ابن صفی اردو ادب کے نامور ناول نگار ، شاعر اور
جاسوسی دنیا کے عظیم مصنف تھے۔ آپ کے تحریراتی کاموں میں، عمران سیریز سب
سے نمایاں ہیں۔جو آپ کے بہترین تعارف کا حوالہ بنی ۔ اس کے علاوہ آپ نے بے
شمار افسانے بھی لکھے اور طنز و مزاح کے میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے
گاڑ دیئے۔
ابن صفی 26 جولائی 1928ء کو الہ آباد، اتر پردیش کے ایک گاؤں "نارا" میں
صفی اﷲ اور نذیرا (نضیراء ) بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔ اردو زبان کے شاعر نوح
ناروی رشتے میں ابن صفی کے ماموں لگتے تھے۔ ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد
تھا لیکن انہوں نے اپنے قلمی نام سے شہرت پائی۔ اگست 1952ء میں ابن صفی
اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ پاکستان آ گئے جہاں انہوں نے کراچی کے علاقے
لالو کھیت میں 1953ء سے 1958ء تک رہائش اختیار کی۔ ان کے والد 1947ء میں ہی
کراچی آچکے تھے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم نارا کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔
میٹرک الہ آباد کے سکول سے کیا جبکہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم الہ آباد کے ایونگ
کرسچن کالج سے مکمل کی۔ 1947ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ
لیا۔ اسی اثنا میں برصغیر میں تقسیم کے ہنگامے شروع ہو گئے۔ ہنگامے فرو
ہوئے تو تعلیم کا ایک سال ضائع ہوچکا تھا ۔ لہذا بی اے کی ڈگری جامعہ آگرہ
سے یہ شرط پوری کرنے پر ملی کہ امیدوار کا عرصہ دو برس کا تدریسی تجربہ
ہو۔چنانچہ1949ء سے 1952ء کے عرصے میں ابن صفی پہلے اسلامیہ اسکول اور بعد
میں یادگار حسینی اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں۔ اگست
1955ء میں ابن صفی نے خوفناک عمارت کے عنوان سے عمران سیریز کا پہلا ناول
لکھا اور علی عمران کے کردار کو راتوں رات مقبولیت حاصل ہوئی۔سن 1948ء میں
عباس حسینی نے ماہنامہ" نکہت "کا آغاز کیا۔ ابن صفی شعبہ شاعری کے نگران
مقرر ہوئے۔ رفتہ رفتہ وہ مختلف قلمی ناموں سے طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں
لکھنے لگے۔ ان قلمی ناموں میں طغرل فرغان اور سنکی سولجر جیسے اچھوتے نام
شامل ہیں۔ سن 1948ء میں ماہنامہ" نکہت "میں ان کی پہلی کہانی فرار شائع
ہوئی۔1951ء کے اواخر میں بے تکلف دوستوں کی محفل میں کسی نے کہا تھا کہ
اردو میں صرف فحش نگاری ہی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے۔ ابن صفی نے اس بات سے
اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی لکھنے والے نے فحش نگاری کے اس سیلاب کو
اپنی تحریر کے ذریعے روکنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ اس پر دوستوں کا موقف تھا
کہ جب تک بازار میں اس کا متبادل دستیاب نہیں ہوگا، لوگ یہی کچھ پڑھتے رہیں
گے۔ یہی وہ تاریخ ساز لمحہ تھا جب ابن صفی نے ایسا ادب تخلیق کرنے کی ذمہ
داری اپنے کندھوں پر اٹھائی۔ جو بہت جلد لاکھوں پڑھنے والوں کی توجہ کا
مرکز بن گئے۔ عباس حسینی کے مشورے سے اس کا نام جاسوس دنا قرار پایا اور
ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل
سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول دلیر مجرم مارچ 1952ء میں شائع ہوا۔
ناول" بھیانک آدمی" کو ماہانہ جاسوسی دنیا نے نومبر 1955ء میں کراچی کے
ساتھ ساتھ "الہ آباد" سے بیک وقت شائع کیا ۔ اکتوبر 1957ء میں ابن صفی نے
اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی
دنیا کا پہلا ناول" ٹھنڈی آگ" شائع ہوا۔ 1958ء میں ابن صفی، لالو کھیت سے
کراچی کے علاقے ناظم آباد منتقل ہو گئے۔ جنوری 1959ء میں ابن صفی اسرار
پبلیکیشنز کو فردوس کالونی منتقل کرچکے تھے اور یوں انہیں اپنی تخلیقات کو
پروان چڑھانے کے لیے ایک آرام دہ ماحول میسر آ گیا۔ ناظم آباد کی رہائش گاہ
میں وہ 1980ء میں اپنے انتقال تک مقیم رہے۔ابن صفی کے بقول، ان کے صرف آٹھ
ناولوں کے مرکزی خیال کسی اور سے مستعار لیے ، باقی کے 245 ناول مکمل طور
پر ان کے اپنے ہیں۔عباس حسینی کی ملکیت میں الہ آباد کے نکہت پبلیکیشنز کے
تحت بھارت میں ابن صفی کے ناولوں کی اشاعت عمل میں آتی رہی۔ ابن صفی اپنے
ایک انٹرویو میں لکھتے ہیں کہ میرے اور عباس حسینی کے تعلقات خراب ہوگئے
ہیں ۔اب بھارت میں ابن صفی کی کتابیں ان کے ادارے سے شائع نہیں ہوں گی۔ ان
بے چاروں کو یہ نہیں معلوم کہ ایک درجن کتابیں تو میں عباس حسینی کی
مسکراہٹ پر قربان کر سکتا ہوں (بشرطیکہ کسی بات پر جھینپ کر مسکرائے ہوں)۔
ابن صفی بلاشبہ انیسویں صدی میں اردو کے سب سے بڑے جاسوسی ناول نگار کے طور
پر ابھر کے سامنے آئے۔ ان کی تحریروں میں ایسا جادو تھا کہ 50 سال قبل لکھے
گئے ناول جب آج کے دور کا انسان بھی پڑھتا ہے تو وہ سب بھول جاتا ہے کہ وہ
انیسویں صدی میں بیٹھا ہے یا بیسویں صدی میں۔ ابن صفی کا لگایا ہوا پودا
عمران سیریز اس قدر تناور ہوا کہ آج تک یہ ثمر بار ہے اور کئی ایک مصنفین
اس سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔اردو میں آزادی کے بعد لکھے جانے والے ناولوں
کے دور پر بہت کم لکھا گیا ہے پھر بھی ڈاکٹر اعجاز حسین نے ’’اردو ادب
آزادی کے بعد‘‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ’’اردو ناول سمت و رفتار‘‘ میں ان کا
ذکر کیا ہے۔ پاکستان میں ڈاکٹر سلیم احمد نے اپنی کتاب"اردو ادب کی مختصر
ترین تاریخ" میں " ابن صفی کا "مختصر ترین ذکر کیا ہے۔ ابن صفی کے فن کو
سراہنے والی ادبی شخصیات میں بابائے اردو مولوی عبدالحق، پروفیسر مجنوں
گورگھپوری، محمد حسن عسکری، کالم نگار حسن نثار، شاعر امجد اسلام امجد،
صحافی و ادیب قاضی اختر جوناگڑھی۔ جبکہ سیاسی شخصیات میں فیلڈ مارشل ایوب
خان اور محسن پاکستان اور ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے نام
شامل ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر خان نے ابن صفی کے حوالے سے محقق و ادیب راشد
اشرف کے نام 2009ء میں اپنے ایک پیغام میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ جن
دنوں وہ (ڈاکٹر خان) بڑا میدان، ناظم آباد، کراچی کے قریب رہا کرتے تھے،
ابن صفی کے ناولز ان کے زیر مطالعہ رہتے تھے۔ ابن صفی کے فن کا اعتراف کرنے
والی مغربی شخصیات میں خاتون ناول نگار اگاتھا کرسٹی، اردو زبان کی جرمن
اسکالر خاتون کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ اور نارویجیئن پروفیسر فن تھیسن شامل ہیں۔
کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے ابن صفی کے فن کے بارے میں کہا تھا:ابن صفی کی جس
بات سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کے جاسوسی دنیا کے کردار
فریدی اور عمران کبھی کسی عورت کی جانب نگاہ بد پھیرتے ہوئے دکھائی نہیں
دیتے۔ ابن صفی کے جاسوسی ناول کی جاسوسی ادب میں اس لحاظ سے انوکھی حیثیت
ہے کہ اس میں ایک مشن یا مقصد موجود ہے۔ اس لیے اسے محض تفریحی ادب نہیں
کہا جاسکتا۔ ان کے جاسوسی ناولوں میں فکری و ذہنی تربیت بھی پوری طرح موجود
ہے۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی نے ابن صفی کو یوں خراج تحسین پیش کی
"میں نے کبھی ابن صفی کے ناولوں کو کتابوں کے درمیان چھپا کر نہیں رکھا۔
کوئی ابن صفی کے تخلیقی ذہن کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کوئی مجھ سے پوچھتا ہے
کہ آپ ابن صفی کے ناول کیوں پڑھتے ہیں تو میں جواب دیتا ہوں، کیونکہ ابن
صفی ہمارے کئی ناول نگاروں سے بہتر زبان لکھتے ہیں۔ " جب محمد حسن عسکری نے
یہ شکایت کی کہ اردو نثر کا فن زوال پذیر ہے اور کوئی اچھی زبان نہیں لکھ
رہا ہے تو میں نے انہیں اب صفی کی جاسوسی دنیا کا ایک ناول پڑھنے کو دیا۔
اس کے بعد وہ ہر ماہ پوچھتے تھے "کشفی صاحب، ابن صفی کا نیا ناول آ گیا؟"
1977ء کے عام انتخابات کے دوران ان کے ایک ناول "ڈاکٹر دعاگو "کو پاکستان
ٹیلی ویژن نے ٹیلی فلم کی حیثیت سے پکچرائز کیا تھا۔ مشہور اداکار قوی خان
نے اس میں عمران کا کردار ادا کیا تھا۔ لیکن کچھ سیاسی الجھنوں کی وجہ سے
ناظرین یہ ٹیلی فلم دیکھنے سے محروم رہے۔ روزنامہ جنگ نے اپنی 18، اکتوبر
1979ء کی اشاعت میں یہ خبر شائع کی۔ "یہ جملہ بار بار سننے میں آتا ہے کہ
فلاں فلاں مصنف کو ٹیلی ویژن نے بلیک لسٹ کر دیا، لیکن کسی مصنف نے ٹیلی
ویژن کو بلیک لسٹ کر دیا ہو، یہ عجیب بات ہے۔ ابن صفی کا کہنا ہے کہ وہ اس
وقت تک ٹیلی ویژن کے کسی پروگرام میں حصہ نہیں لیں گے جب تک یہ نہ بتایا
جائے کہ ان کے ناول "ڈاکٹر دعاگو "کو ٹیلی کاسٹ کیوں نہیں کیا گیا۔؟"
1960ء سے 1963ء تک اب صفی انفصام کے مریض رہے لیکن 1963ء میں وہ نہ صرف اس
مرض سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوگئے بلکہ عمران سیریز کے بہترین ناول
"ڈیڑھ متوالے "کے ہمراہ جاسوسی ادب کے میدان میں پوری توانائی کے ساتھ
دوبارہ قدم رکھتے ہوئے اپنے بدخواہوں کو کچھ یوں للکارا: "
17 ستمبر، 1979ء کی رات کو آپ پر درد کا پہلا اور شدید حملہ ہوا اور اس کے
بعد صحت مسلسل خراب رہی۔ نومبر 1979ء میں بیماری شدت اختیار کرگئی۔ ڈاکٹروں
نے طویل معائنوں اور تکلیف دہ ٹیسٹوں کے بعد ایک خطرناک بیماری، سرطان، کا
اندیشہ ظاہر کر دیا۔ دسمبر، 1979ء میں آپ کو کراچی کے جناح اسپتال میں داخل
کر دیا گیا۔ مزید معائنوں اور ٹیسٹوں نے لبلبہ میں کینسر کی تصدیق کردی۔ اس
بات کو ابن صفی سمیت تمام لوگوں سے پوشیدہ رکھا گیا۔ صرف ابن صفی کے فرزند،
احمد صفی کو اس بات کا علم تھا۔ 24 جولائی 1980ء کو آپ کی طبیعت معمول سے
زیادہ خراب ہو گئی۔ اس بیماری کو تقریباً دس ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا
تھا۔ دو دن بعد، 26 جولائی، 1980ء کو (یعنی اپنی سالگرہ کے ہی دن) ابن صفی
اس جہان فانی سے رخصت ہوئے۔ تدفین قبرستان پاپوش نگر میں ہوئی۔ بقول شاعر
"اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے۔ "
یوں توابن صفی خود بتا چکے ہیں کہ انہوں 249ناول تخلیق کیے ۔بہرکیف ان میں
سب سے مقبول سیریز تو عمرا ن سیریز ہی تھی اس کے علاوہ ان کے شائع ہونے
والے ناولوں میں دلیر مجرم، خوفناک جنگل، تجوری کا راز ، فریدی اور
لیونارڈ، پراسرار کنواں،خطرناک بوڑھا، مصنوعی ناک ، پراسرار اجنبی، احمقوں
کا چکر ، پہاڑوں کی ملکہ ، موت کی آندھی ،ہیرے کی کان ، آتشی پرندہ ،خونی
پتھر،بھیانک جزیرہ ، عجیب آوازیں ،نیلی روشنی ،خون کا دریا ، قاتل سنگریزے
، پتھر کی چیخ، خوفناک ہنگامہ ،دوہرا قتل ،چار شکاری ، بے گناہ مجرم ،
لاشوں کا آبشار، مونچھ مونڈنے والی ،برف کے بھوت ، پرہول ، چیختے دریچے ،
جنگل کی آگ ،کچلی ہوئی لاش ، اندھیرے کا شہنشاہ ، پراسرار وصیت،موت کی چٹان
،نیلی لکیر؟تاریک سائے ،خونی بگولے ، لاشوں کا سوداگر، ہولناک
ویرانا،بھیانک آدمی ، پاگل خانے کا آدمی ، شعلوں کا ناچ، گیارہواں زینہ ،
سرخ دائرہ ، خونخوار لڑکیاں ،سائے کی لاش،جہنم کا شعلہ ، زہریلے تیر،پانی
کا دھواں ،لاش کا قہقہ،پراسرار موجد، طوفان کا اغوا،رائفل کا نغمہ،ٹھنڈی
آگ،دشمنوں کا شہر،لاش کا بلاوا،گارڈ کا اغوا،زمین کے بادل ،آوارہ شہزادہ
،سینکڑوں ہم شکل ، لڑاکوں کی بستی ، الٹی تصویر،چمکیلا غبار، دھواں اٹھ
رہاتھا،زہریلا آدمی ،ستاروں کی موت، ستاروں کی چیخیں ، ساتواں جزیرہ ،
شیطانی جھیل ۔وغیرہ شامل ہیں ۔
ابن صفی کو دنیا سے رخصت ہوئے چالیس سال ہو چکے ہیں لیکن وہ اپنی کہانیوں
میں آج بھی پہلے کی طرح زندہ ہیں؟کم گو اور زیادہ منظر عام پر نہ آنیوالوں
کے بارے میں تحقیق کرنے والے ہمارے دوست جناب راشد اشرف یقینا مبارک باد کے
مستحق ہیں۔جو پیشہ کے اعتبار سے تو انجینئر ہیں لیکن ادبی شخصیت کے بارے
میں مواد اکٹھا کرنا ان کو اولین شوق ہے ۔ان کے اس شوق کی بدولت ہم ابن صفی
کی زندگی کے اہم واقعات اور تحریراتی کاموں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے
۔ابن صفی کے249 شہرہ آدفاق نازل آج بھی جاسوسی دنیا پر راج کررہے ہیں
؟کہاتو یہ جاتا ہے کہ جس نے لاہور نے نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ میں
اس میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ جس نے ابن صفی کے ناول اور عمران سیریز
کی سلسلہ وار کہانیاں نہیں پڑھیں اس کی شخصیت بھی ابھی تک نامکمل ہے۔دعا ہے
کہ اﷲ ابن صفی کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔آمین
|