نبیل بہت ہی ضدی اور شریر بچہ
تھا،سارے بھائیوں کو پریشان رکھنا اور انھیں مارتے پیٹتے رہنا اس کا مشغلہ
تھا۔ہمیشہ گستاخانہ لہجے میں اِن سے اُن سے جھگڑے والی باتیں کرتا۔اس کی یہ
حرکتیں دیکھ کر اس کی ماں کو بہت غصہ آتا تھا ، اکثر آبدیدہ ہوجاتی پھر اسے
پیار سے سمجھاتی : پیارے! دوسروں کے احساسات کو ٹھیس نہ پہنچاؤ۔اور ان سے
کبھی سخت وکرخت لہجے میں گفتگو نہ کرو۔یہ سب بری باتیں ہیں۔
لیکن نبیل اپنی حرکتوں سے کہاں باز آنے والا تھا،وہ اپنی غلطی ماننے کے لیے
کبھی تیار ہی نہ تھا۔وہ کہتا کہ انھوں نے مجھے غصہ دلایا تو میں نے ان کے
ساتھ ایسا سلوک کیا، اس میں میرا کیا قصور ہے!۔
ایک دن اس کی ماں نے کہا کہ اگر آج شام تک تم کسی سے لڑے جھگڑے نہیں تو میں
تمہیں وہ بیلٹ خرید دوں گی جس کی تم مجھ سے فرمائش کیے جارہے ہو۔
نبیل کا اُس بیلٹ پر دل آگیا تھا اور وہ اسے ہر حال میں لینا چاہتا تھا۔ اب
اس کے بھائی اسے لاکھ غصہ دلا رہے ہیں مگر وہ بپھرنے اور غصہ ہونے کو تیار
نہیں؛ کیوں کہ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے اپنے غصے کو قابو
میں رکھنا ہے۔
جب شام ہوئی تواس کی ماں نے اسے بلایا اور کہا:بیٹے نبیل! جس طرح تم نے ایک
بیلٹ کے لیے اپنے غصے کو کنڑول کرلیا اسی طرح اللہ کی رضا کے لیے بھی ایسا
ہی کرو۔دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ پر قابو والوں کے لیے
کتنے عظیم انعام کا وعدہ فرمایا ہے : ’’جو حق پر ہونے کے باوجود کسی سے
بدلہ نہ لے(اپنے غصے کو قابومیں رکھے) اس کے لیے جنت کے بیچوں بیچ ایک محل
تعمیر کیا جائے گا‘‘۔
مَنْ تَرَکَ الْمِرَائَ وَ ہُوَ مُحِقٌّ بُنِيَ لَہٗ فِي وَسْطِ الْجَنَّۃِ
(سنن ترمذی:۷؍ ۲۷۱حدیث: ۱۹۱۶) |