ہمارا نظامِ تعلیم

انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ادھورا ہے۔ وہ کیسے؟؟چھٹی جماعت سے ہمیں ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے جس کا نام ہے سائنس، بلاشبہ یہ مضمون مڈل کی جماعتوں میں بھی ہوتا ہے لیکن صحیح معنوں میں سائنس چھٹی جماعت میں پڑھی جاتی ہے۔ اب ہوتا کیا ہے کہ چھٹی جماعت میں ہمیں طالب علموں کو سائنس پڑھانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ٹیچر آکر ریڈنگ کرواتی ہیں اور کہتی ہیں کہ کل اتنا یاد کر کے آنا ہے۔ اور پھر اگلے روز جس طالب علم کی ایک لفظ کی بھی غلطی ہوتی ہے تو اسے ڈانٹ دیا جاتا ہے۔ ایک منٹ رک جائیے۔۔میرا آپ سے معصومانہ سوال ہے کہ کیا یہ مضمون رٹا لگانے والا تھا؟؟ کیا وہ طالب علم اتنا بے وقعت ہے کہ اس کی ساری صلاحتیں رٹا لگانے میں صرف کر دی جائے؟؟ کیا غور کیا ہے کہ آج سائنسدان اور ریسرچر کیوں پیدا نہیں ہو رہے؟ چھٹی جماعت کے اس رٹے کی وجہ سے۔ اب آپ اگر حیران ہیں تو گزارش کروں گی کہ دیکھیں وہ طالب علم جسے چھٹی جماعت سے رٹا لگانا سکھایا ہے۔ وہ چھٹی جماعت میں رٹا لگائے گا۔ پھر امتحان دینے کے بعد جب وہ ساتویں جماعت میں بیٹھے گا تو اس کا دماغ پچھلا سارا رٹا بھول چکا ہو گا۔ وہ بالکل کلئیر مائنڈ کے ساتھ اگلی جماعت میں بیٹھے گا۔ تو کیا اس کا ایک سال پڑھائی کے باوجود ضائع نہیں ہو گیا؟؟ رٹا۔۔۔آہ۔۔یہ رٹا تو امتحان میں بھی بھول جاتا ہے اگلی کلاس کی تو بات ہی بہت دور نکل جاتی ہے۔۔ چلیں یہ تو ہوگیا۔ اب ساتویں جماعت میں بھی وہی ٹیچر اس طالب علم کو پڑھائے گی۔ اور رٹے لگا لگا کر طالب علم کے دماغ پر زنگ لگتا جاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہتا ہے۔ چھٹیٖ ساتویںٖ آٹھویں۔۔یہ تین جماعتیں جس میں ایک طالب علم کی بنیاد بنتی ہے۔ تو کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ اس طالب علم کی بنیاد میں رٹا سسٹم رکھ دیا گیا۔ آہ افسوس! کہ وہی طالب علم 89% لینے کے باوجود اپنی کتابوں کے بنیادی کانسیپٹ بھی نہیں جانتا ہو گا۔ تین سال سائنس پڑھنے کے باوجود اسے سیل تک کی ڈیفینیشن نہیں آتی ہو گی۔ جانتے ہیں کیوں؟؟ وہی خوبصورت رٹا۔۔ارے بھئی اب رٹے سے کوئی معائدہ تو طے نہیں ہوا تھا ناں کہ تین سال بعد بھی یاد رہے گا۔ آٹھویں جماعت پڑھنے کے بعد بھی اس طالب علم کا دماغ خالی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے چھٹی جماعت میں آیا تھا۔ اب آگے کیا ہو گا۔ نویں اور دسویں جماعت میں جب ٹیچر اس سے پوچھے گا کہ بتاؤ کیا پڑھا تین سالوں میں۔۔ وہ طالب علم اگلے کی سیٹ کے پیچھے چھپے گا۔ یقین جانیے 85% لینے والے سیٹوں کے پیچھے چھپتے ہیں۔ اور اگر کوئی ٹیچر اسے کھڑا کے لے تو وہ چپ ہو گا۔ ارے بھئی ظاہر ہے اب رٹا تو بھول چکا ناں! ٹیچر اسے ڈانٹے گا کہ تین سال پڑھ پڑھ کر بھی کچھ نہیں آتا۔ آپ سوچیں۔۔صرف ایک منٹ! اس طالب علم نے ان تین سالوں میں اپنا پورا ان پُٹ دیا تھا۔۔لیکن اب اسے پوری کلاس کے سامنے بیعزتی سہنی پڑ رہی ہے۔ تو کیا عزت رہے گی اس کی اپنی نظروں میں۔ ایک بات بتاؤں۔۔چلیں بتا دیتی ہوں۔۔ طالب علموں کا ڈیپریشن یہہں سے شروع ہوتا ہے۔ آپ تین سال محنت کریں اور چوتھے سال کوئی آپ کو کہے کہ تم نے کیا کیا ہے؟ تو کیا آپ اسے ہنستے ہوئے گلے لگائیں گے؟ نہیں ناں۔۔تو اس کا کیا جو بچہ ابھی ٹین ایج میں پہنچا ہے۔ اور ابھی سے اس کی نالائقی کے طعنے دئیے جا رہے ہیں۔ اور پھر میٹرک میں اچھے ٹیچرز ملیں یا نہیں یہ بھی کوئی لکھی ہوئی بات نہیں۔ بعض اداروں میں تو کیمسٹریٖ فزکس ٖ بائیولوجی ان سب کے رٹے لگوائے جاتے ہیں۔ اب جب بچہ وہ تین کتابیں رٹے لگا لگا کر پڑھے اور کالج جائے تو یقین جانیے وہ وہیں کھڑا ہے جہاں پانچ سال پہلے کھڑا تھا جب چھٹی جماعت میں داخلہ لینے گیا تھا۔ ایک بچے کی زندگی سے پانچ سال پانچ سال چھین لیے گئے۔۔اور پتا ہے چھینے کس نے ہیں؟ اس رٹے سسٹم نے اصل میں ہمارے اداروں میں رٹے کو گھٹی میں دیا جاتا ہے۔۔ ایک لفظ کی غلطی پر بھی ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے۔۔ تو کیا خوب ہے کہنا کہ اب کوئی سائنسدان پیدا ہو گا؟؟کیا رٹا لگا کر بھی کوئی ریسرچر بنا ہے؟ کیا رٹا لگا کر بھی کوئی سائنسدان بنا ہے؟؟

میں نہیں جانتی یہ کب سے ہے؟ لیکن بدقسمتی سے میں نے جب سے آنکھ کھولی ہے یہی ہے۔ 90% لینے کے باوجود طالب علموں کا دماغ خالی ہے۔یہ ایک طالب علم کی بات نہیں آج کے دور میں ہر تعلیمی ادارے کاہر جماعت کا یہی حال ہے۔ یہی بچے جب کسی یونیورسٹی میں جاتے ہیں تو کچھ بھی سمجھ نہیں آتا کیونکہ پہلا کچھ یاد نہیں ہوتا۔ تو پھر دو دو اکیڈمیز کے باوجود وہ اپنے وہ پانچ سال واپس نہیں لا سکتا۔۔ کیا جانتے ہیں کتنا بڑا نقصان ہوا ہے اس کا؟؟؟ ساری صلاحتیں ختم کر کے رٹے لگوائے گئے۔ تو اب یہ لیں ایک رٹے باز تیار ہے۔ اور تعلیم کا مقصد علم حاصل کرنا تو رہا ہی نہیں ہاں مگر تعلیم کا مقصد امتحان کے لیے رٹا لگانا بن چکا ہے۔ تو ہو گئی ہماری ترقی۔۔ اور بن گئی ہماری ترقی یافتہ قوم!! یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ غور کریں کہ ہو کیا رہا ہے ۔یہ سب کچھ کوئی کتابی باتیں نہیں ہیں یہ میں نے تجربہ کیا ہے۔ خدا کے لیے! نظام کو تھوڑا سا بدلیں۔ اس رٹے سسٹم کا خاتمہ کریں کانسیپٹ بنانے کی طرف توجہ دیں۔۔ سکول سسٹم جب تک ٹھیک نہیں ہو گا تب تک ترقی نہیں ہو سکتی ،بچے ہمارا مستقبل ہیں اپنے مستقبل کو خراب ہونے سے بچا لیں۔
 

Tooba Kiran
About the Author: Tooba Kiran Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.