حلیم بڑا شہ زور قسم کا بچہ
تھا۔اس کی طاقت کا اندازہ اس سے لگاؤ کہ وہ ایک ہاتھ سے بڑا بڑا اسٹول
سیدھا اُٹھا لیتا تھا۔پورے اسکول میں کوئی بھی اسے کشتی میں مات نہیں دے
سکتا تھا۔وہ اکثر و بیشتر اپنے دوست نورین کے ساتھ کشتی لڑا کرتا تھا۔
ایک دن کی بات ہے کہ حلیم اور نورین دونوں اسکول کے صحن میں کشتی لڑنے
لگے۔نورین نے بہت کوشش کی مگر بالآخر وہ کشتی ہار گیا۔
مارے غصہ کے وہ کلاس روم میں گیا اور حلیم کی ساری کتابیں اس کے بستے سے
نکال کر چھینٹ دیں۔
نورین کی یہ حرکت دیکھ کر حلیم غصے سے پاگل ہونے لگا،اپنے غصے پر قابو نہ
پاکر وہ نورین کے اوپر کود پڑا اور اس کی ناک پر ایک گھونسہ لگا دیا۔ نورین
کی ناک سے خون کا فوارہ بہنے لگا،سارا کپڑا اور کلاس روم کا فرش سرخ سرخ
ہوگیا۔
اس کے ہم جماعت ساتھیوں نے جب اس کی یہ حرکت دیکھی تو انھیں بہت دُکھ ہوا
اور پرنسپل سے جاکر شکایت کی۔
پیارے بچوں! پرنسپل نے حلیم کو بہت ڈانٹا اور اسے اس کی حرکت پر تنبیہ کرتے
ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی : ’’طاقتور وہ نہیں
جو اکھاڑے میں اپنے مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت
اپنے آپ پر قابو پا لے‘‘۔
لَیْسَ الشَّدِیْدُ بِالصُّرَعَۃِ إنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِيْ یَمْلِکُ
نَفْسَہُ عِنْدَ الغَضَبِ
(مؤطا امام مالک: ۵؍۳۹۲ حدیث: ۱۴۰۹) |