پروفیسر عنایت علی خان: کیسے کیسے لوگ خاموشی سے اُٹھ کر چل دئیے

 ڈاکٹر غلام شبیر رانا
چھبیس جولائی 2020ء کو پروفیسر عنایت علی خان اِس دُھوپ بھری دنیاکو چھوڑ کر عازِ مِ اقلیم عدم ہو گئے ۔ وہ گردوں کی تکلیف میں مبتلا تھے اُنھیں اِسی سال جون میں ایک مقامی ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کرایا گیا جہاں اُن کی حالت مسلسل بہتر ہو رہی تھی لیکن اچانک دل کی تکلیف سے وہ چل بسے ۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اپنے عہد کے ممتاز مزاح نگار شاعر ہدایت علی خان نظیرؔ ٹونکی کے ذہین فرزند عنایت علی خان کو اب ماضی کاحصہ بنا دیاہے ۔پروفیسر عنایت علی خان کی والدہ بھی شاعرہ تھیں اور ٹونک کی خواتین ان کی ظریفانہ شاعری کی مدا ح تھیں۔ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں پنہاں کر کے سدا مسکرانے والا مزاح نگار ہماری بزمِ وفا سے اُٹھ گیا۔ اپنی گل افشانی ٔ گفتار سے محفل کو کشت زعفران میں بدل دینے والا یگانہ ٔ روزگارتخلیق کار دیکھتے ہی دیکھتے ہم سے رُوٹھ کر وہاں چلاگیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ فرط غم سے نڈھال اُن کے لاکھوں مداحوں کی آ نکھیں تقدیر کا یہ ستم دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں۔ اردو زبان میں حمد ،نعت ،ظریفانہ شاعری ،بچوں کے ادب ،مزاحیہ کالم نگاری اور تدریس ِ زبان و ادب کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔بھارتی ریاست راجستھان کے شہر ٹونک جو جے پور سے ساٹھ میل جنوب میں واقع ہے سے سال 1935 ء میں علم و ادب اور فنون لطیفہ کا جو آفتاب طلوع ہو اوہ کراچی میں غروب ہو گیا۔پروفیسر عنایت علی خان کی نماز جنازہ عائشہ مسجدماڈل کالونی ملیر میں ادا کی گئی ۔
نو آبادیاتی دور میں عہد غلامی کی بھیانک تاریک رات کے خاتمے کے بعد جب آزادی کی صبح ِ درخشاں طلوع ہوئی تو عنایت علی خان اپنے خاندان کے ساتھ سال 1948 ء میں ہجرت کر کے پاکستان پہنچے اور حیدر آباد میں قیام کیا۔انھوں نے پرائمری اور ثانوی سطح تک تعلیم حیدر آباد (سندھ) ہی سے مکمل کی ۔گورنمنٹ ہائی سکول حیدر آباد سے اُنھوں نے سال 1955ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔سٹی آرٹس کالج حیدر آباد سے بی۔اے کیا اور جامعہ سندھ سے سال 1959ء میں بی ۔ایڈکی ڈگری حاصل کی ۔ پاکستان ہجرت کے بعد انھوں نے کچھ عرصہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ میں کلرک کی حیثیت سے ملازمت کی ۔اس کے بعد وہ محکمہ جیل خانہ جات میں خدمات پر مامور رہے ۔ سال 1956ء میں اُن کا تقرر محکمہ تعلیم میں بہ حیثیت معلم ہو گیااور اُنھوں نے حیدر آباد کے ایک مدرسے میں تدریسی خدمات سے اس شعبے میں خدمات کا آغاز کیا۔سال 1962ء میں انھوں نے ایم ۔اے اُردو کے امتحان میں جامعہ سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ملکی سیاست ،معیشت ،حالات ِ حاضرہ اور معاشرتی حالات کے موضوع پر لکھی گئی پروفیسر عنایت علی خان کی تحریریں روزنامہ جسارت اور روزنامہ اُمت میں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں ۔ اپنے اہلِ خانہ سے وہ بہت محبت کرتے تھے ۔اُن کی ایک بہن او ر ایک بھائی جو ابنارمل تھا جب مفارقت دے گئے تو پورا گھر غرقابِ غم اور صدمے سے نڈھا ل تھا۔پروفیسر عنایت علی خان جب بھی اپنے ان عزیز رفتگاں کو یاد کرتے تو اُن کی آ نکھیں بھیگ بھیگ جاتیں ۔ اُنھوں نے اپنے اِن عزیزوں کو یاد رکھنے اور اپنے دِلِ حزیں کو اِن کے درد سے آباد رکھنے کے لیے نظمیں بھی لکھیں مگر یہ شاعری اَب دستیاب نہیں۔اُن کی زندگی کی بہت سی یادیں اورفریادیں ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہوچکی ہیں۔ علامہ اقبال کی طرحپروفیسر عنایت علی خان کو بھی اپنی والدہ سے بہت محبت تھی جب اُن کی والدہ کا انتقال ہوا تواُنھوں نے یہ شعرکہے :
تم جو مجھ کو تُو کہتی تھیں
اَب مُجھ کو تُو کون کہے گا
میرے سارے دُکھ اور صدمے
مجھ سے بڑھ کر کون سہے گا
اپنی قومی شناخت اورتشخص کے بارے میں وہ بہت واضح موقف رکھتے تھے۔مغرب کی کورانہ تقلید سے پروفیسر عنایت علی خان کو شدید نفرت تھی ۔ان کی تصانیف میں اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ بتایا گیاہے ۔ وہ ظریفانہ شاعری کو مشغلے کے بجائے اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے تھے۔ پروفیسر عنایت علی خان کے اسلوب پر سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی( 1846-1921) کے گہرے اثرات ہیں۔ہر عہد کی ظریفانہ شاعری میں پروفیسر عنایت علی خان کے اسلوب کے آ ثار ملیں گے۔پروفیسر عنایت علی خان نے اپنی درج ذیل تصانیف سے جو اُن کی بصیرت او ر ذہن و ذکاوت کی نشانیاں ہیں اُردو کی ظریفانہ شاعری کی ثروت میں اضافہ کیا۔
از راہِ عنایت(1989 ) ، عنایات( 1992) ، عنایتیں کیا کیا ) (1997،کچھ اور (2003 ) ، کلیات عنایت( 2003) ،نہایت ( انتخابِ کلام2005)
پروفیسر عنایت علی خان نے بچوں کے لیے چالیس کتب لکھیں ۔بچوں کے لیے انھوں نے جو نظمیں اور کہانیاں لکھیں وہ بچوں میں بہت مقبول ہوئیں۔ پروفیسر عنایت علی خان نے ’’ بول میری مچھلی ‘‘ کے عنوان سے بچوں کے لیے جو تخلیقات پیش کیں اُن سے مولانا اسماعیل میرٹھی (1844-1917)اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسم( 1899-1978) کی یاد تازہ ہوگئی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے بھی پروفیسر عنایت علی خان کا منتخب کلام شائع کیا ۔انھوں نے مختلف مدارج کے طلباکے لیے اِسلامیات، اُردو اور تاریخ کی کئی نصابی کتابیں بھی مرتب کیں۔
پس نو آبادیاتی دور میں نو آزاد ممالک کے باشندوں کوقلعۂ فراموشی میں محبوس کرنے کی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا۔چور محل میں پروان چڑھنے والے جہلا نے چور دروازے سے گُھس کر اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیا ۔ منزلوں پر اُن طالع آزما اور مہم جُو عناصر نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جو کسی مرحلے پر شریک سفر ہی نہ تھے ۔بہرام ٹھگ کی اولاد نے ایسے چنڈو خانے بنا لیے جہاں بز اخفش قماش کے مے خواروں کے لیے کور مغزی ،بے بصری ،بے ضمیری ،بے غیرتی،بے حسی اوربے حیائی سے لبالب بوتلیں کثرت سے دستیاب تھیں ۔چُلّو میں اُلّو بن جانے والے یہ ابلہ معاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کرنے پر تُل گئے ۔اِن کے عہد و پیمان ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی تحریرثابت ہوئے جسے سیل زماں کے مہیب تھپیڑے بہا لے گئے ۔ اسلوب کی برجستگی پروفیسر عنایت علی خان کی ظریفانہ شاعری کاامتیازی وصف ہے ۔ اُن کی نظم ’’ المیہ اورطربیہ ‘‘ اور ’’ مذاق ہی مذاق میں ‘‘ زندگی کے تضادات کے حوالے سے گہری معنویت کی حامل ہیں ۔ ذوقِ سلیم سے متمتع اُن کے سیکڑوں مداح مزاحیہ مشاعروں میں اُن کے پُر لطف اشعار مذاق ہی مذاق میں اکثرپڑھتے جنھیں سُن کر سامعین جھوم اُٹھتے تھے:
ہم اُن کو لائے راہ پر مذاق ہی مذاق میں
بنے پھر اُن کے ہم سفر مذاق ہی مذاق میں
ہوا ہے جدے میں جو اِک مزاحیہ مشاعرہ
ہم آ گئے خدا کے گھر مذاق ہی مذاق میں
یہاں عنایت ؔ آ پ کو مشاعرو ں کی داد نے
چڑھا دیا ہے بانس پر مذاق ہی مذاق میں
پروفیسر عنایت علی خان کا شمارپاکستان کے ممتاز ماہرین تعلیم ،ماہرین علمِ بشریات اورماہرین آثا ر ِ قدیمہ میں ہوتاتھا۔تاریخ اور اُس کے مسلسل عمل پر گہرایقین رکھنے والے اس ماہر عمرانیات نے مشرقی تہذیب و تمدن،ارضی و ثقافتی حوالوں اور پاکستانی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اِسلام ،ارضِ وطن ،اہلِ وطن اور اُردو زبان کے ساتھ والہانہ محبت اورقلبی وابستگی ان کا بہت بڑا اعزاز و امتیا ز تھا۔پس نو آبادیاتی دور میں جذبۂ قومیت کو مستحکم کرنے کے سلسلے میں پروفیسر عنایت علی خان کی مساعی تاریخ ِ ادب کا درخشاں باب ہے ۔ریڈیو پاکستان ،پاکستان ٹیلی ویژن اور مشاعروں میں پروفیسر عنایت علی خان کی شمولیت سے خوب سماں بندھتا تھا اور سامعین ہمہ تن گوش ہو کر ان کا کلام سنتے تھے۔اُن کی گل افشانیٔ گفتارکے خاص موضوعات میں حالاتِ حاضرہ ،معاشرتی زندگی کے تضادات،سماجی مناقشات اورعمرانی مسائل شامل ہیں ۔اُن کے کئی اشعار تو ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں مثلاً:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
پس نو آبادیاتی دور میں پاکستان میں سیاسی عد م استحکام نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ۔ میاں محمد نواز شریف کی سیاسی پارٹی مسلم لیگ ( ن) اورپاکستان پیپلز پارٹی جس کی قائد محترمہبے نظیر بھٹو تھیں آپس میں جھگڑتی رہتی تھیں ۔سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اختلافات نے عام ووٹرزکو پریشان کر دیا اور وہ عام انتخابات میں حق رائے دہندگی استعمال کرتے وقت کسی فیصلہ کن موڑ پر نہ پہنچ سکے ۔ ان حالات میں ووٹر عجیب مخمصے میں تھے کہ انتخابی دنگل میں کس پارٹی کوووٹ دیں ۔ پروفیسر عنایت علی خان نے اس صورت حال کے بارے میں لکھا ہے :
پہنچا گئے ہیں ا لیکشن کے پھر دوارے پر
تم ہی بتاؤ مِرے بھائی کِس طرف جائیں
اِدھر میاں ہے اُدھر مائی کِس طرف جائیں
اِدھر کنواں ہے اُدھر کھائی کِس طرف جائیں
بچوں کی نفسیات سے پروفیسر عنایت علی خان واقف تھے ۔انھوں نے جانوروں کی سبق آموز کہانیوں سے نئی نسل کو محبت ،اخوت ، محنت ،لگن اورفرض شناسی کا درس دیا ۔سال 2003ء میں پروفیسر عنایت علی خان کوبچوں کے بہترین ادیب کا ایوارڈ مِلا۔اُن کے لکھے ہوئے بچوں کے کئی پرگرام ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئے جنھیں بچوں نے بہت پسندکیا۔ اپنی کتاب ’’ چُنو مُنو اور شیطان ‘‘ جو سال 1993ء میں دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آبادکے زیر اہتمام شائع ہوئی میں اُنھوں نے ایک بکری اور اُس کے دو بچوں چُنو اور مُنو کی کہانی بیان کی ہے ۔بکری اپنے اِن ننھے بچوں کو سمجھاتی ہے:
پیارے چنا! پیارے منا!
آپس میں مِل جُل کر رہنا
آپس میں جو لڑتے ہیں
گندے بچے ہوتے ہیں
اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بکری کے یہ دونوں بچے پیار و محبت سے رہتے تھے مگر اچانک شیطان نے اُنھیں بہکایا اور وہ ایک دوسرے کے درپئے آزاررہنے لگے ۔شیطان کی اُمید بر آئی اور بکری کے بچے اپنی ماں کی نصیحت بُھلا کر آپس میں لڑتے رہتے ۔ یہ دیکھ کر شیطان خوشی سے پُھولا نہ سمایا اور کہنے لگا:
چُنو مُنو اچھے تھے
سیدھے سادے بچے تھے
عقل کے لیکن کچے تھے
جب میرے کہنے میں آئے
لالچ میں دونوں ٹکرائے
درد سے بھوں بھوں روئیں گے
رات کو بُھوکے سوئیں گے
ہی ہی ہی ہی ،ہی ہی ہی
کھی کھی کھی کھی ،کھی کھی کھی
عظیم شخصیات کی زندگی کی مثالیں نئی نسل کے لیے لائق تقلید ہوتی ہیں۔ ان عظیم المرتبت ہستیوں کی شخصیت کا حسن اور دل کشی قارئین کے دِلوں کو مسخر کر لیتاہے ۔ان سوانحی ادب پاروں کے مطالعہ سے نئی نسل کو اپنی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں رہنمائی ملتی ہے ۔پروفیسر عنایت علی خان نے واضح کیاہے کہ جس طرح پھولوں کی عطر بیزی سے پورا گلشن مہک اُٹھتاہے اسی طرح شخصیت کی دِل آویزی کے معجز نما اثر سے قریۂ جاں معطر ہو جاتاہے ۔ اپنی کتاب ’’ پیاری کہانیاں ‘‘جو دعوہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے زیر اہتمام سال1993ء میں شائع ہوئی مشہور شخصیات کی زندگی کے اہم واقعات کو موضوع بنایا ہے ۔ان کہانیوں کے عنوانات میں بھی نصیحت کا پہلو نو عمر بچوں کو متوجہ کرتاہے مثلاً:
پیارے نبی ﷺ کی بہادری ، دوسروں کے کام آنا،سُنیں گے اور مانیں گے ،اﷲ کے شیر
اپنی تصنیف ’’ رقعات ِ عنایت علی ‘‘ میں پروفیسر عنایت علی خان نے مکتوب نگاری کے حوالے سے تصریح مراتب کی وضاحت کی ہے ،درخواست لکھنے کے طریقے اورمکالمہ نگاری کے اسلوب پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ وہ اُردو زبان کے فروغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو نا گزیر سمجھتے تھے ۔ اُن کی دِلی تمنا تھی کہ وطن عزیز میں سائبر کتب خانوں کے قیام پر توجہ دی جائے ۔ کلاسیکی ادب اور نادرمخطوطات کو سکین کر کے اردو کی ویب سائٹ پر جمع کیا جائے ۔ دنیا بھر میں اُردو زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والے قارئینِ ادب کو اس ویب سائٹ تک بلا معاوضہ رسائی کی سہولت فراہم کی جائے۔ مختلف تقریبات کے لیے لکھے جانے والے رقعات کے یہ کامیاب اشارے نو آموز ادیبوں اور ادب کے طالب علموں کے لیے ہر دور میں مشعلِ راہ ثابت ہوں گے۔
پروفیسر عنایت علی خان کی گل افشانیٔ گفتار سے محفل کِشت ِزعفران میں بدل جاتی تھی ۔ اُن کی ایک مزاحیہ غزل جس کی ردیف ’’ اجازت نہیں دی جائے گی ‘‘ ملک بھر میں ہونے والے مشاعروں میں اکثرفرمائش اِس کی جاتی تھی ۔
کسمسانے کی اِجازت نہیں دی جائے گی
بِلبِلانے کی اِجازت نہیں دی جائے گی
ایک رقاص نے گا گا کے سنائی یہ خبر
ناچ گانے کی اِجازت نہیں دی جائے گی
اِس سے اندیشہ ٔ فردا کی جُوئیں جھڑتی ہیں
سَرکُھجانے کی اِجازت نہیں دی جائے گی
اِس سے تجدید ِ تمنا کی ہوا آتی ہے
دُم ہِلانے کی اِجازت نہیں دی جائے گی
اُس کے رُخسار پہ ہے اور تیرے ہونٹ پہ تِل
تِل مِلانے کی اِجازت نہیں دی جائے گی
لان میں تین گدھے اور یہ نوٹس دیکھا
گھاس کھانے کی اِجازت نہیں دی جائے گی
یہ شریعت کا نہیں گیس کا بِل ہے بیگم
بِلبِلانے کی اِجازت نہیں دی جائے گی
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں چربہ ساز ،سارق اورکفن دُزدجہلا نے اپنی جسارتِ سارقانہ سے بڑی بڑی ڈگریا ں بٹورنے کے بعد تدریس کے شعبے کو تاراج کر دیاہے۔ پروفیسر عنایت علی خان نے مصنف اور مسودہ نویس کے مابین پائے جانے والے فرق کو واضح کیا ۔اُنھوں نے چربہ ساز اور سارق جہلا کو اس طر ح آئینہ دکھایا کہ ان کی قلعی کھل گئی ۔ایک زیرک مصنف جب قلم تھام کر پرورش لوح و قلم میں مصروف ہوتا ہے تو اس کی تحریر نوائے سروش کا درجہ حاصل کر لیتی ہے اس کے بر عکس ایک متفنی چربہ ساز اپنی جعل سازی کے باعث معاشرے کی نظرو ں میں گرجاتا ہے ۔قارئین اس قماش کے مسخروں کی قلابازیوں ،ملمع کاری اور جعل سازیو ں کو لائق اعتنا نہیں سمجھتے ۔پروفیسر عنایت علی خان نے لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیو ں کا تمام احوال نہایت دیانت داری سے بیان کیا ہے ۔گلشن ادب کو ان کے مسموم اثرات سے نجات دلانے کے لیے پروفیسر عنایت علی خان نے فکری سطح پر جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ تاریخ ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔اُنھوں نے حق گوئی اور بے باکی کو جس طر ح اپنایا اس کی بنا پر تاریخ ہر دور میں اُن کی تعظیم کرے گی ۔
مکتبی تنقید کے سطحی انداز فکر اور کھوکھلے پن کی وجہ سے پروفیسر عنایت علی خان نے اُسے کبھی قابل اعتبا رنہ سمجھا۔اُن کا خیال تھا کہ مکتبی نقادو ں نے اپنی بے بصری ،کو رمغزی اور جہالت مآبی کی وجہ سے تنقید کو بازیچۂ اطفال اور پشتارۂ اغلاط بنا دیا ہے ۔کور مغزمعلمین کی کوتاہ اندیشی کے نتیجے میں مکتبی تنقید وجود میں آئی جس کی وجہ سے سنجیدہ تحریروں کے حسن و قبح کو زیر بحث لانے کا سلسلہ رو بہ زوال ہے ۔مکتبی تنقید میں تاریخ ،نفسیات ،لسانیات اور نظریات کا حقیقی شعور عنقا ہے ۔ پروفیسر عنایت علی خان نے خود نوشت اور آپ بیتی کی اصلیت کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہارکیا۔ وہ آزادی ٔ تحریر اور آزادیٔ اظہار کو انسانی آزادی کی ایک صورت سے تعبیرکرتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ جبر کا ہر انداز مسترد کرنا اور ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا کو ضوفشاں رکھنا حریت فکر کے مجاہدوں کا شیوہ ہو تا ہے ۔متاعِ لوح وقلم چھن جانے کے باوجود بھی یہ لوگ خون دل میں انگلیاں ڈبو کر حرف صداقت لکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ پروفیسر عنایت علی خان نے ظلم کے تمام ضابطے مسترد کر نے پر اصرار کیا کیونکہ ان کی وجہ سے آزادی ٔاظہار کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں ۔اُنھوں نے یہ بات ببانگ دہل کہی کہ روشنیو ں کی راہ میں جو بھی دیوار بنتا ہے سیل زماں کے تھپیڑے اُسے خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں ۔اُنھوں نے اپنی شگفتہ تحریروں میں اپنے پیشے سے وابستہ حریص لوگوں کا تمسخر بھی اڑایاہے۔اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز رفقا کی کوتاہیوں پر گرفت کرنے کے لیے بڑے ظرف ،حوصلے اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔اُنھیں مدت سے جو حسرت انصاف تھی اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اُنھوں نے خود اپنے پیشۂ تدریس کے خلاف بھی کئی فیصلے صادر کر دیئے ۔اپنی ظریفانہ شاعری میں اُنھوں نے بڑے دلچسپ انداز میں زندگی کے اُن تلخ حقائق سے پردہ اُٹھایا ہے جن کے نتیجے میں زرومال کی ہوس نے ان نام نہاد مدرسین کو معاشرے میں تماشا بنادیاہے ۔ محلوں اورگلی کوچو ں میں گھوم پھر کر علم فروشی کی صدا لگانے والے جعلی معلم در اصل ایسے گُرگ ہیں جنھوں نے بھیڑ کا لبادہ اوڑھ رکھاہے ۔ اِس قماش کے مسخرے اخلاقیات اور نفسیات کے شعورسے محروم ہوتے ہیں اور اِن کی حرص و ہوس کا مظہر ہر کام مجرمانہ حد تک اَحمقانہ ہوتاہے ۔ایسے مسخرے محدودمشاہدے ، مفقود بصیرت اوراپنی جسارتِ سارقانہ کے باوجود نہایت ڈھٹائی سے رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں ۔اِن سفہا کی سادیت پسندی کی مظہر ادعائیت کے باعث اہلِ درد کی نظروں میں اِن کا اعتبار اُٹھ جاتاہے ۔ تدریس کے بارے میں کوئی واضح نظریہ اور نصب العین نہ رکھنے والے ایسے عادی دروغ گو ،محسن کش اور بروٹس قماش پیمان شکن جہلاتدریس کے باوقار پیشے کے قصر ِعالی شان کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔ اِن کی شرم ناک جہالت معاشرتی زندگی میں ان کی رُو سیاہی اور جگ ہنسائی کا باعث بن جاتی ہے ۔جامہ ٔ ابو جہل میں ملبوس اجلاف و ارذال کے پروردہ مشکوک نسب کے اِن سفہا کے مکر و فریب کا پردہ فاش کر کے پروفیسر عنایت علی خان نے ایک جہاد کا آ غازکیاہے ۔ایسے احمق اور کندہ ٔ نا تراش جو ہر وقت اپنی دُھن میں مگن فردوسِ بریں کے جلوے دیکھنے میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں ،اُن کے لیے پروفیسر عنایت علی خان کی شگفتہ شاعری تازیانۂ عبرت ثابت ہوئی ۔ پروفیسر عنایت علی خان کا خیال ہے کہ ابلہ فریبیت کے شکار ایسے جعلی اسا تذہ کی ذلت،تخریب ،نحوست ،بے برکتی اور بے توفیقی کو تہس نہس کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ پروفیسر عنایت علی خان کی ظریفانہشاعری ایک سبق آموز نصیحت بھی ہے اور عبرت کا ایک سبق بھی ۔تحریف نگاری میں بھی اُنھوں نے گہری دلچسپی لی وہ اس کے ذریعے ہر خسیس کو اپنی فردِ عمل سنبھالنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اُنھوں نے واضح کیا ہے کہ نعمت خان کلانونت کی اولاد جلتے روم کو دیکھ کر بانسری یا سارنگی بجانے میں مصروف رہتی ہے۔اس کے بعد وہ وقت آتاہے جب یہ کور مغز انسانیت کے در پئے پِندا ر ہو جاتے ہیں۔ پروفیسر عنایت علی خان نے گھر گھر جاکر پڑھانے والے کوڑیوں کے مول بِکنے والے ٹیوٹروں کے قبیح کردار اور حریصانہ روّیے پر گرفت کرتے ہوئے اُن مداریوں کے کرتب کے بارے میں لکھا ہے :
میں ٹیوٹر تھامیں گھر گھر پڑھاتا پھرتا تھا
مدرسی کی بندریا نچاتا پھرتا تھا
کہیں میں صوفے پہ بیٹھا کہیں چٹائی پر
کہیں ٹِکایا گیا کھری چارپائی پر
کہیں سے نِکلا کسی لعل کی پِٹائی پر
کسی عزیز نے ٹرخا دیا مٹھائی پر
ہر اِک قسم کے بچے پڑھا دئیے میں نے
متاعِ علم کے نلکے لگا دئیے میں نے
جو کھوٹے سکے تھے وہ بھی چلا دئیے میں نے
جو a.s.s تھے وہ c.s.s بنا دئیے میں نے
نہ قدر دان نہ کوئی صاحبِ نظر پایا
نہ گھاٹ ہی کا رہا میں نہ کوئی گھر پایا
خطاب پایا تو سُو کھا سڑا سا سر پایا
میں اپنی قوم کے بچے پڑھا کے بھر پایا
پروفیسر عنایت علی خان نے اپنی ظریفانہ شاعری میں طنز اور ظرافت میں پائی جانے والی حد ِ فاصل کو بالعموم ملحوظ رکھا ہے ۔ مشرقی روایات کے مطابق اصلاح اور مقصدیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اُنھوں نے طنز کا بر محل استعمال کیا ہے ۔ملی اقدار و روایات، مشرقی تہذیب و ثقافت کی بالادستی اور جذبۂ حب الوطنی سے سر شار ہو کراُنھوں نے معاشرتی زندگی کے بے ہنگم ارتعاشات اور تضادات کو طنز کا نشانہ بنایا ہے ۔اُن کا خیال ہے کہ طنز کے وسیلے سے نہ صرف سماج اور معاشرے کو احتسابِ ذات پر مائل کیا جا سکتا ہے بل کہ اس کے معجز نما اثر سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام بھی ممکن ہے ۔ایک فطین ،معاملہ فہم اور جری تخلیق کار کی حیثیت سے پروفیسر عنایت علی خان نے معاشرتی اور سماجی زندگی کے عیوب اور کجیوں کوطنز کا ہدف بنایا ہے ۔
اپنے اسلوب اور تخلیقی فعالیت کے اعجاز سے پروفیسر عنایت علی خان نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اترنے کی جو سعی کی ہے وہ سنگلاخ چٹانوں اور جامدو ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو الیتی ہے ۔اُنھوں نے زندگی کے جملہ اسرار و رموز کی گر ہ کشائی کرتے ہوئے معاشرتی عیوب کی جس طرح جراحت کی ہے وہ اُن کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ پروفیسر عنایت علی خان نے اپنی گل افشانیٔ گفتار سے قاری کو اس جانب متوجہ کیا ہے کہ نوشتۂ تقدیر کو بدلنا منشائے قدرت کے خلاف ہے مگر ابن الوقت مورخین کی جعل سازی کے باعث ہمیں یہ دِن دیکھنے پڑے ہیں کہ حقائق کی تکذیب اور واقعات کی تمسیخ روز کا معمول بنتا جا رہاہے ۔پروفیسر عنایت علی خان کی شگفتہ بیانی کو محض ہنسی مذاق اور تفنن طبع پر محمول نہیں کیا جا سکتا بل کہ اس کے پس پردہ مشرقی تہذیب سے محبت ،قومی دردمندی اور معاشرتی اصلاح کے ارفع جذبات کار فرما ہیں ۔ بادی النظر میں اُن کے شگفتہ اسلوب میں حرفِ صداقت کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے ۔جہاں تک طنز و ظرافت کا تعلق ہے اُس کی نشتریت مقصدیت اور افادیت سے شپرانہ چشم پوشی کور مغزی اور بے بصری کی دلیل ہے۔ پروفیسر عنایت علی خان نے جس بے باکی سے معاشرتی زندگی کی کوتاہیوں کوہدف تنقید بنایا ہے اُس کے اعجاز سے طنز و مزاح کو ثمر بار کرنے میں مدد ملی ہے ۔ حصول ِ رزق حلال کے لیے بیرونِ ملک جا نے والے غریب الوطنی کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں ۔اُن کے لواحقین کی حریص نگاہیں اُن کی بھیجی ہوئی دولت پرہوتی ہیں نہ کہ اُن کی شخصیت پر ۔ اپنی جنم بھومی کی محبت اور گھر کے اُداس بام ،کُھلے در جب بیرون ملک روزگار کے لیے جانے والوں کو پکارتے ہیں تو اُن کے خود غرض اور حریص لواحقین اُنھیں واپس آنے سے روکتے ہیں اور مزید زرومال جمع کرنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ہوسِ زرکے اس بڑھتے ہوئے رجحان پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے:
ابھی نہ آؤ لوٹ کر کہ گھر ابھی بھرا نہیں
بڑے نے جو لگائی تھی دُکان وہ چلی کہاں
میرے چچیرے بھائی کی بھی فیکٹری لگی کہاں
تمھارے چھوٹے والے کی بھی لاٹری کُھلی نہیں
ابھی تو چھوٹی والی کا جہیز بھی بنا نہیں
تمھارا وہ پلاٹبھی ہے جوں کا توں پڑا ہوا
ڈرافٹ کوئی بھیجتے جو ٹھیک سا تو ٹھیک تھا
دُکانوں اور فلیٹس کی بُکنگ کا ذکر کیا کیا
ابھی تو ٹھیکے دار سے بھی تذکرہ ہو ا نہیں
ابھی نہ آؤ لوٹ کر کہ گھر ابھی بھرا نہیں
ابھی گئے برس جو تم مہینا بھر کو آئے تھے
تو سارے گھر کے واسطے عذاب ساتھ لائے تھے
عجب عجب نصیحتیں بِلا وجہ کی حُجتیں
میرے فلاں ڈرافٹ کی رقم کا تم نے کیا کیا
فلاں فلاں خطوط کا جواب کیوں نہیں دیا
فلاں پلاٹ کیوں لیا فلاں فروخت کیوں کیا
خیال گھر کی بہتری کا آپ کو ذرا نہیں
ابھی نہ آؤ لوٹ کر کہ گھر ابھی بھرا نہیں
ہوئے ہیں آ ٹھ سال ہی ابھی تمھیں گئے ہوئے
چچا ہیں بیس سال سے دبئی میں لگے ہوئے
جو دِل کو دِل سے راہ ہو تو کچھ نہیں یہ فاصلے
چچا کو کچھ ہوا نہیں چچی کو کچھ ہوا نہیں
ابھی نہ آؤ لوٹ کر کہ گھر ابھی بھرا نہیں
پروفیسر عنایت علی خان کی ظریفانہ شاعری میں قومی دردمندی اور اصلاح و مقصدیت کو اسی قدر اہمیت دی گئی ہے جس طرح ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی زلف گِرہ گیر کا اسیر ہونے کے بعد حُسنِ ِ بے پروا کے جلووں کے لیے بے تاب اور محبوب سے ہم کلام ہو کر اس کی گویائی کے دوران اس کے لبوں سے جھڑنے والے پُھولوں کی عطر بیزی سے قریہ ٔجاں کو معطر کرنے کا آرزو مند رہتا ہے ۔ پروفیسر عنایت علی خان کی فیض رساں ظریفانہ شاعری سے قارئین کے ذوقِ سلیم کو صیقل کرنے میں بے پناہ مدد ملی ہے ۔سید محمد جعفر زٹلی سے لے کر پروفیسر عنایت علی خان تک اردو شاعری میں طنزو مزاح کی ایک مضبوط و مستحکم روایت پروان چڑھی ہے ۔ اُردو شاعری میں طنزو مزاح کی اس درخشاں روایت کو اردو شاعری کی فکری منہاج اور ذہنی استعداد کے معائر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔اردو کی ظریفانہ شاعری کی اس درخشاں روایت کو ہر دور میں قارئین ادب کی جانب سے جو فقید المثال پذیرائی نصیب ہوئی ہے وہ ہر لحاظ سے لائق صد رشک و تحسین ہے ۔ پروفیسر عنایت علی خان کی ظریفانہ شاعری اُن کے فکر و خیال کی دنیا کے بارے میں قاری کو ایک جہانِ تازہ کی نوید سناتی ہے ۔یہ ظریفانہ شاعری جبر و استبداد کے مسلط کردہ حبس کے ماحول میں تازہ ہوا کے ایک جھونکے کے ما نند ہے ۔اس شگفتہ شاعری کے مطالعہ سے قاری پر افکار تازہ کے وسیلے سے جہان تازہ تک رسائی کے متعدد نئے امکانات واضح ہوتے چلے جاتے ہیں ۔اس شاعری میں ایک پیغام عمل بھی ہے اور ایک فغاں بھی ،ایک درد بھی ہے اور ایک جراحت بھی ۔ خوابوں کی خیاباں سازیاں جذباتی لوگوں کو مسحور کر دیتی ہیں ۔ایسے لوگوں کی خود فریبی کا یہ عالم ہے کہ ہر قدم پر نت نئے سوانگ رچا کر ،نئے مکھوٹے سجا کر موقف بدل کر قلابازیاں کھانے پر اُدھارکھائے بیٹھے رہتے ہیں۔ پروفیسر عنایت علی خان نے اپنے تجربات و مشاہدات کو جن اشاروں کے ذریعے محفوظ کیا ہے اپنی ظریفانہ شاعری میں اُنھیں رنگ ،خوشبو،حسن ،خوبی اور تکلم کے سبھی سلسلوں کے استعاروں کا رُوپ عطا کر کے جامد و ساکت بتوں پر تیشہ ٔ حرف سے کاری ضرب لگائی ہے اور در کسریٰ میں موجود حنوط شدہ لاشوں کی بے حسی اور مکر کا پردہ فاش کیا ہے ۔خندۂ زیر لب کی ہر کیفیت اس ابد آشنا تخلیق کار کی بصیرت کی مظہر ہے ۔یہ شاعری قاری کے فکر و خیال کو اس طرح مہمیز کرتی ہے کہ اس پر فکر و نظر اور خیال افروز بصیرتوں کے متعدد نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔سفاک ظلمتوں اور ہجوم غم میں دل کو سنبھال کر آگے بڑھنے کا جو پیغام قاری کو اس شگفتہ شاعری سے ملتا ہے وہ اسے مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیتا ہے ۔
ایک ظریف الطبع تخلیق کار کی حیثیت سے پروفیسر عنایت علی خان نے خالص مزاح اور طنز کے حسین امتزاج سے اپنی شاعری کو دو آ تشہ بنا دیا ہے ۔اُنھوں نے بذلہ سنجی سے آگے بڑھ کر طنز کے ذریعے جراحتِ دِل کا جو اہتمام کیا ہے اُس سے اُن کی ظریفانہ شاعری کی تاثیر کو چار چاند لگ گئے ہیں ۔انسانیت کے سا تھ بے لوث محبت کرنے والے اس تخلیق کار نے جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ انسانیت
کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظربنایا ہے وہ اسے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام عطا کرتا ہے ۔ مظلوم ،دُکھی اور بے بس و لاچار انسانیت کے ساتھ اُنھوں نے جو پیمان وفا اُستوار کیا ہے، اِسے وہ علاج گردش لیل و نہا ر قرار دیتے ہیں ۔اُن کی ظریفانہ شاعری میں ایک تخلیقی شان ،جدت فکر اور علمی وقار موجود ہے ۔اس میں کہیں بھی پھکڑ پن اور ابتذال کا شائبہ تک نہیں گزرتا ۔ اُن کے اسلوب میں تخلیق کار کی علمی اور تخلیقی سطحِ فائقہ قابل توجہ ہے ۔ پروفیسر عنایت علی خان کی ظریفانہ شاعری میں اُن کے تخلیقی اور لا شعوری محرکات کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رہتا ۔اُنھوں نے اپنے عہد کے حالات اور واقعات کو اپنی ظریفانہ شاعری کا موضوع بنایا ہے ۔ پروفیسر عنایت علی خان نیمعاشرتی زندگی بڑھتے ہوئے جبر و استبداد ،تعصبات ،علاقائی اور لسانی امتیازات اورشقاوت آمیز نا انصافیوں کے خلاف طنز کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ۔ وہ اپنی مثبت سوچ کے اعجاز سے خوش گوار نتائج کے حصول کے آرزو مند ر ہے۔ اگرچہ عملی زندگی میں اُن کے تجربات اور مشاہدات اُمید افزا نہیں رہے اس کے باوجود اُنھوں نے سدا حوصلے اور اُمید کی مشعل فروزاں رکھنے پر اصرار کیا ۔اپنی ظریفانہ شاعری میں اُنھوں نے ظالم و سفاک مُوذی و مکار استحصالی عناصر اور جابر قوتوں کو بر ملا ہدف تنقید بنایا ہے ۔اُنھیں صرف تعمیری انداز فکر سے دلچسپی رہی کسی کی تخریب کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہ تھا۔اُنھوں نے نہایت اخلاق اور اخلاص سے کام لیتے ہوئے طنزو مزاح کی وادی میں قدم رکھا ۔ جب آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو تخلیق ادب میں بھی متعدد نئی جہات سامنے آئیں اُردو کی ظریفانہ شاعری پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں مجید لاہوری ، نذیر احمد شیخ ،سید محمد جعفری ،سید ضمیر جعفری ،دلاور فگار ،سید مظفر علی ظفر ،خواجہ شائق حسن ،خضر تمیمی ا ور اُن کے معاصرین نے اپنی شاعری میں آزادی کے بعد رُو نُما ہانے والے پریشان کن حالات کے بارے میں اپنی تشویش کا بر ملا اظہارکیا ہے ۔ پروفیسر عنایت علی خان ایک عظیم محب وطن پاکستانی ادیب اور دانش ورتھے ۔اُن کی وفات ایک بہت بڑا قومی نقصان ہے ۔اُن کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اُسے طویل عرصہ تک محسوس کیا جاتا رہے گا۔
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 679924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.