے اور کشمیریوں کو حق
خودارادیت کے حوالہ سے واضح طورپر موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر
کرہ ارض کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے، ہزاروں نوجوانوں کو اغواء
کرکے نامعلوم مقام پر قید کردیا گیا ہے، بھارتی ریاستی دہشت گردی آج پہلے
سے کہیں زیادہ سفاکانہ رخ اختیار کر گئی ہے، عالمی برادری اور انسانی حقوق
کی تنظیموں سے بھارت کے اس جبر کو ختم کرنے کا بھر پور مطالبہ کرتے ہیں نام
نہاد "بڑی جمہوریت "ہونے کے دعویدار بھارت کا اصل چہرہ مکمل طورپر بے نقاب
ہوچکا ہے، پاکستان مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور ذرائع ابلاغ کے بلیک آؤٹ کے
خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے، پاکستان بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات
کی منسوخی کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔وزیراعظم نے عالمی برادری پر زور دیتے
ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقو ق کے احترام و آزادی کو
یقینی بنانے، عالمی برادری بھارت کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات سے امن و
سلامتی کو لاحق خطرات کو روکنے میں کردار ادا کرے، کشمیریوں سے غیر متزلزل
یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ کشمیری بھائیوں و بہنوں
کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان ہمیشہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا، پاکستان
کشمیریوں کی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حق خود ارایت کے حصول تک
انکی ہر سطح پر حمایت جاری رکھے گا٭
|